ملک بھر کے جیّد تبصرہ نگار تازہ ترین امور مملکت پر گہری نگاہ رکھنے والے امور سیاسیات کے گھوڑوں پر سوار صاحبانِ علم تقریباً مشترکہ طور پر اس رائے کا اظہار فرما رہے ہیں عمران خان کو آگے لگا کر جس نیم جمہوری اور نیم فوجی نظام کا تجربہ کیا گیا اور اسے ہائی برڈ سسٹم کا نام دیا گیا وہ تین برس کے اندر ہی بری طرح ناکامی کا شکار ہوا ہے کیونکہ اس کے پیچھے آئینِ مملکت کی طاقت اور عوام کا انتخابی مینڈیٹ شامل نہیں تھا پس پردہ عمل کے طور پر فوج کی بالادستی کام دکھا رہی تھی جو بلاشبہ ایک ماتحت ادارہ ہے لیکن اپنے ظاہری و خفیہ احکام کو خوب بروئے کام لینا جانتی ہے… یہ تجزیہ پیش کرتے وقت ہم پاکستان کی کم از کم 72 سالہ تاریخ کی اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں ملکِ خداداد میں پہلی مرتبہ ایسا نہیں ہوا البتہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ ان ناکام تجربوں کی آخری کڑی ہے جنہوں نے پاکستان کے نظام کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ شاید ہم مزید اور بار بار کے تجربوں کے متحمل نہیں ہو سکتے… ہمارے پاس اس بات کی اور گنجائش باقی نہیں رہی اس طرح کے تجربات کو دہراتے رہیں اور ایک سویلین آلہ کار سامنے رکھ کرہوس اقتدار پوری کرتے رہیں… کون نہیں جانتا پہلے 24 سال میں اسی نوعیت کے آنکھیں بند کر کے رکھ دینے والے ایک تجربے نے پاکستان کو دولخت کر دیا… بھارت کے آگے حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی فوجی شکست سے دوچار ہوئے اور اب پچاس سال مزید گزر جانے کے بعد بچی کھچی ارضِ پاکستان کو کھنڈرات میں تبدیل کر کے رکھ دیا گیا ہے… بزرگوں کی پرانی کہاوت ہے مسلمان ایک سوراخ پر دوسری مرتبہ پائوں نہیں رکھتا مبادا سانپ اسے کاٹتا رہے مگر ہم وہ ہیں جو بار بار ایک ہی سوراخ پر پائوں رکھتے ہیں اور ہمیشہ نئے انداز سے اسی ایک سانپ سے ڈسے جانے کا مزہ لیتے ہیں… کیا ہماری قوم اب بھی سنبھل جائے گی اور جسم کے اندر مزید زہر کے سوراخ کو سرایت کرنے سے روک لے گی… یہ ہے آج کی پاکستانی سیاست اور حکومت… سب سے اہم سوال رونا پیٹنا ہم سب کو خوب آتا ہے مگر ایک مہلک واقعہ کے دس سال گزر جانے کے بعد جیسے 1971 کی شکست فاش کا اندازہ ہمیں ایک دہائی کے بعد اس کے ناقابل بیان اثرات محسوس کرنے پر ہوا ہے اب بھی شوروغوغا تو بہت ہے لیکن ہماری آنکھوں کو اندھا کر کے رکھ دینے والے تازہ گرداب سے نکل آنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی اور پورے ملک کی فضا اس کے سبب مکدر ہے…
اگر یہ ہمارا داخلی معاملہ ہوتا تو غنیمت تھا لیکن المیہ یہ ہوا ہے کہ پوری دنیا میں ہمارا وقار اور اعتبار خاک میں مل کر رہ گیا ہے… ایک ارب ڈالر دینے کی خاطر اتنی شرائط عائد کر دی گئی ہیں کہ کس بل نکل کر رہ گئے ہیں… بھیک منگوں کا لیبل ہمارے ماتھوں پر چسپاں ہو گیا ہے… پرائی جنگیں لڑنے کے لئے ہمیں چند ڈالروں کے عوض امداد دی جاتی ہے… خارجہ پالیسی کے میدان میں کوئی ملک ہمارے سربراہانِ قوم و ریاست سے بات کرنے کو تیار نہیں الاّ یہ کہ ان کے وقتی مقاصد پورا کرنے پر اتر آئیں…کشمیر ہاتھوں سے نکل چکا ہے… 5 اگست 2019 کا دن جب یہ جعلی نظام اپنے عروج پر تھا بھارت کی جھولی میں تحفے کے طور پر ڈالا گیا تھا… افغانستان کی جنگ ہماری مدد کے بغیر ہمسایہ ملک سے جیتی نہ جا سکتی تھی… انجامِ کار جوتیاں بھی ہمارے سروں پر ماری جا رہی ہیں… کرائے کے سپاہی کی قوت کا ہماری فوج کو نام دے کر بدنام کر کے رکھ دیا گیا ہے حالانکہ اس
حد تک منظم اور بہترین لڑاکا اور ارضِ وطن کے چپے چپے کی خاطر مر مٹنے کی خاطر تربیت یافتہ سپاہ کم دیکھنے کو ملتی ہے لیکن افسوس اپنے دفاعِ وطن کی خدمات سرانجام دینے کے لئے زیادہ مؤثر قربانیاں دینے نہیں پارہی… سبب اس کا یہ ہے کہ اس عظیم فوج کو جب باہر نکل کر دوسروں کی جنگیں لڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور گھر کے اندر سیاستدانوں کو آپس میں لڑانے پر بہترین صلاحیتیں صرف کرنے پر مجبور کیا جائے گا تو نتائج کیا نہیں سامنے آئیں گے… یہ عظیم پاکستانی فوج اگر اپنی داخلی دفاعی قوت کا احساس و ادراک کر کے اپنے ادارے کو آئین اور پارلیمنٹ کے ماتحت رکھے منتخب قیادت کے فرمان پر چلتی جیسا کہ دنیا کے کامیاب جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے تو تھوڑے وسائل کے باوجود پاکستانی عوام کو اطمینان کے ساتھ اپنے داخلی ترقیاتی مسائل میں مدد فراہم کرتی… ہم ایک چھوٹی طاقت ہونے کے باوجود دفاع وطن کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں کامیاب ہوتے اور جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ 1949 کی کشمیر جنگ میں ہوئے بھی… تب کون سے امریکی جہاز ہماری مدد کو آئے تھے مگر امریکہ نے ہماری دفاعی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور فوج کو اپنا اتحادی بنا کر ڈالروں اور اسلحہ کا لالچ دے کر دوسری راہ پر ڈال دیا اس کی چاندی ہو گئی… ملک کے اندر سیاستدانوں کو آپس میں لڑایا اور لتاڑ کر رکھ دیا پھر پے در پے مارشل لاء ہوئے… سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات کے انبار لگا کر انہیں نت نئے لولی پاپ دکھائے گئے اور خود یہ قوت ہمارے سینوں پر مونگ دلتی رہی… واضح رہے پاکستان کی فوج کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ اسے آئین کے اندر فیصلہ کن کردار دیا جائے… سکندر مرزا سے قمر باجوہ تک اس کا یہی ایک مطالبہ چلا آ رہا ہے اور اسے مختلف انداز سے پیش کیا گیا ہے… اس وقت جبکہ بحران سروں پر کھڑا ہے اور لندن میں نوازشریف کے ساتھ خفیہ یا ظاہری مذاکرات ہو رہے ہیں سب سے اہم ڈیمانڈ نواز کے سامنے یہی رکھی گئی ہے کہ کسی نہ کسی طور پر اسے تسلیم کر لیا جائے…
مگر ایک تو ملک کی پارلیمنٹ بوگس بھی ہو تو اسے ماننے کو تیار نہیں… اس قدغن پر سر جھکانے کو سرعام کوئی تیار نہیں تو کوئی دوتہائی اکثریت کے ذریعے اس کے آگے سر تسلیم خم کرنے کو تیار نہیں… نوازشریف تو تین دفعہ اس تلخ تجربے سے گزر چکا ہے حالانکہ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی فوج کی نرسریوں کی پیداوار ہے اگر یہ سچ بھی ہے تو اسے بالغ ہوئے مدت گزر چکی ہے وہ کب کا ڈٹ کر عوام کی نمائندگی کے عزم بالجزم پر کھڑا ہے… یہ امر ہماری اجتماعی بصیرت پر دلالت کرتا ہے نوازشریف انتخابات میں کامیاب بھی ہوتا ہے لندن کے مذاکرات میں اس کا شدت کے ساتھ مطالبہ ہے کہ آئندہ انتخابات ہر لحاظ سے شفاف، آزادانہ اور بغیر کسی قسم کی اندرونی اور داخلی مداخلت کے کرائے جائیں جو بھی نتیجہ سامنے آئے اسے تسلیم کر لیا جائے یوں خالصتاً منتخب نمائندوں کو پانچ سال حکومت پوری کرنے کی مہلت دی جائے… سوال یہ ہے اگر بھارت میں یہ ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں جو بانیِ مملکت قائداعظمؒ کا وژن بھی تھا… اس ملک کو فوج نے ہرگز نہیں سول سیاستدانوں نے بنایا تھا… کرپشن کا ایک ثبوت سامنے نہیں آیا حالانکہ پچھلے 70 سال میں دوسروں کی کرپشن سے پردہ اٹھایا جائے تو بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں… تو کون سی عزت اور وقار قوم و ملک کا باقی رہ گیا ہے لہٰذا سیدھے سبھائو یہ کام کیجئے… جرنیل اور اقتدار کے بھوکے سیاستدان کڑوا گھونٹ بھر کر اگلے انتخابات کھلے عام ہونے دیں… نتائج کے مطابق حکومت وجود میں آنے دیں… کئی پیچیدہ مسائل خودبخود حل ہونا شروع ہو جائیں گے… یہی جمہوریت کا حسن کہلاتا ہے… فوجیوں کے پاس کوئی خاص دماغ نہیں اترا ہوا جو ملک چلانا صرف وہی جانتے ہیں… سیاستدانوں نے ان کی بے معنی اطاعت کر کے ملک کا ایک سے زیادہ ستیاناس کیا ہے… یہ ہیں اس Hibird نظام کی تباہ کاریاں جس پر ہم روتے بہت ہیں مگر سبق نہیں سیکھتے اور ایک کیچڑ ہے اور اس میں اپنے پائوں پھنساتے جا رہے ہیں… کیا ہماری قسمت میں لکھا ہے کہ اپنے آپ اور ملک کو تباہی کے آخری کنارے پر پہنچا دیں… سیاستدانوں کو عقل کا دامن ہاتھ میں لینا چاہئے اگر اب آئین و دستور کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے ہوئے قومی اتحاد کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو خود بھی مٹ کر رہ جائیں گے… کون نہیں جانتا کہ ملک ہمارا پاکستان ہے… ایٹمی طاقت ہونے کے علاوہ (جو سول منتخب سیاستدانوں کی رہین منت ہے) اپنے رقبے اور قدرتی وسائل کے لحاظ سے قدرت کا ایک عطیہ ہے نہ اتنا بڑا ہے کہ چلایا نہ جا سکے نہ اتنا چھوٹا ہے کہ چلایا نہ جا سکے… بیک وقت اسلامی و جمہوری ملک کو سینے سے لگایئے یہ ہمارا قومی میثاق ہے… آخر اللہ کے آخری نبی رسولؐ اللہ نے اپنی قوم کے ساتھ باقاعدہ میثاق طے کر کے اس کی سختی سے پابندی کی تھی، ہم کیوں نہ کریں گے جو نبیؐ کا فرمان بھی ہے اور جمہوری دنیا کا دستور بھی… 1977 کے آئین میں درست لکھا ہے کہ جو اس میثاق کی پابندی نہ کرے گا غدار قرار پائے گا… ذرا غور کیجئے ہم نے اس آئینی شق کا کیا حشر کیا… اس کے نتائج نہیں بھگتیں گے تو کیا کریں گے…
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.