تیرے وعدے پے اعتبار کیا

166

عمران خان بڑے خوش قسمت ہیں کہ مسلسل جیتتے چلے آ رہے ہیں اور جب ان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو بھی وہ بھی یکایک ٹل جاتا ہے۔ مہنگائی کے امڈ آنے والے طوفان پر بھی عوامی احتجاج ہوتا ہے تو وہ بھی چند روزمیں ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود ان کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ وہ ابھی تک اپنے نعروں اور وعدوں پر عمل درآمد نہیں کر سکے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ مافیاز بڑے مضبوط و توانا ہیں۔ وہ حکومتی اقدامات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک جو ٹھیک ہے وہ کرتے ہیں اور حکومتی مشینری ان کا منہ دیکھتی رہ جاتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس طرح نظام حکومت و معیشت کیسے چلے گا۔ یہ تو آنے والی حکومت پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں بلکہ ہوں گے لہٰذا عوام کی حالت کیا سے کیا ہو جائے گی اس کا اندازہ چشم تصور سے کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ حکومت کے اندر بھی کاروباری لوگوں کی اکثریت ہے اور وہ اس کی عوام دوست پالیسیوں کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔ ایسے منصوبے جن سے عام آدمی مستفید ہو سکتا ہے اس کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ شاید اسی لیے ابھی تک پی ٹی آئی اپنے منشور سے کوسوں دور نظر آتی ہے۔ نتیجتاً عوام اسے برا بھلا کہتے ہیں اب تو وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ کب وہ اقتدار سے علیحدہ ہوتی ہے اور کوئی سکھ کا سانس ملتا ہے۔ اس کے اپنے بعض اتحادی بھی اس کے خواہشمند ہیں کہ جب وہ عوام کو سہولتیں دینے میں ناکام ہو چکی ہے تو اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ ان کے حلقوں کے لوگ انہیں پریشان کرنے لگے ہیں کہ وہ ایسی حکومت کا کیوں ساتھ دے رہے ہیں جو ان کی جمع پونجی بھی نہیں چھوڑ رہی۔ آئے روز اس نے مہنگائی بڑھانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ ٹھیک ہے اسے مافیاز کی سینہ زور ی کا سامنا ہے مگر وہ ریاستی طاقت سے ان کو قانون کی پکڑ میں کیوں نہیں لاتی اور اگر بیورو کریسی اس کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہی ہے تو اس کی فائلیں کیوں تیار نہیں کی جا رہیں۔ اس میں بہت سے ایسے بیورو کریٹ موجود ہوں گے جو عوام کے پیسے کو ہڑپ کر رہے ہوں گے ان کے اثاثوں کا پتہ لگایا جائے اور پھر قانونی کارروائی کی جائے مگر نجانے کیوں اس طرح کی تحریک نہیں چل رہی۔
بہرحال اب جب عمران خان اقتدار کے قلمدان پر اپنی گرفت مضبوط بنا چکے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ عوامی مسائل پر توجہ دیں اور انہیں حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اس کے لیے جہاں وہ سرکاری طور سے کوئی قدم اٹھائیں تو وہاں اپنے دیرینہ ساتھیوں کو اپنے قریب لا کر ان کی تجاویز و تعاون سے بھی استفادہ کریں کہ وہ عوام کو اصل صور ت حال سے متعلق بھی بتائیں گے اب ان کے ساتھ کوئی بھی یہ بتانے کے لیے دکھائی نہیں دیتا کہ انہیں جن مشکلات کا سامنا ہے وہ اچانک ختم نہیں ہوں گی لہٰذا وہ انتظار کریں اور صبر کریں آنے والے دنوں میں بہتری کی توقع ہے مگر سوال یہ بھی ہے کہ آئندہ جو دو برس باقی ہیں ان میں کیسے صورت حال بہتر ہو سکتی ہے اس بارے عوام کو واضح طور سے بتایا جائے وگرنہ تو وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس حکومت کے پاس کوئی جامع پروگرام نہیں۔ عمران خان اب بھی آج کچھ کہتے ہیں کل کچھ اور کہہ دیتے ہیں لہٰذا انہیں اپنی زندگی مسائل کے بھنور میں گھری نظر آتی ہے جب تک وہ اس نظام کو بدلنے کی طرف نہیں بڑھتے جس نے غریب، بے بس اور مظلوم عوام کو زندہ درگور کر رکھا ہے کچھ نہیں ہو گا کیونکہ ایوانوں میں پیسے والے اپنے سرمایے کے زور پر جاتے رہیں گے اور عوام دوست منصوبوں کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ لوٹ مار کر کے قومی دولت کو اپنی تجوریوں میں ٹھونستے ہوئے امیر سے امیر ہوتے جائیں گے۔ ایسے لوگوں سے عوام کی بھلائی ہو ہی نہیں سکتی اب تک کی ملکی تاریخ سے ثابت ہے لہٰذااگر وہ واقعتا چاہتے ہیں کہ عام آدمی کے حالات بہتر ہوں اسے انصاف سستا اور آسانی ملے تعلیم و صحت کی سہولت میسر آئے تو انہیں نعرہئ مستانہ بلند کر دینا چاہیے۔ ان کا جیتنا اپنی جگہ مگر کچھ کر کے دکھانا ہو گا۔ اب وہ کر کے دکھا بھی سکتے ہیں کیونکہ حالات مجموعی طور سے ان کے حق میں ہیں ہر طرف ان کی حکومتیں ہیں ان کے خلاف اٹھنے والا طوفان بھی تھم چکا ہے۔ حزب اختلاف اپنے اندرونی معاملات میں الجھی ہوئی ہے۔ یوں وہ ایک طاقتور حکمران کی صورت ابھرے ہیں لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ منزل مراد کی جانب بڑھیں جب وہ اپنا قدم اٹھائیں گے تو لوگوں کو یقین ہو جائے گا کہ وہ ان کی خاطر چل پڑے ہیں لہٰذا ان کا ساتھ دینا ہو گا اور پھر کہا جا سکتا ہے کہ اگلے پانچ برس بھی وہ حکمرانی کے مزے لوٹیں گے اس دوران خلوص نیت سے بڑے بڑے ریلیف دینے کا آغاز کر دیں اس وقت تمام پیرا شوٹر کونوں کھدروں میں پڑے ہوں گے جو ان کے راستے کی دیوار نہیں بن سکیں گے مگر کہتے ہیں کہ حکمران طبقہ اختیارات کے نتیجے میں مدہوش ہوتا ہے لہٰذا کسی کی نہیں سنتا وہ سنے گا بھی کیوں کیونکہ اسے تو عوام سے بیر ہوتا ہے وہ انہیں کمتر تصور کرتا ہے مگر یہ بھی ہے کہ اس پر کوئی افتاد آن پڑتی ہے تو بھاگم بھاگ ان کے پاس جاتا ہے کہ سڑکوں پر آؤ جلسوں اور جلوسوں کی رونق بنو تا کہ ان پر برہم لوگ ان کے لیے اپنے دل میں کوئی نیا گوشہ پیدا کر سکیں۔
اس وقت بھی حزب اختلاف یہی کچھ چاہ رہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگ اکٹھے کر کے حکمرانوں کو مرعوب کر سکے مگر ابھی تک وہ کامیاب نہیں ہو سکی۔ لہٰذا حکومت کا حوصلہ بڑھ رہا ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ وہ باقی عرصہ آسانی سے پورا کر لے گی۔ اسے کرنا بھی چاہیے کیونکہ حکومتوں کا قبل از وقت اقتدار سے محروم ہونا ٹھیک نہیں اس سے جگ ہنسائی تو ہوتی ہی ہے انہیں یہ کہنے کا موقع بھی مل جاتا ہے کہ دیکھیں جی وہ تو آخری برسوں میں یہ کرنے کا ارادہ کر رہی تھیں یا کرنا چاہتی تھیں جن سے عوام ایک بار پھر ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار لیتے ہیں۔یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے جسے اب رک جانا چاہیے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ حکمران عوام کی خدمت کیے بغیر آئیں اور چلے جائیں ان سے پوچھ گچھ ہونی چاہیے کہ وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے کیوں عوام کے مسائل حل نہیں کیے مگر ایساکرے کون سب ہی تو ایک دوسرے کے حمایتی نظر آتے ہیں کوئی ایک اگر عوامی خدمت کا جذبہ رکھتا بھی ہے اور احتساب کرنا چاہتا بھی ہے تو اسے مختلف حربوں سے گھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ آگے نہیں بڑھ پاتا۔
بہرکیف خواہش ہے کہ کوئی ایسی تبدیلی آئے جو اس تکلیف دہ نظام سے چھٹکارا دلا دے ہم نے تو آہوں اور سسکیوں میں اپنی زندگی گزار لی اب نئی نسل کو ایسے دن نہ دیکھنے پڑیں۔ وہ ہر دکھ سے محفوظ رہے خوشیاں اس کے ہر جانب رقصاں ہوں۔

تبصرے بند ہیں.