سٹال پر لگے بلندوبالا قومی پرچم سب کی توجہ کامرکز تھے،یوم آزادی کی بابت بہت سی اشیاء میں بچے دلچسپی لے رہے تھے، والدین سے ہر چیز خرید کرنے کی وہ فرمائش کر رہے تھے،تاہم چھوٹے جھنڈے جن کو سینے پرلگایا جا سکتا تھا وہ سب ہی خرید رہے تھے،ڈیک پر چلتے نغموں کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی، ہم نے آگے بڑھ کر ایک معصوم بچے سے پوچھ ہی لیا کہ آپ یہ کیوں لے رہے ہیں تو اس نے بڑے جذبہ سے کہا کہ یوم آزادی منانے کے لئے،ہمارا ملک آزاد ہوا تھا،اس لئے ہم یہ جھنڈیاں اور پرچم لے رہے ہیں تاکہ اپنا گھر سجاسکیں،یہ جذبات محض ایک بچے کے نہیں تھے،سبھی اس سے سرشار تھے، جیسے جیسے یہ یوم آزادی قریب آتا جائے گا اِنکے جذبہ جنون میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا، حسب روایت بڑے بچے، طلبا و طالبات اپنے اپنے تعلیمی اداروں کی منعقدہ تقریبات میں خوشی خوشی شریک ہوں گے، ایسی سرگرمیاں اِن میں جذبہ حب الوطنی پروان چڑھانے کے لئے مرتب کی جاتی ہیں،یہ ہر ملک اور ریاست کرتی ہے، تاکہ اپنی تہذیب، کلچر، روایات نسل نو تک منتقل ہوتی رہیں۔
ہم ایک دوست کے ساتھ محو گفتگو تھے کہ آزادی کتنی نعمت ہے اس کی قدر ان محکوم انسانوں سے پوچھی جائے جو اس عہد میں بھی محروم ہیں، وہ جھٹ سے بولا لیکن آزادی محض نقل و حرکت کا نام نہیں بلکہ ذہنی اور فکری، معاشی، سماجی آزادی بھی اس کا لازمی جزو ہے، اس کے بنا حقیقی آزادی کا تصور بھی محال ہے، انکا جذبہ دیکھ کر لگتا ہے کہ ِاس وقت انہیں اپنے والدین کی جیب سے زیادہ اِن اشیاء سے محبت ہے جو یہ یوم آزادی کے لئے خرید کر رہے ہیں، فرط جذبات میں وہ کہنے لگا کہ ہم کتنے ظالم ہیں،جو اِن معصوم بچوں کے ساتھ دھوکہ کرتے ہیں،اِنکے خوابوں کو چکنا چور کرتے ہیں۔
دوست نے ایک منٹ خاموشی کے بعد کہا کہ ان معصوم اور محب وطن بچوں کے ساتھ ہم کیا کیا کھلواڑ نہیں کرتے،جس کا آغاز انکی تعلیم ہی سے شروع ہوجاتا ہے،ایک سے ایک غلط بیانی اور جھوٹ کا سہارا لے کر ہم انھیں مطمئن کرتے ہیں،در س وتدریس سے لے کر امتحانات کی تیاری تک اور بعد ازاں نتائج تک کونسا حربہ ہے جو اِن پر استعمال نہیں ہوتا،ایسی داستانیں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں،سٹال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا یہ بچیاں تم دیکھ رہے ہو کس جذبہ سے وہ وطن کی محبت میں پرچم سے بنی گھڑیاں اور چوڑیاں لے رہی ہیں،انسان نما درندے جب اِنکی عزت کو پامال کریں گے تو سوچیں انھیں کس قدر اذیت سے گزرنا پڑے گا۔
تعلیم کے بعد کا مرحلہ روزگار کی فراہمی کا ہوگا، یہ بچے جو دل دل پاکستان جان جان پاکستان پکار رہے ہیں،جب اِنکے سامنے میرٹ کا قتل عام ہو گا تو ان پر کیا بیتے گی؟ ان کے سامنے جب کم تر صلاحیت والے والے کو ملازمت پر رکھا جائے گا،تو اس مٹی سے محبت کو وہ کس ترازو میں تولیں گے،کیا انکا دل بیٹھ نہیں جائے گا وہ مایوسی کے عالم میں دیار غیر کا رخ نہیں کریں گے،جوش جنون میں پیسے دینے والے یہ بھی نہیں جانتے کہ سٹال والا اِس سامان پر بھی ناجائزمنافع خوری کر رہا ہے، یہ سلسلہ ملک بھر جاری ہے،تعلیمی اداروں میں بدعنوانی کے خلاف تقاریر کرنے اور داد ملنے پر اتنے شاداور اعزازی شیلڈ ملنے پر نازاں طلباء و طالبات کو جب معلوم ہوتا ہے کہ عملی زندگی میں رشوت کے عوض اِنکو اِنکے حق ہی سے محروم کر دیا گیا ہے،تو اِنکا دل چاہتا ہے کہ وہ شیلڈ ہی کو دریا بُرد کردیں۔
بچپن سے لے کر عہد شباب تک نہ جانے کتنے مرحلے آتے کہ انہیں مر مر کے جینا پڑتا ہے، کہیں غربت پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے، تو کہیں معاشی تفاوت احساس محرومی میں مبتلا کر دیتا ہے، اگر اس سے بچ نکلیں تو حسب نسب سے کمتری محسوس ہونے لگتی ہے، اپنی تعلیم کو ذریعہ تفاخر بنائیں تو سیاسی غلبہ اُوقات دکھا دیتا ہے،اصول و قواعد کو اپنانے کی کاوش کی جائے تو مشکلات کی دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے، اچھے تعلیمی ادارہ میں داخلہ کی خواہش ہو تو بھاری اخراجات آڑے آجاتے ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک مافیا اژدھا کی طرح منہ کھولے کھڑا ہے، مساوات،آئین اور قانون کی حکمرانی کا تقاریر کے ذریعہ خواب دیکھنے والے یہ معصوم بچے کیا جانے کہ یہ معاشر ہ قطعی کتابی نہیں ہے۔
دوست نے بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ایک لمحہ کے سوچیں کہ جب عالم شباب میں خرافات کا انہیں پتہ چلے گا تو انکا ردعمل کیا ہوگا، کیا ہمارے صاحبان اقتدار نے کبھی یہ سوچا ہے،کہ ہم ہر یوم آزادی پر بچوں کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں، آئین پر شب خون مارنے والے بھی اپنی دلیلیں رکھتے ہیں،بچوں کو قانون کا احترام کر نے کادرس وہ بھی دیں گے، قومی دولت لوٹنے والے بھی بچوں کو بتائیں گے کہ ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن پھر بھی ہم مقروض ہیں یہ بچوں کو نصیحت کریں گے کہ محنت کریں تاکہ ہماری ریاست خوشحال ہو،دولت اور دھونس دھاندلی کے بل بوتے پر الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے والے بچوں کے سامنے بانی پاکستان کی اُصول پسندی کی گردان کریں گے،ملاوٹ، ذخیری اندوزی میں ملوث تاجروں کے ہاتھوں پروگرامات میں شریک بچوں کو انعامات دلوا ئیں جائیں گے،اس موقع پر وہ بھی مملکت کے لئے اپنی خدمات ان بچوں کے سامنے رکھیں گے، آزادی کے نام پر تقریبات میں یہ تماشا بچے دیکھیں گے جن کے پھول جیسے ہاتھوں میں پرچم اور جھنڈیاں ہوں گی۔ دوست کہنے لگے مجھے یہ خدشہ ہے کسی دن کسی نو عمر نے کسی تقریب میں یہ سوال کر دیا کہ بھاری بھر وسائل رکھنے کے باوجود ہم مقروض قوم کیوں ہیں،سماج میں معاشی تفاوت کی وجہ کیاہے، ناقص نظام تعلیم اور گوررننس کا ذمہ دار کون ہے یہ ریاست فلاحی کی بجائے سیکورٹی سٹیٹ کیسے بن گئی،قانون کی زد میں معاشرہ کا کمزور طبقہ ہی کیوں آتا ہے،کیا ہمارے ارباب اختیار کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟
دوست نے اس موقع پر ایک لطیفہ پیش کیا، کہ وطن سے محبت کے عنوان سے کسی تعلیمی ادارہ میں تقریری مقابلہ تھا سب مقررین نے بھر پور تیاری کے ساتھ شرکت کی ایک نوجوان نے بہت ہی اچھی تقریر کی، مہمان خصوصی نے اسے اپنی طرف سے بھی انعام دیا اور پیش کش کی جو فرمائش کرے گا وہ آج پوری کی جائے گی، نوجوان نے بڑی معصومیت سے کہا آپ مہربانی کرکے مجھے دوبئی کا ویزہ دلوا دیں۔
تلخ حقیقت تو یہی ہے کہ وطن کی محبت کا درس دینے اچھی تقاریر کرنے والا مقتدر طبقہ ان تمام خرافات میں شریک ہے جو ریاست کو معاشی،تزویاتی،سیاسی،اَخلاقی، آئینی طور پر کمزور کر رہی ہے، اِسکی اصلاح کی بجائے وہ نوجوان کی طرح باہر جانے اور وہاں مستقل رہنے کا آرزومند ہے۔
دوست نے متوجہ کیا کہ ہمیں اِن معصوم بچوں کے جذبات سے نہیں کھیلنا چاہیے جو ہر یوم آزادی پر ملک کی محبت میں پرچم اور جھنڈیوں سے گھروں کو سجاتے اور چراغاں کرتے ہیں۔ منی لانڈرنگ،دھوکہ دہی، کرپشن،لا قانونیت، سیاسی ابتری کی میڈیا پر باز گشت نجانے اِن کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب کرے۔ منافقت سے پاک معاشرہ ہی بچوں کے خوابوں کو ٹوٹنے سے بچا سکتا ہے اوران کے روشن مستقبل کی ضمانت دے سکتا ہے۔ یہ بچوں کایوم آزادی مگر بڑوں کا یوم احتساب ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.