کراچی اور ادھورا انصاف……

142

ہمیں کراچی میں ناجائز تجاوازات گرانے کے سپریم کورٹ کے حکم من و عن قبول ہے لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ آخر یہ تجاوزات قائم کرنے کی اجازت کس نے دی۔ یہ تجاوزات کسی کچی آبادی پر مشتمل نہیں تھی اور نہ ہی ایک دو مرلہ کے گھر تھے بلکہ بیس بیس منزلہ عمارتیں تعمیر کی گئیں تھیں۔ اس نوعیت کی تجاوزات کی اجازت میں سیاسی اشیر باد کے علاوہ دسیوں محکموں کی اجازت شامل ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کو ان تجاوزات کے جنگل اگانے والوں کو بھی قرار واقعی سزا دینی چاہے تھی۔ افسوس سپریم کورٹ نے اس سے صرف نظر کیا اور تجاوزات کی برائی کی جڑوں کہ سرکوبی کئے بغیر اس سے فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف ہی ایکشن لیا۔ اس فیصلے سے تجاوزات قائم کرانے والا مافیا مزید مضبوط ہو گا اور کل پھر عوام اس کا نشانہ بنے گی۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ حکومتی محکموں اور ایوانوں میں موجود ان تجاوزات کو قائم کرنے والے ذمہ داران پر بھی اسی سختی سے نمٹے جس طرح تجاوزات گرائی جا رہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے اگر ذمہ داران حکمرانوں یا محکموں میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف ایکشن نہ لیا تو پھر مستقبل میں ان تجاوزات کو کوئی نہ روک سکے گا۔ دوسری طرف سندھ حکومت بھی اپنی ہی مقامی حکومتوں پر الزام تراشی کے علاوہ متاثرین کی داد رسی نہیں کر رہی۔ جبک بطور سندھ حکومت ان کا بھی فرض تھا کہ کسی بھی غیر قانونی تعمیر پر نظر رکھتی لیکن یہ مکروہ دھندہ سب سے مل ملا کر ہو رہا تھا۔
 یہ تو سچ ہے کہ یہ تجاوزات حکومتی اراکین اور محکموں کی ملی بھگت کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی۔ ان متاثرین کو سندھ حکومت متبادل جگہ فراہم کر کے ان کی کسی حد تک داد رسی کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ ان تجاوزات کے ذمہ دار کے خلاف کارروائی کے علاوہ انسانی بنیادوں پر سندھ حکومت کو متاثرین کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا حکم بھی دے دے۔ادھورے انصاف سے مظلوموں کی آہیں پورے معاشرے پر تقسیم ہو جاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص تمام تر حکومتی دستاویزات دیکھ کر اور تصدیق کے بعد اپنی جمع پونجی سے گھر بناتا ہے اور کل کو کوئی عدالت اس سارے عمل کو ہی ناجائز قرار دے کر گرانے کا حکم دیتی ہے تو عوام پھر کس پر اعتبار کریں کس سے فریاد کریں۔ کیونکہ سپریم کورٹ انصاف کا آخری دروازہ اگر یہاں 
سے انکار ہے تو پھر داد رسی بھی بھول جائیں۔
سپریم کورٹ کراچی کے علاوہ لاہور پر بھی توجہ دے جہاں تجاوزات مافیا پارکس، گرین بیلٹ، سرکاری زمینیں اور نالے تو چھوڑیں دریاے راوی کو ہڑپ کر گیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس سے پہلے سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار بھی اپنے دور میں لاہور میں بلڈنگ بائی لاز اور نقشے کی خلاف ورزی یا تجاوزات پر کئی منزلہ عمارات کو گرا چکے ہیں۔ لیکن انہوں نے بھی ان خلاف ورزیوں اور تجاوزات کی اجازت دینے والے سیاستدانوں اور حکومتی اہلکاروں کیخلاف کوئی کارروائی نہ کی۔ جس کی وجہ سے قبضہ مافیا کے علاوہ سرکاری محکمے بھی تجاوزات میں پیش پیش رہے۔ لاہور کے کئی پارک اور سڑکیں بھی یہ مافیا ہڑپ کر چکا ہے لیکن کارروائی ندارد وجہ یہ بنی کہ اس وقت کے چیف جسٹس نے بھی برائی کو جڑ سے نہ اکھاڑا اور مافیا اپنے کالے کرتوتوں میں لگا رہا اور لاہور قبضہ مافیا کی جنت بنتا جا رہا ہے۔ 
 یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ حکومت ملک ریاض پر نوازشات کی بھرمار کرنے کو تیار ہے لیکن اپنے غریب عوام کی دادرسی اس کی ترجیحات میں نہیں۔ بلکہ موجودہ وفاقی حکومت نے بھی ملک ریاض کے قریباً 500 ارب روپے بھی اسے واپس کرنے کے حق میں ہیں۔ یاد رہے کہ یہ رقم سابق چیف جسٹس نے سندھ حکومت کو ادائیگی کا حکم دیا تھا۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل اور اپویشن لیڈر سندھ حلیم عادل شیخ بھی چھوٹے سے چھوٹے معاملے پر سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں لیکن تجاوزات آپریشن کے متاثرین کے معاملے پر ان کے لب بھی سلے ہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی اس مسئلے پر کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ سنا ہے اقوام متحدہ کے لگتے سگتوں نے کراچی میں ناجائز تجاوزات گرانے کا نوٹس لیا ہے۔ لیکن ہماری وزارت خارجہ خاموش ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ان تجاوزات کو ہٹانے کا حکم پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے دیا تھا اقوام متحدہ نے پھر اس پر تشویش کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ نے یہ بھی جاننے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ نے یہ حکم کیونکر دیا۔ 
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اقوام متحدہ سے وابستہ انسانی حقوق کے ماہرین نے کہا ہے کہ کراچی کے برساتی نالوں کو چوڑا کرنے کے لیے لوگوں کی بے دخلی کو فوراً روکا جائے کیونکہ اس سے کم ازکم ایک لاکھ لوگ بے گھر ہوسکتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ نے کبھی فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے غریب عوام کے گھر اور بلند بالا عمارتیں بم باری سے گرانے اور ان کی بستیاں کی بستیاں تاراج کرنے اور سینکڑوں بے گناہوں کی جانیں جانے کا نوٹس لیا۔کبھی اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی بستیاں تاراج کرکے یہودیوں کی آباد کاری کا نوٹس لیا؟ کیا مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی بربریت اور کشمیریوں کے ہنستے بستے گھر جلانے اور بلڈوزروں سے زمین بوس کرنے کا نوٹس لیا؟ نہیں اور وہ نہ اس بربریت کا نوٹس لیں گے۔ کراچی میں تو تجاوزات ختم کرنے کا حکم ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ نے دیا اور اس پر بھی نام نہاد یو این اوکے پٹھوں نے تشویش کا اظہار کر دیا حیف ہے۔ اصل میں وزارت خارجہ اتنی نااہل ہے کہ اس کاذمہ دار وزیر آسان ہدف یعنی اپوزیشن پر تو تنقید کے تیر برساتا ہے لیکن جہاں اس کی مہارت درکار ہے وہاں چپ شاہ بنا رہتا ہے۔ ہم جب اپنے اصل ہدف سے ہٹ کر دوسرے قضیوں میں ٹانگ اڑائیں گے تو نتیجہ سبکی کے علاوہ کچھ نہ نکلے گا۔ 
دوسری طرف FATF نے پاکستان کو ایک بار پھر گرے لسٹ میں ہی برقرار رکھا اور مزید اقدامات کاتقاضا کیا۔ لیکن اسے بھارت میں یورینیم کی سمگلنگ نظر آئی نہ ہماری وزارت خارجہ نے اس معاملے کی طرف توجہ دلائی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس مسئلے پر بھارت کے خلاف ہاہا کار مچ جاتی لیکن شاید ہمارے حکمرانوں کے نزدیک یہ معاملہ توجہ طلب نہ تھا۔ ایف اے ٹی ایف کے صدر سے پوچھا گیا کہ بھارت میں ایٹمی مواد کھلے عام بک رہا ہے آپ کوئی ایکشن لیں گے تو فاٹف کے صدر نے جواب دیا کہ اس موضوع پہ کوئی بات نہیں کروں گا یہ ہے فاٹف کی حقیقت۔ ہماری وزارت خارجہ اور وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج اس پر بھی خاموش ہے۔ ان کے نشانے بھی اپوزیشن پر پکے بیٹھتے ہیں اور جہاں نشانہ بازی کرنی چاہیے وہاں محض چاند ماری پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
قارئین اپنی رائے کے اظہار کے لیے اس نمبر 03004741474 پر وٹس ایپ، سگنل، بی آئی پی یا ٹیلیگرام کر سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.