مری حادثہ:کس کے ہاتھوں پر لہو تلا ش کریں؟

84

مری میں برفباری کا نظارہ کرنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کیلئے جانے والے ہزاروں سیاحوں کو برفبار ی کے طوفان کے دوران جس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ، سینکڑوں اور ہزاروں گاڑیاں ہی  برف میں پھنس اور دھنس کر ہی نہ رہ گئیںبلکہ ان گاڑیوں میں سوار سیاح جن میںمردو خواتین ہی نہیں بچے بھی شامل تھے ، جس بے بسی ، لاچارگی، دکھ ، تکلیف ، مصیبت ، اذیت اور حد سے بڑھ کر  پریشانی کا شکار ہوئے اور کم وبیش دو درجن انسانی جانیںبھی اسکی بھینٹ چڑھ گئیں تو یقینا یہ سب کچھ ایسا نہیں ہے جسکو مقدر کا لکھا ہوا یا معمولات زندگی کا ایک عام معاملہ سمجھ کر آنسو بہا لئے جائیں یا اسے نظرانداز کر دیا جائے ۔ بلاشبہ یہ ہماری قومی زندگی کے سیاہ ابواب میں ایک ایسے باب کا اضافہ ہے جس کے ہر صفحے پر ندامت ، شرمندگی ، ہماری اجتماعی بے حسی ، غیر سنجیدہ پن، غیر ذمہ داری ،لوٹ مار اور ہمارے حکومتی کارپردازان کی نااہلی ، نالائقی اور بد انتظامی کے نقش ثبت ہیں۔ یقینا مری اور نواح میں وقوع پذیر ہونے والا یہ سانحہ ایسا نہیں ہے جسے ایک عام واقعہ سمجھ کر نظرانداز کردیا جائے ۔ ایسا اگر کوئی کرنا بھی چاہے تو نہیں کرسکتا کہ اس سانحہ کے اسباب وعلل اتنے واضح ، ظاہر باہر اور نمایاں ہیں کہ ان سے قدم قدم پر بحیثیت قوم  اگر ہمارے غیر ذمہ دارانہ اور غیر سنجیدہ رویوں کا تاثر ابھرتا ہے تو ا س سے بڑھ کر ہمارے حکومتی محکموں کے نیچے سے اوپر تک  افسران سمیت صوبائی حکومت کے سربراہ جناب وزیر اعلیٰ پنجاب کی نااہلی، نالائقی،بد انتظامی اور بروقت فیصلے کرسکنے کی صلاحیتوں سے عاری ہونے کا بڑا واضح اور کھلم کھولا اظہا ر سامنے آتا ہے ۔
کون اس حقیقت سے آگاہ نہیں کے مری میں سردیوں کے موسم میں برفباری ایک معمول کی بات ہے اوربرفباری کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کیلئے ہزاروں سیاحوں کا گاڑیو ں سمیت مری کی حدود میں داخل ہونا اور مری کے مختلف مقامات کی سیر کرنا بھی ایک ایسا معمول ہے جو کب سے جاری ہے ۔ اسی طرح برف سے اٹی سڑکوں پر گاڑیوں کا پھنسنا ، پھسلنا اور ٹریفک اور آنے جانے میں رکاوٹ پڑنا بھی ایسا معمول ہے جس کے مناطر ہر سال اس موسم میں سامنے آتے رہتے ہیں ۔ پھر مری کے ہوٹلوں کے کرایوں میں اضافہ یا اشیا ء خورو نوش کی قیمتوں کو بڑھا دینا بھی کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں کہ گرمیوں اور سردیوں کے موسموںمیں جب سیاح اس طرف کا رخ کرتے ہیں تو یہ مری کے مقامی کاروباری لوگوں کیلئے ایک طرح کے ایسے سیزن ہوتے ہیں جن میں لوٹ مار کی حد تک کمائی کرنا یا منافع کمانا یا ہوٹلوں کے کرایوں میں اضافہ کرنا وہ اپنا حق سمجھتے ہیں غرضیکہ  جنوری کے  اوائل میں مری اور گلیات میں برفباری کا سلسلہ شروع ہوا تو سب کچھ ایسا ہی تھا جو کئی برسوں سے ہوتا چلا آرہا ہے لیکن ایک دو باتیں ایسی تھیں جو معمول سے ہٹ کر تھیں وہ اسطرح کہ باوجود اس امر کے 31دسمبر کو محکمہ موسمیات کی طرف سے جنوری کے پہلے ہفتے میں مری ، گلیات اور نواحی علاقوں میں شدید برفباری کا الرٹ جاری کیا گیا اور 5جنوری کو دو دن بعد یعنی 6اور7جنوری کو مری اور نواحی علاقو ںمیں شدید برفباری اور برف کے طوفان کا دوسر ا الرٹ جاری ہوااور اسکے ساتھ ہی شدید برفباری کی بنا پر 8اور9جنوری کو مری کی سڑکیں بند ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا لیکن اس کے جواب میں یہی ہوا کہ شدیدبرفباری کے خدشات اور خطرات سے نمٹنے کیلئے متعلقہ محکمے ہی سوئے نہ رہے بلکہ پنڈی کی ضلع اور ڈویثرن کی سطح کی انتظامیہ جن کے مری میں کیمپ آفسز بھی اس مقصد کیلئے قائم چلے آرہے ہیں کہ وہ مری میں کسی ہنگامی صورتحال کی پیش بینی کرتے ہوئے ضروری انتظامات کیلئے موجود رہیں ، خالی نہ رہے بلکہ بروقت ضروری اقدامات کرنے اوراحتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے بھی محروم رہے۔ یہ المیہ نہیں ہے کہ کروڑوں بلکہ  ایک ارب سے زائد روپوں سے مری اور نواح میں برفباری کی صورت میں سڑکوں کو برف سے صاف کرنے کیلئے جو بھاری مشینری خریدی گئی اور پچھلے سالوں میں اس مشینری کو برفبار ی کے موسم سے قبل مری کے نواح میں اور کلڈانہ میں پہنچایا جاتا رہا ہے وہ مشینری اور مشینری کو چلانے والا عملہ پتہ نہیں کہاں غائب رہے۔ بد قسمتی کی انتہاء کہ یہ مشینیںاُس وقت مری پہنچانے کی کوشش کی گئی جب مری اور نواح کی سڑکیں سیاحوں کی گاڑیوں کے سڑک پر برف میں پھنسنے اور دھنسنے کی وجہ سے ہر طرف کی ٹریفک کیلئے بند ہوچکی تھیں۔
دوسرا المیہ یہ ہوا کہ ایک طرف 3جنوری سے7جنوری تک ایک لاکھ باسٹھ ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں اور 7جنوری کو 16 گھنٹوں کے دوران چار فٹ برف پڑی اور 16مقامات پر درخت گرنے  سے بھی ٹریفک بلاک ہوئی ۔ اس طرح شدید برفباری اور سڑکوں سے برف ہٹانے کیلئے بھاری مشینری کی عدم موجودگی اور اسکے ساتھ مری اور نواح میں بجلی بند ہونے اور ہوٹلوں کی انتظامیہ کی طرف سے کرایوں میں بے تحاشہ اضافہ وغیرہ سب نے مل کر مری میں موجود سیاحوں کیلئے ایسی صورتحال پیدا کردی کہ ان میں سے زیادہ تر نے اپنی گاڑیوں میں بند ہونے کو ترجیح دی ۔شدید سردی سے بچنے کیلئے گاڑیوں کے ہیٹر آن رکھے گئے ، بند شیشوں اور ہیٹرز کے چلنے سے گاڑیوں کے اندر کاربن مونو آکسائیڈ گیس کا پیدا ہونا  لازمی امر تھا جس کے نتیجے میں 22افراد جان بحق ہوئے ۔ سانحہ مری کی  یہ تفصیلات ایسی نہیں ہیںجو عام لوگوں سے پوشیدہ  ہوں۔پرنٹ ، الیکڑانک اور سوشل میڈیا میں یہ تفصیلات ہی نہیں بلکہ ان سے بڑھ کر زیادہ لرزہ خیزتفصیلات سامنے آچکی ہیں اور آرہی ہیں۔ اس کے ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب کا مری کا فضائی جائزہ اور گھڑیال میںایک اجلاس سے خطاب اور انتظامیہ پر شدید برہمی  کا اظہار اور سانحہ مری کی تحقیقات کیلئے سات رکنی کمیٹی کا قیام اور کمیٹی کی تحقیقات کی روشنی میں کوتاہی کے ذمہ داران کے خلاف سخت تادیبی کاروائی کرنے کے اعلانات بھی سامنے آچکے ہیں۔ ان اعلانات کا کیا نتیجہ سامنے آنا ہے وہ بعد میں پتہ چلے گا۔ اس وقت تک اتنا ضرور ہوا ہے کہ نمبر ٹانکنے یا اپنے آپکو بری الذمہ قرارد دینے کیلئے ایک قومی معاصر میں پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پنجاب ) کا پورے صفحے کا ایک اشتہار چھپا ہے جس میں یہ سرخیاں نمایاں ہیں۔ ” احساس ذمہ داری اور جذبہ خدمت سے سرشار پنجاب پراونشل ڈیزسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ہرلمحہ تیار” وزیر اعلیٰ پنجاب کی مدبرانہ قیادت میں پنجاب پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی مسلسل مصروف عمل ـ” صوبہ بھر میں سٹیٹ آف دی آرٹ  36 دسٹرکٹ ایمرجنسی آپریشن سنٹرز کا قیام ” ۔
کیا اس طرح کے اشتہارات اور سانحہ مری میں ایک دو استثنیٰ کوچھوڑ کر نچلی سطح سے اعلیٰ ترین سطح تک کی انتظامیہ کی نا اہلی، چشم پوشی اور کوتاہی اور اس پر مستزاد جناب وزیر اعلیٰ کے کھوکھلے نعرے اور دعوے وغیرہ ان سب کو سامنے رکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سانپ گزرنے کے بعد لکیر کو پیٹنے کے مترادف ہے یا ہزروں کی تعداد میں متاثر ہونے والے سیاحون کو پہنچنے والے دکھ اور تکلیف اور سانحہ میں جان بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا معاملہ ہے۔ بلاشبہ یہ ایسا معاملہ ضرور ہے جس میں انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت زبان حال سے پکار پکار کر گواہی دے رہی ہے کہ واقعی ہم قصور وار ہیں۔

تبصرے بند ہیں.