وزیر اعظم عمران خان نے پہلی بار کھل کر اعتراف کیا ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد انہیں اس لیے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ خود امورِ مملکت میں ناتجربہ کار تھے اور ان کی ٹیم بھی نئی تھی۔ وزیراعظم نے یہ اعتراف پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں کیا۔یہ ایک حقیقت کا اعتراف ہے، لیکن ابھی دو باتیں ایسی بھی ہیں جن کا جلد یابدیر انہیں اعتراف کرنا ہوگا، جن کا ذکر ہم بہت پہلے اپنے متعدد کالموں میں کرچکے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کو ناتجربہ کاری اور نئی ٹیم کے علاوہ ویژن اور ہوم ورک کے فقدان نے بھی شدید مشکلات سے دوچار کیا، جس کی بنا پر ابتدا میں انہیں گھاگ سیاست دانوں نے اپنے ڈھب پرڈھالا اور عیار بیوروکریسی نے اپنی خواہش اور مرضی پر چلایا۔ اب شاید حکومت کو کچھ تجربہ ہوگیا ہے۔ اسے گھاگ سیاست دانوں اور بیوروکریسی کے حربے بھی سمجھ میں آنا شروع ہوگئے ہیں، لیکن ویژن کی کمی اور ہوم ورک کا فقدان اب بھی اس کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ تحریک انصاف کے سیاسی و اقتصادی ویژن کے بارے میں ہمارے پولیٹکل سائنس کے ایک پروفیسر چار پانچ سال پہلے بھی یہ رائے رکھتے تھے کہ یہ سارا ویژن ایف اے سطح کی سوکس سے زیادہ نہیں ہے، جب کہ عمران خان اور ان کی پوری ٹیم کے پاس 2013ء سے 2018ء کے دنوں میں اپوزیشن جماعت کے طور پر جو وقت اور مواقع موجود تھے انہوں نے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ نہ عمران خان نے مستقبل کے لیے کوئی ہوم ورک کیا، اور نہ اُن کے وزراء نے۔ چنانچہ ان کی کابینہ میں ایسے کئی وزیر شامل ہیں جن کو اپنی وزارت کے تحت آنے والے محکموں، ڈویژنوں، اتھارٹیز اور خودمختار کارپوریشنوں کے بارے میں کوئی تفصیلات معلوم نہیں۔ ان میں سے کئی وزراء تین سال گزرنے کے باوجود اپنے ماتحت بعض اداروں کا وزٹ کرنے کی بھی زحمت نہیں کرسکے، ان کے کام، کارکردگی اور اس میں بہتری کے لیے تو وہ کیا کرتے!
عمران خان جب کنٹینر پر چڑھ کر یہ دعویٰ
کرتے تھے کہ وہ نوازشریف اور زرداری کو جیلوں میں ڈالیں گے اور اُن سے لوٹی ہوئی دولت واپس پاکستان لائیں گے۔تو ان دعووں اور بڑھکوں کے دوران انہوں نے کبھی یہ ہوم ورک نہیں کیا نہ اس کے لیے کوئی مشاورت کی کہ لوٹی ہوئی دولت کے ثبوت کہاں سے حاصل کرنا ہیں، ان لوگوں کے خلاف مقدمات کیسے بنانے ہیں، دورانِ تفتیش ان پر لگائے جانے والے الزامات ثابت کرنے کے لیے کیا کچھ کرنا ہے، انہیں عدالتوں سے سزائیں کیسے دلوانا ہیں، اور پھر ان سزاؤں پر عمل درآمد کس طرح کرنا ہے۔ اس سارے کام کے لیے کتنے لوگوں اور کن لوگوں کی معاونت درکار ہوگی، اس کارروائی کے دوران ہونے والے ردعمل سے کس طرح نمٹنا ہوگا، اور اگر سزا کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ انہیں مراعات دے کر فرار کرادے یا لوٹی ہوئی دولت واپس آنے کی راہ کھوٹی کردے تو کیا کرنا ہوگا۔
عمران خان کا ایک بڑا حلقہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ہیں، جنہوں نے ہر موقع پر ان کا ساتھ دیا۔ یہ لوگ پاکستان کو ترسیلِ زر کے ذریعے کثیر مقدار میں زرمبادلہ بھیجتے ہیں،مشکل کی گھڑیوں میں وقتاً فوقتاً پاکستان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ ان میں مختلف شعبوں کے ماہرین شامل ہیں، اور باقی پاکستان میں صنعتوں اور کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، لیکن انہیں پاکستان کے محکموں اور اپنے اپنے ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں سے شدید شکایات ہیں۔ پاکستان میں ان کی جائیدادوں پر قبضے ہورہے ہیں۔ پیروی کرنے پر انہیں جھوٹے مقدمات میں الجھایا جارہا ہے۔ اس مخلص اور کارآمد پاکستانی کھیپ کو کس طرح مطمئن رکھنا ہے، ان کے مفادات کا تحفظ کیسے کرنا ہے، انہیں کس طرح ترسیلِ زر میں اضافے کے لیے تیار کرنا ہے، ان کے ذریعے کس طرح پاکستانی برآمدات میں اضافہ کرنا ہے، اور پاکستان اور بیرونی ممالک میں کس طرح انہیں عزت اور تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس میدان میں بھی عمران خان اور ان کی ٹیم نے کوئی کام نہیں کیا، بلکہ اب ان کے لیے ووٹ کے جس حق کی مہم چلائی جارہی ہے اس میں بھی حکومتی ٹیم کا ہوم ورک ناکافی ہے، اور کسی بھی مرحلے میں اسے ناکامی ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو انتخابات کے دوران ایک نیا ووٹ بینک ملا تھا۔ یہ اپر مڈل کلاس کے پڑھے لکھے لوگ تھے جو تبدیلی اور بہتری کی خواہش رکھتے تھے۔ اس ووٹ بنک نے عمران خان اور ان کی جماعت کو بے حد سپورٹ کیا، لیکن وزیراعظم اور ان کی ٹیم نے کوئی ہوم ورک نہیں کیا کہ اس نوجوان اور مڈل کلاس پڑھے لکھے طبقے کو کس طرح اپنے ساتھ رکھناہے ان کی توقعات پر کیسے پورا اترنا ہے، اور ان کی توانائیاں کس طرح ملک و قوم کے حق میں استعمال کرنا ہیں۔
اسی طرح لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، دفتری نظام کی مشکلات، انصاف کی راہ میں رکاوٹوں کا اس پارٹی نے چرچا تو بہت کیا، لیکن وقت ہونے کے باوجود ان پر قابو پانے کے لیے کوئی غور و خوض کیا، نہ حکمت عملی بنائی، اور نہ ان مسائل کے حل میں حائل رکاوٹوں کے سدباب کی منصوبہ بندی کی۔
حکومت نے جذباتی طور پر 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان تو کردیا، لیکن چونکہ اس پر کوئی ہوم ورک نہیں تھا، اس لیے اس کا حال سب کے سامنے ہے۔یہ غورہی نہیں کیا گیا کہ اتنا بڑا کام کیسے ہوگا، اس کے لیے کتنے سرمائے کی ضرورت ہوگی،یہ سرمایہ کہاں سے ا ٓئے گا بنک کس طرح کم سے کم شرح سود پر قرضہ دینے پر رضامند ہوں گے اس منصوبہ کو درپیش دیگرمشکلات پر کیسے قابو پایا جائے گا۔ چنانچہ ہوم ورک کے بغیرشروع کیے گئے اس دعوے کا حشر آپ کے سامنے ہے۔ پچاس لاکھ میں سے تین سال گزرنے کے باوجود ابھی ایک بھی مکان تعمیر نہیں ہوسکا۔ یہی حال اعلان کردہ نوکریوں کا ہے۔ اس لیے وزیراعظم اور ان کی ٹیم اب بھی مان لے کہ ان کے پاس ناتجربہ کاری اور ٹیم نہ ہونے کے علاوہ ہوم ورک کا فقدان بھی تھا، جو اب تک موجود ہے۔ ساتھ ہی حکومت کسی بھی منصوبے پر سنجیدہ ہوم ورک کیے بغیر اس کا اعلان نہ کرے، ورنہ ہر بار اسے ناکامی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑے گاکہ
یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے مہ خانہ کہتے ہیں
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.