حکومت، اپوزیشن گرماگرمی، سردی کی شدت، گیس بجلی کی عدم دستیابی میں درجۂ حرارت اوپر لانے کا کام کرتی ہے۔ اسی دوران ایک خبر اور ایک تصویر نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو شدیدصدمہ پہنچایا۔ انہوں نے لندن سے للکارا کہ ہلاکت کے ذمہ داروں کو عبرتناک سزا دیں۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ کہ مظفرآباد میں دریائے نیلم کے کنارے شکاری کی گولی سے زخمی ہونے والا تیندوا دوران علاج چل بسا۔ اسے فوری طور پر اگرچہ اسلام آباد منتقل کردیا گیا تھا مگر بچایا نہ جاسکا۔ خبر کے ساتھ ہی آنجہانی تیندوے کی رعب داب والی تصویر، رسی سے بندھا پاؤں لیے گاڑی میں پورے دم خم سے بیٹھا، شیر کا کزن دکھائی دے رہا ہے۔ سابق وزیراعظم نے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’وائلڈ لائف (جنگلی حیات) کا تحفظ بہت ضروری ہے‘ ۔اگرچہ جہاں تک جنگلی حیات کا سوال ہے، پاکستان میں تمام تر تحفظ جنگلی حیات ہی کو حاصل ہے۔ مہذب پاکیزہ سلجھی حیات کی چاہت رکھنے والے تو گزشتہ 20 سال سولیوں پر ٹانگے گئے یا عقوبت خانوں میں ٹھونسے گئے۔ امریکا کے ہاتھوں پورے گلوب پر بھیڑیوں، لگڑبھگوں، لومڑیوں نما انسانوں کا دوردورہ ہے۔ ان کی چھیڑی جنگوں سے اگرچہ کوئی ذی حیات بھی عافیت میں نہیں۔ ماحولیاتی نظام میں بارودی تباہ کاریوں نے ناقابل تصور عدم توازن پیدا کیا ہے۔ ایک کروڑ 70 لاکھ جانور برازیل جنگل کی آگ سے ہلاک ہوگئے۔ ایک صدی میں مارے جانے والے ایک کروڑ مسلمان تو تھے ہی، محبوب جانور بھی بھینٹ چڑھ گئے۔ آپ ایک تیندوے کو رو رہے ہیں۔ تیندوے کی تصویر نے جانور پرستوں کو بہت دکھی کیا۔ تاہم اب تو پاکستانی عوام اپنی معاشی کسمپرسی کے ہاتھوں جنگلی حیات کا مرقع بنے پڑے ہیں سر جھاڑ منہ پہاڑ آٹا، چینی، دال بھات سبھی دسترس سے باہر ہیں۔ دوسری جانب ناچنے گانے بجانے والا طبقہ کچھ کم وائلڈ لائف کا مظہر نہیں۔ فیشن پرست مرد پھٹی ادھڑی جینز پہنے، خواتین ہونق تصاویر میں صنف نازک کم اور جنگلی حیات سے زیادہ مشابہت رکھتی ہیں۔ سیاست دانوں کے دھواں اگلتے بیانات الگ تیندوؤں کی خوبولیے ہوئے ہیں۔ عجب منظر نامہ ہے۔ لگتا ہے اب مالی امداد کے یے بھی ہمیں WWF ، یعنی فنڈ برائے تحفظِ ’جنگلی حیات‘ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ وزیراعظم نے عوام سے براہ راست بات چیت میں غراتے ہوئے دھمکی دی ہے۔ ’اگر حکومت سے نکالا گیا تو میں زیادہ خطرناک ہوںگا، وزیراعظم ہونے سے بھی زیادہ خطرناک۔ (ابھی تو وزارت عظمیٰ کی زنجیر پاؤں میں پڑی ہے راولپنڈی ساختہ۔) ابھی تو میں خاموشی سے دفتر میں بیٹھا ڈراما ہوتا دیکھ رہا ہوں، باہر سڑک پر نکل آیا تو تمہارے پاس چھپنے کی کوئی جگہ نہ ہوگی۔‘ تیندوا اس چیتے کو کہتے ہیں جو ایک ہی جست میں کام تمام کردیتا ہے سو مشابہت دیکھ لیجیے اس بیان میں۔ ان کے کارکن چیتے کہلاتے ہیں۔ سو اپوزیشن ذرا ہاتھ ہولا رکھے، دھمکی سخت ہے!
یہ خبر بھی اس دوران آئی کہ ترک صدر اردوان کے عارضۂ قلب کا علاج اسرائیلی ماہرِ امراضِ قلب سے ہوگا۔ حیرت ہے! جس عطار کے ہاتھوں پورا مشرق وسطی دل کا مریض ہوگیا، سعودی عرب تا متحدہ عرب امارات۔ امت اس حال کو پہنچی ہے کہ ان کے ہاتھ یمن کے گریبان پر اور یمن ان پر چڑھ دوڑا۔ اسرائیل پھپھٹ باز فسادی فوری دفاعی ساز وسامان لیے ابوظہبی مدد کو آن پہنچا۔ کشنر فساد کے سارے بیچ بوکر منقار زیر پر ہوگیا۔ اب اسی مطب سے اردوان کی دوا ہوگی؟ یا للعجب!
افغانستان پر بائیڈن ایک مرتبہ پھر کراہ کر بولے ہیں۔ ان کا بیان تاریخ میں امریکی شکست کے تناظر میں ثبت رہے گا۔ ’افغانستان کو متحد کرنا ممکن نہیں۔ ہم 20 برس ہر ہفتے (اس اتحاد پر) ایک ارب ڈالر خرچ کر رہے تھے۔….. یہ سلطنتوں کا قبرستان رہا ہے۔‘ جس اتحاد پر کھربوں ڈالر خرچ کیے گئے، وہ اسلامی افغانستان کی تہذیب، مزاج اور فطرت کے خلاف حیا سوز کفریہ تہذیب کاشت کرنے کو قائم ہوا تھا۔ اس کے مقدر میں تاش کے پتوں کی طرح بکھر جانا ہی لکھا تھا۔ اس نئے قبرستان کی تصدیق امریکی میڈیا میں افغانستان میں تابوت بنانے والے کارخانہ داروں کے انٹرویو سے ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ تابوت بنانے والے، طالبان کے آنے سے بے روزگار ہوگئے۔جنگ ختم ہوگئی، اس پر تو ہم خوش ہیں تاہم ہمارا کاروبار ٹھپ ہوگیا! 20 سال ان کی چاندی رہی۔ افغان معیشت میں تابوت سازی منافع بخش ذریعہ روزگار تھا۔ تابوتوں کی ضرورت طالبان کو نہ تھی۔ غیرملکی فوجی دھڑادھڑ تابوت بند اپنے ملکوں کو لوٹتے رہے۔ پہلے تو تنہا تنہا روس اور برطانیہ کے قبرستان آباد ہوئے۔ اس مرتبہ چھوٹی بڑی سبھی عالمی قوتوں نے حصہ پایا! اتنے مہنگے قبرستان دنیا میں اور کہاں ہوںگے۔ 20 سال اور کھربوں ڈالر کا ماحصل! فاعتبروا!
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو! کمال تو یہ ہے کہ اس کے باوجود امریکا نے پوری ڈھٹائی سے اعلان فرمایا، بائیڈن کی زبانی: ’افغانستان کے منجمدکئے گئے 10 ارب ڈالر ہم 11/9 کے متاثرین کو دیںگے!‘ یہ اپنی نئی شامت بلانے کے مترادف ہے۔ باوجودیکہ اب تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ یہ بہت بڑی غلطی ہوگی کہ افغان عوام کو برسر اقتدار حکومت کے درست رویہ اختیار نہ کرنے کی سزا دی جائے۔ انہوںنے امداد دینے والے ممالک سے یہ بھی کہا کہ افغان انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے فوری 4.4 ارب ڈالر درکار ہیں۔ یاد رہے کہ افغان بجٹ گزشتہ 20 سال سے 80 فیصد بین الاقوامی امداد پر چلتا تھا جو یک لخت رک گئی۔ خود افغانستان کے 10 ارب ڈالر امریکا دبوچے بیٹھا ہے۔ سو یہ معجزے سے کم نہیں کہ تقریباً ساڑھے پانچ ماہ سے طالبان حکومت کام چلا رہی ہے۔ بدعنوانی ختم کرکے، کفایت شعاری سے، اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر۔ پھر بھی سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائی، غذائی قلت کی کُل ذمہ داری امریکا اور یورپی یونین پر ہے۔ طالبان وفد، وزیر خارجہ امارت اسلامی کی سربراہی میں مذاکرات کے لیے ناروے گیا ہے۔ سارا پیسہ روکنے کی وجوہات میں سب سے بڑی، مٹھی بھر اندرون افغانستان وبیرون ملک آزادی طلب چند سو عورتیں ہیں جو بھرے پیٹ لیے اوسلو میں بھی چھوٹا سا مظاہرہ کرنے نکلیں۔ ان کی شتر بے مہاری کے حقوق غصب ہونے کے نام نہاد الزام پر افغانستان پر بھوک افلاس مسلط کی جا رہی ہے۔ یہاں عورت کے یہ عالمی غم خوار اور حقوق کے پرچارک آنکھ اٹھاکر بھی شام کے پناہ گزین کیمپوں میں برفباری سے ٹھٹھرتی 46 ہزار سے زائد بیوہ خواتین اور ان کے ایک لاکھ 98 ہزار یتیم بچے دیکھنے کے روادار نہیں۔ خوراک اور ادویہ کی قلت، شدید برفباری میں گھرے 15 لاکھ پناہ گزین افراد! سٹیلائٹ سے زمین پر رینگتی چیونٹی دیکھنے والے عالمی چودھری قساوت قلبی کی آخری انتہاؤں پر ہیں۔ بشار الاسد کی حکومت، امریکا روس کی مکمل پشت پناہی سے بدترین انسانی المیہ گزشتہ دس سالوں پر محیط، برپا کرنے کی ذمہ دار ہے۔ مشرق وسطی کے مسلمان ناچنے گانے بجانے سے فرصت نہیں لے پاتے کہ دیکھ سکیں کہ مسلم شام پر کیا قیامت سالہا سال سے ٹوٹ رہی ہے۔ برف باری کا ذائقہ سردی سے منجمد ہوتے خیموں میں بے یار ومددگار پڑے یتیم بچوں سے پوچھا ہوتا! امت کا غم کھانے والے چن چن کر تمام مسلم ممالک سے مار ڈالے یا زندانوں میں ڈال دیے۔ اب صرف عیش وطرب، کھا لے پی لے ناچ لے، کے دلدادہ باقی ہیں۔ اخبارات، ان کے میگزین، سوشل میڈیا، ٹیلی وژن چینل شام، فلسطین، کشمیر کے تذکرے سے عاری، شادی بیاہوں، عشق عاشقی کے اسکینڈلوں، سیاسی گھڑ مس، الزام تراشیوں کے لیے وقف ہیں۔ اس قدر شور مچاتی رہیں عشرت گاہیں، جس میں مظلوم کی فریاد وفغاں ڈوب گئی! اسی شام پر انہی حالات میں باری باری امریکا وروس انہی روندے ہوئے مظلوموں پر بمباریاں کرتے ہیں۔ ایسے میں پیوٹن کا مکارانہ بیان جس میں اس نے (یورپ کو چڑانے کو)، مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہوئے یہ کہا: ’توہینِ رسالت آزادیٔ اظہار نہیں۔ گستاخانہ خاکے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرتے اور انتہاپسندی بڑھاتے ہیں۔‘ یوکرین کے مسلمان ہوں، شام کی تباہی میں روس کا حصہ ہو یا وسط ایشیائی ریاستوں کے دم گھٹے مسلمان! ہم اس دھول جھونکی بیان کی تحسین کیسے کریں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا خون انہی عفریتوں نے پیا ہو! سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.