لبنان کے بحران کی اہم وجہ

139

مشرق وسطیٰ کا خوبصورت ملک لبنان جس کا دارالحکومت بیروت کبھی ایشیا کا پیرس کہلاتا تھا، ہمیشہ سے ہی علاقائی گریٹ گیم کا حصہ رہا ہے، اسے ہمیشہ علاقائی طاقتیں استعمال کرتی آئی ہیں۔ مگر کچھ عشروں سے سب کچھ یک طرفہ ہو چکا ہے، اس کی وجہ لبنان کے سیاسی منظر نامے پر چھائی ایران کی اجارہ داری ہے جو کہ اس نے اپنے پراکسی حزب اللہ اور شامی حکومت کی وفادار فورسز کے ذریعے قائم کی۔ ایران پر پابندیاں لگانے کے بعد امریکا بھی لبنان میں سرگرمیاں بڑھا رہا ہے۔ دراصل امریکا وہ تمام راستے بند کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے ایران امریکی پابندیوں سے بچتا رہا ہے۔ ان میں اہم ترین راستہ لبنان کا ہے۔ واشنگٹن نے حزب اللہ کے مالی ذرائع کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے، جن کے نشان اسے لاطینی امریکا، افریقہ، آسٹریلیا سمیت مختلف راستوں سے ملے۔ یہ مالی ذرائع منشیات و سگریٹوں کی سمگلنگ کے علاوہ جعلی ویاگرا کی فروخت سے پیدا کئے جا رہے تھے۔
گزشتہ ایک دہائی سے تہران حزب اللہ کو استعمال اور لبنان کی سرحدوں سے دور اپنے مشن مکمل کر رہا ہے۔ عملی طور پر دیکھا جائے تو حزب اللہ تہران کی ایک مکمل ملٹری بٹالین ہے جو کہ اس کی جانب سے شام، عراق، یمن اور دیگر ملکوں میں جنگیں لڑ رہی ہے۔ مجموعی طور پر لبنان کو تہران نے پروپیگنڈے کے علاوہ اپنے قانونی، سیاسی اور مالی امور کا مرکز بنا رکھا ہے۔ ان اہداف کا حصول یقینی 
بنانے کے لئے حزب اللہ نے تقریباً پوری ریاست پر قبضہ جما رکھا ہے، جن میں ایئرپورٹس، بندرگاہیں، سرحدی راہداریاں، ٹیلی فون نیٹ ورکس کے علاوہ دفاع اور سروسز کا کنٹرول شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا لبنان پر دباؤ ڈالنے کے لئے مختلف پابندیوں کے علاوہ سکیورٹی اقدامات بھی کر چکا ہے۔
لبنان کی گلیوں میں آج غم و غصے کی جو فضا پائی جاتی ہے، اس کی ایک وجہ حزب اللہ کا ملک کو مغرب کے ساتھ محاذ آرائی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کرنا تھا، جس کے نتائج محض بُرے نہیں، بدترین بھی ہو سکتے ہیں۔ حزب اللہ کو احساس کرنا چاہیے کہ ایران کے سپریم لیڈر کی خواہش کے مطابق جس طرح اس نے پورے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے، اسے محاذ آرائی کا سب سے زیادہ خطرہ اہل لبنان سے ہے، جس میں لبنان کی شیعہ آبادی بھی شامل ہے۔ لبنان کے اہل تشیع کی حزب اللہ سے بیزاری دیگر مذاہب و فرقوں سے تعلق رکھنے والوں سے کسی طرح کم نہیں۔ حالیہ مظاہروں میں حزب اللہ سے کھل کر بددلی کا اظہار کرنے والوں میں اہل تشیع کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ نباطیہ اور بعلبک الہرمل جیسے شیعہ اکثریتی صوبوں میں بکثرت شہری سڑکوں پر آئے، دارالحکومت سمیت دیگر شہروں کے مظاہروں میں بھی شیعہ آبادی پیش پیش رہی۔
مسلح حزب اللہ کے بغیر لبنان خطے کا ایک خوشحالی ترین ملک بن سکتا ہے، خصوصاً ایسی حزب اللہ جو کہ صرف ایران کی وفادار ہو۔ آج لبنان کو جیسے حالات کا سامنا ہے، وہ بدترین موڑ لے سکتے ہیں۔ یہ بات بلاشبہ درست ہے کہ ایران خطے کا واحد مقامی کھلاڑی نہیں، اس کے پارٹنرز بھی موجودہ صورت حالات کے ذمہ دار ہیں۔ حالیہ مظاہروں میں جو ایک نعرہ لگایا گیا ہے، اس میں حکومت میں شامل تمام رہنما مسترد کر دیئے گئے ہیں اور موجودہ ناکام سیاسی نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے کیونکہ موجودہ نظام سیاسی طاقتوں موقع دیتا ہے کہ اپنے اثر و رسوخ میں اضافے اور مفادات کے تحفظ کے لئے اہل لبنان کی قیمت پر اس کے شہریوں کو تقسیم در تقسیم کر دیں۔ پھر حزب اللہ جیسا کوئی گروپ بیرونی امداد سے سیاسی کے علاوہ اپنی عسکری طاقت میں اضافہ کر کے پوری ریاست کو ہی یرغمال بنا لے۔
اہل لبنان کو شاید یہ بات قابل فہم نہ لگے کہ وہ خطے میں حزب اللہ کی مداخلت کاریوں اور مغربی مفادات کے لئے خطرہ بننے کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس نے ملکی معیشت کو بگاڑنے میں نا صرف اہم کردار ادا کیا، بلکہ لبنان کی حکومت کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ایک طرف مغرب کی اندھی طاقت اس کے سر پر پڑنے کو تیار ہے تو دوسری طرف حزب اللہ اسے مغرب سے ٹکرانے کا درس دے رہی ہے۔ یہ گروپ جب تک ایران کی وفاداری سے دستبردار ہو کر اسے سروسز فراہم کرنے سے باز نہیں آتا، لبنان اور اس کے عوام پہلے کی طرح نا صرف اذیتیں جھیلتے رہیں گے، بلکہ ان کے مصائب میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
(بشکریہ: ڈیلی جارڈن ٹائمز19-9-21)

تبصرے بند ہیں.