بھارت سے دوستی کی آرزو اور مظلوم کشمیری

162

ہما ری ہر حکو مت نے اپنے دورِ اقتدار میں کسی نہ کسی وقت بھا رت سے دو ستی کی آ رزو کا ضرور اظہا ر کیا ہے۔ مو جو دہ حکو مت بھی اس سے مبرا نہیں۔مگر اس حکو مت کے سر براہ عمران خا ن نے بر سرِ اقتدا ر آ نے سے پہلے مقبو ضہ کشمیر کے بارے میں اپنی پا لیسی کا اعلا ن کر تے وقت واشگا ف الفاظ میں کہا تھاکہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو ئے بغیر بھا رت سے کسی قسم کی دو ستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مگر حا لیہ ایا م میں جب کشمیر یو ں پہ اور خا ص طور ان کے بچوں پہ بھارت کا ظلم و ستم اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگریس نے بھارت پر زور دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بچوں کے خلاف پیلٹ گن کا استعمال فوری طور پر بند کیا جائے۔ ان حالا ت میں بھارت سے دوستی کی خوا ہش کا اظہا ر اہلِ کشمیر کے زخموں پہ نمک چھڑ کنے وا لی با ت ہے۔بہر حا ل اقوا مِ متحد ہ کے سیکر ٹری کا یہ بیان مسلح تصادم اور بچوں کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کا حصہ ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی کارروائیوں میں گزشتہ برس 9 بچے شہید ہوئے اور 30 معذور ہوگئے۔
بھارتی فورسز کی جانب سے پیلٹ گن جیسے ظالمانہ ہتھیار کا استعمال قریب ایک دہائی سے جاری ہے؛ تاہم پچھلے چار برس کے دوران اس کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے اور اس دوران سیکڑوں افراد اس ظالمانہ ہتھیار کے چھروں سے عمر بھر کے لیے بینائی سے محروم ہوگئے۔ مسلح تصادم کی معاصر تاریخ میں اس ہتھیار جس کو غیرانسانی انداز سے مقبوضہ کشمیر میں استعمال کیا گیا ہے اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے اس ظالمانہ اقدام کو ”بینائی چھیننے کی اجتماعی کوشش“ اور ”جنگی جرم“ قرار دیا جاچکا ہے۔ تاہم بھارتی فورس کے اس غیرانسانی سلوک کی یقینی روک تھام اور ان اقدامات پر بھارت سے باز پرس کا سوال ہنوز اپنی جگہ پر ہے۔ بچوں کی زندگی پر مسلح تصادم کے موضوع پر مذکورہ رپورٹ میں پیلٹ گن کا استعمال روکنے پر زور دے کر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اگرچہ اپنی ذمہ داری پوری کی ہے؛ تاہم اقوام متحدہ کی ذمہ داری اصولی طور پراس سے کہیں آگے کی ہے۔ کیونکہ عمر بھر کے لیے معذوری کا سبب بننے والا غیر انسانی ہتھیار پیلٹ گن ناصرف بچوں کے لیے خطرات کا موجب ہے بلکہ بڑی عمر کے افراد بھی اس سے اسی طرح متاثر ہوتے ہیں، اس لیے پیلٹ گن کا استعمال بند کرانے کے لیے اقوام متحدہ کو زیادہ سنجیدہ اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے انسانی حقوق مقبوضہ کشمیر میں
پیلٹ گن کے اثرات پر جامع رپورٹ مرتب کرے اور سکیورٹی کونسل کی سطح پر اس رپورٹ پر بحث کی جائے اور بھارت سے ان ظالمانہ اقدامات پر بازپرس کی جائے۔ اقوام متحدہ سے مہذب دنیا کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اقوام عالم کا یہ معتبر فورم ناانصافی کا سامنا کرنے والی مظلوم اور پسی ہوئی اقوام کے حقوق کی خاطر اپنے فرائض کی بجاآوری میں کامیاب دکھائی نہیں دیتا۔ دنیا میں بڑھتی ہوئی ناانصافی، جارحیت اور بدامنی کا اقوام متحدہ کی اس غیر فعالیت سے بھی کسی حد تک تعلق بنتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر ہی کی مثال لے لیں کہ اس تنازع کا تصفیہ کرنے کا اصول اقوام متحدہ کی قراردادوں میں موجود ہے مگر قریب سات دہائیوں سے اس پر عمل کی نوبت نہیں آسکی اور اس دوران مقبوضہ کشمیر کے عوام مسلسل قابض بھارتی فورسز کے مظالم کے نشانے پر ہیں۔ اگر اقوام متحدہ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو یہاں کے عوام کی رائے کے مطابق بروقت حل کردیا جاتا تو یقینا کشمیر کی کم از کم تین نسلوں کو مظالم کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور برصغیر پاک و ہند کے خطے میں علاقائی تعلقات اور امن کی صورت حال مختلف ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا حل طلب مسئلہ صرف پاکستان اور بھارت میں تنازع کی بنیادی وجہ نہیں بلکہ چین بھی اب اس مسئلے کا ایک متاثرہ فریق ہے۔ اس طرح مسئلہ کشمیر کے اثرات جنوبی ایشیا کی مجموعی صورت حال پر اثر انداز ہے۔ بے شک اقوام متحدہ مظلوم کشمیریوں کی حالتِ زار سے لاعلم نہیں کہ وقتاً فوقتاً رپورٹوں میں اس المناکی کی نشان دہی کر دی جاتی ہے، جیسا کہ بچوں کے حوالے سے حالیہ رپورٹ میں ذکر کیا گیاہے یا گزشتہ برسوں کے دوران یو این ہیومن رائٹس کمشنر کی جامع رپورٹس مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین صورت حال پر روشنی ڈال چکی ہیں۔ مگر اقوام متحدہ کا منصب صرف مسائل کی نشان دہی نہیں بلکہ ان کاحل تجویز اور اسے نافذ کرنا ہے۔ نشان دہی کا کام تو ذرائع ابلاغ، غیر سرکاری تنظیمیں اور تھنک ٹینک بہتر انداز سے کر رہے ہیں، اقوام متحدہ کی ذمہ داری تو اس سے بہت آگے کی ہے اور ستم رسیدہ آبادیاں اس سے یہی توقع رکھتی ہیں کہ یو این علاقائی مسائل کے حل تجویز کرے گا اور عمل کرائے گا۔ اگر اقوام متحدہ بھی واقعات کی جمع بندی تک محدود ہوجائے تو عالمی توازن اور استحکام کے لیے دنیا کس کی طرف دیکھے گی؟ انسانی حقوق کی پاسداری، انصاف کی فراہمی اور بقائے باہمی کی منشا عالمی امن کے بنیادی عناصر ہیں۔ معاشی نمو اور عالمی ترقی کا تصور بھی اسی سے جڑا ہے۔ معاشی مفادات اپنی جگہ اہم ہیں مگر مستحکم عالمی امن، ترقی اور خوش حالی کی ضمانت ہے اور معیشت اور منڈی کو زمینی حقائق سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ بدامنی کا ہلکا سا شائبہ کسی ملک کی بلندیوں پر پرواز کرتی معیشت کو کم سے کم وقت میں زمین بوس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اقتصادیات کی بنیاد خلا میں نہیں رکھی جاسکتی، یہ انسانی زندگی اور ماحول سے جڑے ہوئے مظاہر ہیں۔ چنانچہ اقوام عالم کو سوچنا ہوگا کہ مارکیٹ کے محدود مفادات کی خاطر آفاقی قوانین کو پس پشت ڈال کر دنیا کو مزید کمزور نہ کیا جائے۔ عالمی امن کو ان خطرات سے آگاہ کرنے اور بچانے کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے۔ اقوام عالم کے اس بنیادی پلیٹ فارم ہی سے یہ پہل کی جاسکتی ہے جو مقبوضہ کشمیر کے ستم خوردہ لوگوں، فلسطین کے مظلوموں اور علاقائی جارحیت سامنا کرنے والی دیگر اقوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بناسکتی ہے۔
قا رئین کرام،یہ ہیں وہ حا لا ت جو اس با ت کے متقا ضی ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کئے بغیر ہماری حکو مت کو بھارت کی جا نب دوستی کا ہا تھ بڑھا نے سے گریز کر نا چا ہیے۔

تبصرے بند ہیں.