لانگ مارچ عدم اعتماد، توقعات

50

پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ قریب،27 فروری کو پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو جیالوں کے ہمراہ وفاقی حکومت گرانے کراچی سے اسلام آباد کے لیے نکلیں گے اسی روز پی ٹی آئی کے کھلاڑی سندھ کے صدر اور وفاقی وزیر علی زیدی کی کمان میں سندھ حکومت کو سبق سکھانے گھوٹکی سے کراچی روانہ ہوں گے۔ شنید ہے کہ پی ٹی آئی کے قافلے میں اتحادی بھی شامل ہوں گے۔ ایسا ہوا تو پی ٹی آئی کے لشکر میں ہزاروں (حضرات گرامی ان ہزاروں کو لاکھوں تصور کریں گے) افراد کراچی میں ڈیرہ ڈالنے آئیں گے دونوں لشکروں میں کہیں ٹکرائو کہیں ملاقات ہوگئی تو کوئی سیاسی المیہ جنم لے سکتا ہے ایسے لشکروں میں تصادم کے امکانات تو موجود ہوتے ہیں۔ ایسا ہوا تو خطرناک ہوگا اللہ اپنا کرم کرے پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ کے لیے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے روح رواں آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے لاہور میں ڈیرے ڈال دیے ہیں۔ مارچ کے شرکا کی تعداد اہم ، کم سے کم جے یو آئی کے دھرنے جتنے لوگ تو ہونے چاہئیں۔ ماضی میں ٹرین مارچ میں لوگ کم تھے مخالفین نے کئی روز تک مذاق اڑایا۔ لانگ مارچ میں بندے لانے کے لیے مختلف شہروں کے وڈیروں اور وزیروں کی ڈیوٹیاں لگا دی گئی ہیں۔ اتنے طویل فاصلے کا لانگ مارچ وہ بھی تن تنہا۔ بلاول بھٹو کی ہمت کو سلام۔ سندھ میں سارے مخالف، غضب خدا کا وفاق میں برسر اقتدار پارٹی کی مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے لیکن سندھ کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم، جی ڈی اے۔جماعت اسلامی، پی ایس پی، اے این پی سمیت سبھی لنگر لنگوٹ کس کر صوبائی حکومت کے خلاف میدان میں اتر آئیں۔ سب نے دھرنوں کی رسم نبھائی۔ جماعت اسلامی کا دھرنا طویل ترین اور پر امن ترین تھا۔ شدید سردی میں لوگ نظریہ سے وفاداری نبھاتے رہے۔ صوبائی حکومت نے بالآخر رات کے پچھلے پہر مذاکرات کر کے کراچی کی قیادت کو دھرنا ختم کرنے پر آمادہ کرلیا۔ بلدیاتی بل پر دی گئی تجاویز پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی۔ ایم کیو ایم وزیر اعلیٰ ہائوس تک پہنچ گئی لیکن لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا سامنا کرنا پڑا یوم سیاہ یوم سوگ کوئی نشانی دیے بغیر گزر گیا۔ سندھ حکومت سانس بھی لینے نہ پائی تھی کہ پی ایس پی کے مصطفی کمال میدان میں کود پڑے اور’’ حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے ‘‘کے مترادف ایسے بیٹھے کہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ نعرہ بھی پی پی مخالف، روٹی کپڑا مکان نہیں اختیارات دو۔ اختیارات بھی دے دیے گئے تو دوسرے لے جائیں گے۔ مصطفی کمال کو صرف ثواب ملے گا۔ ان کی بات درست ہے کہ روٹی کپڑا مکان رب العالمین کے ذمہ جو ہر ذی نفس کو رزق عطا فرماتا ہے۔ انسان ہی ہے جو اختیار حاصل کرنے کے لیے جانیں لینے سے دریغ نہیں کرتا جبکہ اختیار دیتے ہوئے اس کی جان نکلتی ہے۔ تاہم 5 فروری کی رات صوبائی وزیر بلدیات ناصر شاہ دھرنے میں پہنچ گئے اور مصطفی کمال کو دھرنا ختم کر کے گھر جانے پر آمادہ کرلیا سیاست میں یہی ہوتا ہے۔ لانگ مارچ کی بات چلی تھی۔ پیپلز پارٹی کی نظریں اسلام آباد اور اسلام آباد والوں کی نظریں کراچی پر جمی ہیں۔ لانگ مارچ کی کامیابی کے بارے میں کچھ پتا نہیں۔ لیکن کچھ ٹھیک نہیں۔ پی ڈی ایم سے بنی نہیں۔ ورنہ اس کے ساتھ مل کر ہی لانگ مارچ کیا جاتا۔ مارچ میں میلوں لمبا مارچ
ہوتا تو کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ اپوزیشن متحد بھی ہے اور نہیں بھی دو طرفہ تماشا ندی کے دو کنارے پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں کئی بار برف پگھلی مگر پھر جم گئی۔ بلکہ گلیشئر کی شکل اختیار کر گئی۔ اتحاد صرف پارلیمنٹ کے اجلاسوں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ اندر ایک باہر دو، بزرگ کہا کرتے تھے ’’دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا۔ سراسر موم ہو یا سنگ ہوجا‘‘۔ یک رنگ ہوئے بغیر لانگ مارچ کی کامیابی مشکوک، پی ڈی ایم نے جب بھی اتحاد کا کہا پیپلز پارٹی کی سوئی تحریک عدم اعتماد پر اٹک گئی۔ ابھی تک اٹکی ہوئی ہے بلاول بھٹو نے تواتر سے یہ بات کہی کہ حکومت کو ہٹانے کا واحد راستہ تحریک عدم اعتماد ہے۔ کسی نے کان میں پھونک دیا کہ ن لیگ کے ساتھ پی ٹی آئی کے34  ایم این ایز رابطہ میں ہیں نوجوان لیڈر اصرار کرنے لگے کہ ن لیگ عدم اعتماد لائے، ایک تیر سے کئی شکار، عمران حکومت جائے ن لیگ بھی نہ آئے، تیر انتخابی نشان ہے کمان اگر چہ ہاتھ میں نہیں مگر شکار کرنے کا فن جانتے ہیں۔ آصف زرداری سیاسی میدان میں متعدد بار گر آزما چکے اس لیے گرو کہلائے امتداد زمانہ کے باوجود اب تک گرو ہیں لیکن اس کو کیا کہیے کہ حالات بدل رہے ہیں۔ حالات بآنجا رسید کہ بلاول بھٹو کہنے پر مجبور ہوئے کہ لانگ مارچ کے بارے میں 100 فیصد یقین نہیں کہ وہ کامیاب ہو گا۔ جہاں تک تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے سٹیٹ بینک ترمیمی بل پر سینیٹ میں اپوزیشن کو اکثریت کے باوجود شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ تجزیہ کاروں نے یوسف رضا گیلانی کے غائب ہونے کو وجہ شکست قرار دیا۔ حالانکہ اپوزیشن کے 9 سینیٹ ارکان غائب تھے۔ جو ہو سو ہو۔ اپوزیشن متحد نہ ہوئی تو شیخ رشید کی پیشگوئیاں سچ ثابت ہو جائیں گی کہ اسلام آباد شوق سے آئیں کچھ حاصل نہیں ہو گا سیاسی لانگ مارچ کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ صرف ڈیڑھ دو ہزار کلو میٹر سفر کرنے سے حکومت نہیں گرے گی۔ اسلام آباد پہنچ کر دھرنا بھی دیا تو اس کی کامیابی کے لیے اوپر والوں سے رابطے، تعلقات، تائید، توثیق، قربت وغیرہ ضروری ہے۔ اس کے بغیر دھرنا 126 دن کا ہو یا صرف 26 دن کا نشستند گفتند برخاستند سے زیادہ اس کی اہمیت نہیں ہو گی۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر تانک جھانک کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ابھی تک پیپلز پارٹی کو ’’کلیئرنس سرٹیفکیٹ‘‘ نہیں ملا۔ جہاں تک کلیئرنس سرٹیفکیٹ کا تعلق ہے سچ پوچھیے تو ابھی تک سارے بھاگ دوڑ کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اس کا اندازہ ’’سگنل مین‘‘  شیخ رشید کے تند و تیز بیانات سے کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ ابھی تک پنجاب میں قدم نہیں جما سکی۔ دیگر صوبوں (سندھ کے سوا) میں بھی وہ نامعلوم ہے۔ اسلام آباد آنے والوں کو پنجاب کے راستے ہی آنا ہو گا۔ پنجاب نے کندھوں پر اٹھا لیا تو پوبارہ، کندھادیا تو چوبارہ، پیپلز پارٹی اسی کشمکش سے گزر رہی ہے۔ آصف زرداری یہی سوچ کر لاہور میں خیمہ زن ہوئے بلاول کو بھی بلا لیا اور ظہرانے پر ن لیگ کی قیادت سے ملاقات بھی ہو گئی۔ ن لیگ نے کہنی سے کہنی اور مکے سے مکا ملایا سینے سے نہیں لگایا۔ تیر سے ڈرے ہوئے ہیں کئی بار نشانے پر لگا اور آر پار ہوگیا۔ ملاقات میں پھر وہی عدم اعتماد کی باتیں جو آئندہ چھ آٹھ مہینوں تک ممکن نہیں۔ اعتماد کی ڈور جلدی ٹوٹتی ہے۔ بحالی میں خاصی دیر لگتی ہے۔ پی ڈی ایم میں شمولیت کا ایجنڈا شامل ہوا تو مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف کی تائید آڑے آئے گی۔ حالات پر منحصر ہے کہ لانگ مارچ 27 فروری کو ہوگا یا پھر مشترکہ طور پر 23 مارچ کو اسلام آباد پر لشکر کشی پر اتفاق ہو گا۔ سیاسی محاذ پر نظر آنے والی سرگرمیوں سے قطع نظر بند کمروں میں بھی کچھ ہو رہا ہے۔ مائنس پلس کا حساب کرنے اور رکھنے والوں کے پیش نظر سب کچھ ہے۔ کسے مائنس کریں کسے پلس، چار کو مائنس کر دیں تو دوسرے چار کہاں سے لائیں۔ موجودہ حکومت کی مقبولیت میں روز بروز ہونے والی کمی تشویش میں مبتلا کرتی ہے۔ مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ ہے 99فیصد عوام مہنگائی سے پریشان ہیں۔ 84 فیصد اسے سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ 63 فیصد دولت واپس نہ لینے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں80 فیصد بیروزگاری کو اہم ترین مسئلہ قرار دے رہے ہیں ادھر حکومت قرضوں پہ قرضے لے رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے چھٹی قسط ملنے پر وزیر خزانہ نے الحمدللہ کہا۔ سیاسی محاذ سے قطع نظر دہشتگردوں نے بھی آنکھیں کھول لی ہیں۔ افغان سرحد اور بلوچستان میں چوکیوں پر حملوں نے سکیورٹی فورسز کے ساتھ پوری قوم کو الرٹ کردیا ہے۔ نوشکی اور پنجگور میں حملہ کرنے والے 13 دہشتگردوں کو ہلاک کردیا گیا۔ ہمارے 7 بہادر فوجی بھی شہید ہوئے پوری قوم نے جرأت مند اور دشمن کے مقابلے میں سینہ سپر اپنے بہادر فوجیوں کو سلام پیش کیا۔ ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘‘ سو باتوں کی ایک بات حکومت لانگ مارچ سے نہیں اپنے ہی بوجھ سے گرے گی۔

تبصرے بند ہیں.