صحافیوں کی گرفتاری اور آئین کا آرٹیکل 19

194

مسئلہ عامر میر یا عمران شفقت کا نہیں ہے بلکہ اس سوچ کا ہے جو اس دور میں پنپ رہی ہے۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے ان دونوں صحافیوں کو اٹھا لیا تھا۔ ان کے خلاف جو ایف آئی آ ر درج کی گئی ہیں وہ اس سے پہلے بھی کئی صحافیوں کے خلاف درج ہوئیں اور انہیں جیلو ں کی ہوا کھانا پڑی۔ عامر میر اور عمران شفقت خوش قسمت ہیں کہ اسی روز ضمانت پر باہر آ گئے۔صحافتی تنظیمیں اس رہائی کا کریڈٹ حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور انہیں ہونا بھی چاہیے کہ یہ ان کی دوکانداری ہے۔ دوکانداری چمکانے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے تو ایسے میں اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیے۔سوال صرف اتنا سا ہے کہ جب صحافیوں کا جرم ایک سا ہے تو پھر ان کے ساتھ سلوک کیوں مختلف ہو رہا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ صحافتی تنظیمیں بھی چھوٹے صحافی اور بڑے صحافی کے چکر میں پڑی ہوئی ہیں۔ ہم نے صحافی کی تعریف (definition) پڑھ رکھی ہے مگر اس میں کسی جگہ چھوٹا بڑا صحافی نہیں ہے۔ صحافی صحافی ہے۔ صحافتی تنظیمیں اور ان کے رہنما کیا یہ بتانا پسند کریں گے کہ باقی صحافی جو گرفتار ہوئے جنہیں ایف آئی اے نے حوالات میں بند رکھا اور پھر جیلوں میں بھیج دیا گیا ان کے لیے انہو ں نے کیا کیا تھا؟انہوں نے عامر میر اور عمران شفقت کے لیے جو کچھ کیا وہ بہت عمدہ ہے تو باقی کیسز میں ان کی کارکردگی ایسی کیوں نہیں ہے؟ ویسے میں اس بات سے متفق نہیں ہو ں کہ یہ رہائی ان کی کسی کوشش یا جدوجہد کا نتیجہ ہے بلکہ یہ رہائی کہیں اور سے ہوئی ہے اور اب ہر کوئی کریڈٹ لینے کی کوشش میں مصروف ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک کی فہرست میں موجود ہے جہاں پر صحافیوں کے لیے عرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے۔ اسے صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک کی صف میں رکھا جا رہا ہے۔ہر اس آواز کو خاموش کرانے کی کوشش کرائی جا رہی ہے جو موجودہ انتظام کے خلاف ہوتی ہے کسی کو گرفتار کیا جا رہا ہے کسی کو سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کوئی ان کی براہ راست دھمکیوں کا شکار ہو رہا ہے۔صحافیوں کی حفاظت کے لیے قوانین بنانے کا اعلان بھی کیا جاتا ہے مگر کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو جو لا محدود اختیارات دے دیے گئے ہیں اس کا کوئی جواز موجود ہے۔ کسی نے اس کو ختم کرنے کی بات نہیں کی۔آئین نے ہر شہری کو جو تحفظات دیے ہیں انہیں سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 19ہر شہری کو آزادی اظہار رائے کی آزاد صحافت کی ضمانت دیتا ہے لیکن اس آرٹیکل میں جو شرائط شامل کی گئی ہیں ان کو بہانہ بنا کر لوگوں سے آزادی اظہار کے حق کو چھین لیا گیا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر صحافت پر قدغن لگا ئی جا رہی ہے۔آئیے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ آئین کا آرٹیکل 19کیا ہے۔
Under the Article 19 of the Constitution of Pakistan, 1973, every citizen shall have the right to freedom of speech, freedom of expression and freedom of the Press, subject to any‘reasonable restriction’, imposed by law in the interest of the glory of Islam or the integrity, security or defence of Pakistan or any part thereof, friendly relations with foreign states, public order, or in relation to contempt of court or incitement to offence.
حکومت اس آرٹیکل کے تحت کوئی reasonable restriction لگا سکتی ہے اور اس کے تحت اسلام کی حرمت، پاکستان کی سلامتی اور دفاع، ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن و امان، عدالت کی توہین یا کسی جرم کی تشہیر نہیں کی جا سکتی ہے اور اس کوسامنے رکھ کر ایسی قانون سازی کی گئی ہے اور ایسے قوانین اور آرڈیننس جاری ہوئے ہیں جو آزادی اظہار رائے پر قدغن لگا رہے ہیں۔ کاغذوں میں اس آرٹیکل نے اظہار رائے کی آزادی دی ہے مگر قوانین اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں کہ آزادی اظہار رائے ہر شہری کا حق ہے مگر پریس اینڈ پبلکیشن آرڈی ننس کے تحت ایک ایم اے پاس شخص ہی کسی اخبار یا رسالے کا ڈیکلریشن لے سکتا ہے۔یہ سراسر آزادی اظہار رائے کے حق کو محدود کر رہا ہے یا پھر شہری کی تعریف کو تبدیل کرنا ہو گا کہ شہری وہ ہو گا جس نے ایم اے کیا ہو گا۔security and defence of Pakistan or any part thereofکی کوئی واضح تشریح موجود نہیں ہے۔
آزادی اظہار رائے اور پریس کی آزادی کے لیے بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام اکیلے صحافتی تنظیمیں نہیں کر سکتیں ملک بھر کی بار او روکلا برادری کو بھی ساتھ شامل کرنا ہو گا ورنہ دھیرے دھیرے سب کی آزادیاں سلب ہوتی جائیں گی۔ مادر پدر آزادی کوئی بھی نہیں چاہتا مگر reasonable restrictionکی آڑ میں لوگوں کی زبان بندی بھی جائز او رآئینی کام نہیں ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تمام سیاسی جماعتیں اس آرٹیکل پر دوبارہ سے غورکریں اور جائزہ لیں کہ کیا اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے یا نہیں۔ صحافی گرفتار ہوتے ہیں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا انہیں ہلاک کر دیا جاتا ہے تو اپوزیشن اور سیاسی جماعتیں مذمتی بیانات جاری کر دیتی ہیں۔ بنے بنائے ان بیانات سے آگے بڑھ کر کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور اس آئینی ڈھانچہ کو درست کرنے کی ضرورت ہے جس نے آزادی اظہار رائے کو جکڑ رکھا ہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ صحافیوں اور ان کی تنظیمو ں کو تقسیم کر دیا گیا ہے۔صحافی اور شہری اسی طرح ریاستی اداروں کے جبر کاشکار ہوتے رہیں گے اگر متحد ہو کر ان قوانین کو ختم کرانے کی کوشش نہیں کی جاتی جس کے تحت صحافیو ں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ مسئلہ عامر میر یا عمران شفقت کا نہیں بلکہ اس میکینزم کو درست کرنے کا ہے جس کے تحت یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ دوسری صورت میں یہی ہو گا کہ بااثر طبقے کو کوئی نہیں پوچھے گا اور غریب کو کوئی چھوڑے گا نہیں۔آئین کو موم کی ناک بنانے کی کوشش ہر دور میں ہوتی رہی ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ چہرے بدل رہے ہیں مگر ریاستی مشینری عوام پر اپنے جبر کو بڑھاتی جا رہی ہے اور ہم صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ عالم پناہ جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے تاکہ ہم وقت پر اپنے اپنے کاموں پر جا سکیں اور ہماری دیہاڑی کا نقصان نہ ہو۔

تبصرے بند ہیں.