سرخیاں ان کی……؟

117

٭……وزیراعظم کی جنرل اسمبلی میں تقریر……؟
٭…… سچ پوچھیں، تو آج دنیا جن گمبھیرتاؤں میں گرفتار ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ ان شیطانی مسائل کا ازالہ کب اور کیسے ہو گا؟ کیونکہ آج مسائل زدہ ممالک یا چھوٹے چھوٹے ممالک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بڑے بڑے ممالک بھی ایک دوسرے کے حلیف اور حریف ہیں؟ حالانکہ یہ تقسیم انسانی اور معاشی دہشت گردی ختم بھی ہو سکتی ہے۔ اقوام عالم ”امن عالم“ میں بھی ڈھل سکتا ہے۔ بہرحال بات ہو رہی تھی میرے معزز کپتان جناب عمران خان کے خطاب کی۔ اگر ان حساس ترین حالات میں وہ خود امریکہ جا کر جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے تو نہ صرف ان کے اپنے ”امیج“ بلکہ قومی وقار کو بھی دھچکا لگتا۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اپنے تین سالہ دور اقتدار میں جو انہوں نے چند تاریخی اور بصیرت افروز فیصلے کئے ہیں ان کا یہ جنرل اسمبلی سے ویڈیو کانفرنس کرنے کا فیصلہ مجھے کم از کم بہت اچھا لگا کیونکہ یہ ان کا دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ ورنہ خواہ مخواہ بعداز خطاب امریکی نامور اخبارات نہ صرف بے پرکی اڑاتے بلکہ امریکی صدر کی فون کالز پے بھی اپنے اپنے انداز میں سوالات کی بوچھاڑ کرتے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ آج ہمارے ملک کے اندر بھی کچھ دانشور، کالم نگار، صحافی اور اینکرپرسن دوست اس پے فضول گفتگو فرما رہے ہیں۔ مگر میرا انہیں مشورہ ہے کہ وہ ذرا سی نگاہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ڈائریکٹ مگر ناکام خطاب اور امریکی قیادت کے ساتھ ملاقات پے بھارت کی تذلیل کو بھی ضرور دیکھ لیں جبکہ بھارتی وزیراعظم کا نیویارک ٹائمز کو دیا گیا انٹرویو بھی ”Fake“ ہے۔ عالمی برادری بھارت کے جنگی جنون، انسانی حقوق کی ناقابل یقین خلاف ورزیوں، کشمیریوں کی نسل کشی پر بھی الگ ششدر ہے جبکہ پاک امریکہ تعلقات پے ہی نہیں، پاک افغان مؤقف پر بھی وزیراعظم پاکستان نے امریکہ کی آنکھیں کھول دی ہیں؟ ورنہ کون نہیں جانتا کہ ماضی میں محض امریکہ کو خوش کرنے کی پالیسی ترتیب دی جاتی تھی۔ لہٰذا قومی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کے کسی وزیراعظم نے 
عالمی فورم پر نہ صرف امریکی الزامات کو مسترد کیا ہے بلکہ واشنگٹن پوسٹ میں ان کا اس ضمن میں شائع شدہ کالم تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ کیونکہ اس میں مفاد پرستوں اور زَر پرستوں کے خوفناک کھیلوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ کسی دانشور نے کہا تھا مذہب کی موجودگی میں لوگ اتنے کمینے ہیں تو عدم موجودگی میں کیا ہوں گے؟۔
…………………………
٭…… کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ……؟
٭…… میری آج بھی خواہش ہے کہ تحریک انصاف کا 2018ء کا منشور اس قدر سنہرا، دلکش اور خوبصورت ”Docoment“ ہے کہ کاش……! اب بھی وقت ہے کہ اسے نافذ کیا جائے یا کم از کم اس کی طرف لوٹ کر دیکھا جائے۔ ورنہ ملک گیر سیاسی جماعت لاڑکانہ تک محدود ہو گئی تھی۔ بالکل اسی طرح پی ٹی آئی بھی میانوالی کی طرف رواں دواں کہیں گم سم ہو جائے گی جس کا مجھے شدید صدمہ ہو گا۔ کیونکہ میں نے اس کے لئے ناقابل بیان قربانیاں دی ہیں لیکن میری اب بھی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی حکومت بالخصوص جناب عمران خان یہ حقیقت تسلیم کریں کہ ہمارے ملک کی اکثریتی آبادی ایسے طبقات پر مشتمل ہے۔ جو ہمہ گیر مہنگائی سے بلبلا رہی ہے۔ کوئی ایک شے تو ہو جو گرانی کی زد میں نہ ہو۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ میں نے وفاقی وزیر محترم جناب اسد عمر جو ایک سلیقہ مند سلجھے ہوئے سیاستدان ہیں سے بہت پہلے کہا تھا کہ اگر صرف چند ”کارٹل“ گرفتار کر لئے جائیں تو مہنگائی کافی حد تک کم ہو سکتی ہے۔ کیونکہ صرف یہی نہیں بلکہ حکومتی مہنگائی کی آڑ میں کچھ تاجر طبقہ، کچھ دکاندار، جو مافیاز کی شکل اختیار کر چکے ہیں ایسی صورت حال سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنا منافع اس قدر بڑھا لیتے ہیں کہ الحفیظ الامان کے مصداق بیان مشکل ہے۔ انہیں قابو کرنے کے لئے اپنی بہترین انتظامیہ اور قابل ترین افسران کو میرٹ پر سپورٹ کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر ٹاسک ہی نہیں بلکہ ایوارڈ اور ریوارڈ دینا ہوں گے۔ ان کے سر سے محض تبادلوں اور تبادلوں کی لٹکتی تلواریں ہٹانا ہوں گی۔ ہماری بیوروکریسی میں ایسے ایسے باہمت، باکردار اور جوہری افسر موجود ہیں جو نہ صرف قومی خدمات بلکہ انتظامی معاملات میں بھی حکومتی ”امیج“ کو اوج فلک پے لے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت صرف خلوص نیت کی ہے اور ایسے جوہری کارناموں کی ہے کہ جس سے پی ٹی آئی اپنے اندر تبدیلی لاتے ہوئے پہلے اپنے سیاسی رویے تبدیل کرے۔ کیونکہ اس ملک کو کرپشن نے نہیں، کرپشن کرانے والوں نے برباد کیا ہے۔ لہٰذا اب واحد راستہ اپنی بقا کا یہی ہے کہ دوسروں پر لعن طعن اور اداروں سے پھڈوں کے بجائے کوئی بڑا کارنامہ کیا جائے اور پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے عوام کو یکجا کر دیا جائے اور انہیں اپنی منزل دکھائی جائے تاکہ وہ ایک قوم ہی نہیں بلکہ اقوام عالم بالخصوص امت مسلمہ کا حصہ بن جائیں اور انہیں ایک باعزت شناخت مل جائے۔ ایسی شناخت کہ جیسے کراچی سرکلرز ریلوے منصوبہ سے اہل کراچی کو نہ صرف خواب کی تعبیر ملے گی بلکہ پی ٹی آئی بھی سر سے اونچا ہوتے ہوئے پانی میں ڈوبنے سے بچ جائے گی۔ نپولین بوناپارٹ نے کہا تھا۔ میری خوبیاں میرے عمل کی پیداوار ہیں۔

تبصرے بند ہیں.