آنکھ گہنائی ہوئی جسم ہیں پتھرائے ہوئے

98

مری پاکستان کے مقبول ترین تفریح مقامات میں سرِ فہرست ہے۔راولپنڈی اور اسلام آباد سے تقریباََ چالیس پچاس کلو میٹر کی مسافت پر ہونے کی وجہ سے ان شہروں کے رہنے والے عام طور پر ہفتہ وار تعطیل پر تفریح کے لیے مری کا ہی رخ کرتے ہیں۔اس کے علاوہ گرمیوں میں ٹھنڈ اور سردیوں میں برف کے شوقین پورے ملک سے ان موسموں میں مری آتے ہیں۔گزشتہ ہفتے مری میں جو دلخراش سانحہ رونما ہوااس سے تحریکِ انصاف کی حکومت کا سیاحت کے فروغ کا دعویٰ زمین بوس ہو گیا۔ سیاست اور اقتدار کو کھیل سمجھنے والے وہ شوخے اور چنچل وزراء جو مری میں گاڑیوں کی بڑی تعداد کو معیشت کی ترقی اور مہنگائی کی کمی کے اشاریے بتارہے تھے، اس حادثے کی ذمہ داری کا سارا ملبہ عوام پر ڈال کر منہ چھپاتے پھررہے ہیں، وہی بات کہ جناب شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی۔ پرویز مشرف بھی اپنے دورِ اقتدار کی ترقی کو ملک میں موبائل فون کی تعداد سے ناپا کرتے تھے۔ سیاحت کے فروغ کے حوالے سے وطن عزیز کی خوبصورتی کو مغرب سے کہیں بڑھ کر بتایا جاتا ہے لیکن وہاں پر تفریح کے لیے آنے والے سیاحوں کو جو سہولیات حاصل ہوتی ہیں اس پر کبھی بات نہیں کی جاتی ہے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال سے پہلے ہی سیاحت ماند پڑ چکی ہے اور اس پر مستزاد سہولیات کے فقدان اور انتظامی نااہلی نے مزید روکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان کی بے شمار ویڈیوسوشل میڈیا پر موجود ہیں جس میں جناب ہیلی کاپٹر پر سفر کے دوران کسی بھی مقام خاص کر شمالی علاقہ جات میں  ہیلی کاپٹر لینڈ کروا کر ہدایات کرتے ہیں کہ اس مقام کو سیاحت کے لیئے اُجاگر کرنا چاہیے، اس کے  بعد جناب ہیلی کاپٹر پر عصرِ حاضر کے مغلِ اعظم کی طرح سوار ہو کر یہ جا اور وہ جا ۔ اس کے بعد رات گئی اور بات گئی والا معاملہ ہوجاتا ہے۔ بنیادی طور پر ہونا تو
یہ چاہیے تھا کہ ٹول پلازہ ہی سے گاڑیوں کی مقرر کردہ  حد تجاوز کرنے پرہی گاڑیوں کو واپس کردیا جاتا تو اس سانحے کو بڑی حد تک ٹالا جاسکتا تھا۔ مگر یہاں تو فلک نے جنھیں خواجگی عطا کررکھی ہے وہ اسے کھیل اور تفریح سے زیادہ کچھ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ہمارے سامنے تاریخ میں بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ ایک موت اور ایک حادثے نے ملکوں میں انقلاب برپا کردیئے ہیں۔ مری سانحہ عوام کے لیے ایک سبق ہے کہ وہ نااہل ، مفاد پرست طبقات جو سیاست، اقتدار  اور اختیار پر قابض ہیں ان سے جان چھڑائیں اور ہوس زر میں مبتلا ان تاجروں کا بھی با ئیکاٹ کریں جنہوں نے ایسے نازک موقع پر بھی لالچ کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا۔ ہوس پرست تاجروں کے حوالے سے اب چند ہی روز میں دیکھئے گا کہ کچھ ہی روز میں کاربن مونو آکسائڈکی نشاندہی کرنے والا آلہ لازم و ملزوم قرار دیا جائے گا اور خوب تشہیر کی جائے گی اور چند سو روپے کا آلہ  ہزاروں میں فروخت کیا جائے گا۔باقی ایک ادارہ ایسا بھی ہے جس کامنظم نیٹ ورک ہر جگہ موجود ہے ۔اس کے بارے میں بقول شاکر شجاع آبادی کے مصرعے میں معمولی سی ترمیم کرکے یہ کہاجاسکتا ہے کہ
دعا شاکر تو منگی رکھ ’’ ادارہ‘‘ جانے، خدا جانے‘‘
اس ادارے نے بھی بروقت امدادی کاروائی کی بجائے حادثے کی بعد پھرتی کا مظاہرہ کیا ۔ وزیراعظم کی مشہور زمانہ ذاتی رہائش گاہ بنی گالہ سے فقط بیس کلو میٹر کے فاصلے پر لوگ بے یارو مدد گار برف کے طوفان میں پھنسے رہے مگر ہیلی کاپٹر کے پروں میں جنبش تک نہ ہوئی۔ حکومت کا طفلانہ پن ملاحظہ فرمائیں کہ ضروری مشینری کے لیے رقم مختص کرنے کی بجائے  مری کو ضلع کا درجہ دے کر دستیاب وسائل کو ضلعی حکومت کا ڈھانچہ تعمیر کرنے پر صرف کررہی ہے۔
اس سانحے میں جتنی ذمہ دار حکومت اور انتظامیہ ہیں اتنی ہی وہ لوگ بھی ہیں جو معصوم بچوں، جوان بچیوں اور خواتین کے ساتھ برف باری کو آسمان سے نازل ہونے والا من و سلویٰ سمجھ کر تبرک سمیٹنے کے لئے گئے۔ وہ قوم جو ہر نئے سال پر تعطیلات کے دن گنتی ہے، جو ہر کلینڈر میں ہفتہ وار تعطیل کے ساتھ عام تعطیلات پر نشان لگا رکھتی ہے ، وہ قوم جس کے تقریباََ ہر فرد کے پاس اسمارٹ فون ہے، مگر ٹیکنالوجی کے مثبت اور تعمیری استعمال کے شعور سے عاری ہے۔ہم لوگ تفریح اور معرکہ آرائی (ایڈونچر ) کے فرق ہی سے واقف نہیں۔ یہ تعمیری تفریح کے تصور کا ہی فقدان ہے کہ ہم تاریخی مقامات پر جاکر علم اور عبرت حاصل کرنے کی بجائے پہاڑوں پر اُگی جھاڑیوں اور سبزے کو ہی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مری اور دیگر بالائی اور سرد علاقوں میں رہنے والے ہر سال اکتوبر سے فروری مارچ تک نیچے کے علاقوں میں منتقل ہوجاتے ہیں کہ موسم کی شدت سے محفوظ رہ سکیں۔ مگر ہم تفریح اور تبدیلی کے نام پر اپنے بچوں اور عزیزوں کے ساتھ برف کے اس جہنم میں جانے کے لئے بے تاب ہوتے ہیں۔
محکمہ موسمیات جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے5  جنوری ہی کو مری کے موسم کے حوالے سے الرٹ جاری کردیا تھا مگر وہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ الرٹ مفاد عامہ میں کم اور کاغذی کاروائی کے لیے زیادہ تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے تفریح مزاج کو سامنے  رکھتے ہوئے پی ٹی اے کے ذریعے ہر موبائل فون تک پھیلایا جاتا۔ ٹی وی چینل پر بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا جاتا اور مری کی حدود کے آغاز پر ٹول پلازہ پر اس الرٹ کو نمایاں کیا جاتا۔ مگر افسوس کے ایسا نہ ہوسکا۔
آخر میں جناب سرمد صہبائی کی غزل کے دو اشعار:
کتنا بے ربط ہے آتے ہوئے لمحوں کا خیال
سوچتا رہتا ہوں اخباروں کو پھیلائے ہوئے
ایک مدّت سے زمین سایہ آسیب میں ہے
آنکھ گہنائی ہوئی جسم ہیں پتھرائے ہوئے

تبصرے بند ہیں.