٭جوچیزیں اپنے وجود میں تیری (اللہ پاک کی) محتاج ہیں اُن سے تیرے لیے کیونکر استدلال کیا جاسکتا ہے؟ کیا کسی کے لیے اتنا ظہور ہے جو تیرے لیے ہے؟ تاکہ وہ تیرے اظہار کا ذریعہ بن سکے، (بھلا) تو غائب ہی کب تھاکہ تیرے لیے کسی ایسی دلیل کی ضرورت پڑے جو تیرے اُوپر دلالت کرے؟ اور تو کب دُور تھا تاکہ آثارکے ذریعے تجھ تک پہنچا جاسکے اندھی ہو جائیں وہ آنکھیں جوتجھے نہ دیکھ سکیں حالانکہ توہمیشہ اُن کا ہم نشین تھا،……
٭جس نے تجھ کو کھودیا اُس کو کیا مِلا؟ اور جس نے تجھ کو پالیا کون سی چیز ہے جس کو اُس نے نہیں خاص کیا، جو بھی تیرے بدلے میں، جس پر بھی راضی ہوا وہ تمام چیزوں سے محروم ہوگیا،……اُس قوم کو کبھی فلاح حاصل نہیں ہوسکتی جس نے خدا کو ناراض کرکے مخلوق کی مرضی خریدلی…… قیامت کے روز اُسی کو امن وامان ہوگا جو دنیا میں خدا سے ڈرتا رہا ……لوگو…… رسول اللہ ؐ کا ارشاد پاک ہے”جو دیکھے کسی ظالم بادشاہ کو کہ اُس نے حرام خداکو حلال کردیا، پیمان الٰہی کو توڑ دیا، سنت رسول ؐ کی مخالفت کرتا ہے۔ خدا کے بندوں کے درمیان ظلم و گناہ کرتا ہے اور پھر بھی نہ عمل سے اور نہ قول سے اُس کی مخالفت کرتا ہے تو خدا پر واجب ہے کہ اُس ظالم بادشاہ کے عذاب کی جگہ اُس کو ڈال دے، …… لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین اُن کی زبانوں کے لیے چٹنی ہے جب تک دین کے نام پر معاش کا دارومدار ہے دین کا نام لیتے ہیں لیکن جب مصیبتوں میں مبتلاہو جاتے ہیں تو ان دین داروں کی تعداد بہت کم ہو جاتی ہے …… جو شخص اللہ کی نافرمانی کرکے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے اُس کے حصول مقصد کا راستہ بندہو جاتاہے اور وہ بہت جلد خطرات میں گھِر جاتا ہے،……کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے دُوری اختیار نہیں کی جارہی ہے ایسی صورت میں مومن کا حق ہے کہ لقائے الٰہی کی طرف رغبت کرے……میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں …… چیز جو خود اپنے وجود کے لیے تیری محتاج ہے تیرے وجود کے لیے کسی طرح دلیل ہوسکتی ہے؟ کیا تیری ذات سے بڑھ کر بھی کوئی آشکار چیز ہوسکتی ہے جو تجھے آشکار کرے؟ تُوکب پوشیدہ ہے کہ مجھے ڈھونڈنے کے لیے اُس دلیل کی ضرورت پڑے جو مجھ پر دلالت کرے؟ اور اب تو کب دُور ہے کہ تیرے آثار کے ذریعے مجھ تک پہنچا جائے۔ نابینا ہو جائے وہ جو تجھے اپنی طرف ناظرنہ سمجھے……جس نے تجھے پا لیا اُس نے کیا کھویا اور جس نے تجھے کھودیا اُس نے کیا پایا؟……جو انسان تیرے علاوہ کسی اور چیز کو دوست رکھتا ہو اور اُسی پر راضی ہو، وہ یقیناً گھاٹے میں ہے ……روز قیامت کسی بھی شخص میں امان نہیں ہے مگر وہ شخص کہ جو باتقویٰ ہو …… لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین کو اپنی زندگی کے وسائل فراہم کرنے کے لیے ایک لعاب کے طورپر استعمال کرتے ہیں جو اُن کی زبانوں سے چمٹا ہوا ہے لیکن جب آزمائش اور امتحان کا وقت آجاتا ہے تو دین دار لوگ کم یاب ہو جاتے ہیں،…… جو شخص گناہوں کے ذریعے اپنے مقاصد تک پہنچنا چاہتا ہے اُس کی آرزوئیں بڑی دیر سے پوری ہوتی ہیں اور جس چیز سے وہ ڈرتا ہے سب سے پہلے اُسی میں گرفتارہو جاتا ہے …… کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ لوگوں کے حقوق کو پامال کیا جارہا ہے اور کوئی باطل کا مقابلہ کرنے والا نہیں ہے لہٰذا ایسے مومنین اگر حق پر ہیں تو اُن کو چاہیے خدا سے ملاقات کی تمنا کریں …… موت سے بڑھ کر میرے لیے سعادت نہیں ہے ستمگروں اور ظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے بڑھ کر میرے لیے عذاب کوئی نہیں ہے…… تمہاری مصیبتیں و پریشانیاں تمام لوگوں سے زیادہ اس لیے ہیں کہ دانشمندوں کا عہدہ (اگر تم سمجھتے ہو یا بالفرض اگر تمہارے اندر اِس کی لیاقت ہے) تو تمہارے ہاتھوں سے لے لیا گیا ہے، ……یہ مصیبتیں وپریشانیاں اِس وجہ سے ہیں چونکہ حل وعقد امور اور نفاذ احکام الٰہی اِن خداشناس دانشمندوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے جو حرام وحلال الٰہی کے امین ہیں ……مقام و منزلت تم سے اس لیے لے لیا گیا کہ تم نے حق سے کنارہ کشی اختیار کی، واضح وآشکار دلیلوں کے باوجود تم نے سنت رسولؐ میں اختلاف پیدا کردیا، اگر تم ان آزار واذیت کے مقابلے میں صبر سے کام لیتے اور ان مصیبتوں و سختیوں کو خدا کی راہ میں قبول کر لیتے تو تمام امور الٰہی کی باگ ڈور تمہارے ہاتھوں میں تھما دی جاتی اور اِس کا مرجع وماخذ تم ہی قرار پاتے، لیکن تم نے ظالموں اور ستم گروں کو اپنے اُوپر مسلط کرلیا اور تمام امور الہٰی کی باگ ڈور اُن کے ہاتھوں میں تھما دی جب کہ وہ شبہات پر عمل کرتے ہیں اور شہوت وہوس رانی کو اپنا پیشہ بنائے ہوئے ہیں۔ تمہارا موت سے فرار اور اس ناپائیدار زندگی سے راضی ہونا ہی ستم گروں کی قدرت طلبی کا باعث بنا ہے، ……اے اللہ تو گواہ رہنا ہم نے جو کچھ انجام دیا صرف اس لیے تاکہ لوگ تیرے دین کی نشانیوں کو سمجھ سکیں اور تیرے شہروں میں بسنے والے بندوں کو مفاسد سے روک سکیں تاکہ تیرے مظلوم بندے امن وامان میں رہیں اور تیرے احکامات کی پابندی کرسکیں، ……انسان اگر مرنے کے لیے ہی پیدا ہوا ہے تو خدا کی قسم شہادت سے بڑھ کر اور کوئی موت بہتر نہیں ہوسکتی، جب انسان کا رزق معین ہوچکا ہے تو انسان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ رزق و روزی کی طلب میں حرص سے کام نہ لے…… اگر مال کو جمع کرنے کا مقصد اِس کو ترک کرنا ہی ہے تو پھر کیوں ایک آزاد انسان ان چیزوں کے سلسلے میں بخل سے کام لیتا ہے کہ جو باقی رہنے والی نہیں ہیں …… اے آل ابی سفیان تم پروائے ہو، اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور اگر رزو قیامت کا تمہیں کوئی خوف بھی نہیں ہے تو کم ازکم دنیا میں ہی آزاد اور جوانمرد انسان بن کر زندگی گزارو……کچھ لوگ حرص و لالچ کی بنیاد پر خدا کی عبادت کرتے ہیں یہ اصل میں سوداگروں کی عبادت ہے…… لوگو آگاہ ہو جاؤلوگوں کا تمہارے پاس اپنی حاجتوں کو لے کر آنا یہ خداوند عالم کی بہترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے لہٰذا اس نعمت سے غافل نہ رہو ایسا نہ ہو یہ نعمت تم سے پلٹ کر کسی اور کے پاس چلی جائے۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.