دوستو،”سوہنی“ گھاٹ بدل سکتی تھی اور کہانی چل سکتی تھی۔۔ ”رانجھا“ غنڈے لے آتا تو،ہیر کی شادی ٹل سکتی تھی۔۔”سسی“ کے بھی اونٹ جو ہوتے، تھل میں کیسے جل سکتی تھی۔۔”مرزا“ نے کب سوچا تھا، صاحباں راز اگل سکتی تھی۔۔”لیلیٰ“ کالی پڑھ لکھ جاتی، فیئر اینڈلولی مل سکتی تھی۔۔ جو پتھر ”فرہاد“ نے توڑے،جی ٹی روڈ نکل سکتی تھی۔۔ا نٹرنیٹ جو پہلے ہوتا،ہجر کی رات بھی ڈھل سکتی تھی۔۔بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔۔نئے پاکستان کے مشہور و معروف ڈائیلاگ ”گھبرانا نہیں ہے“ نے عوام کی ناک سے لکیریں نکال دی ہیں۔۔ کبھی آٹے والے ہڑتال پر چلے جاتے ہیں تو کبھی آئل ٹینکرز کی ہڑتال سے ملک میں پٹرول کا بحران آجاتا ہے۔۔ چینی مافیا کا اب تک کوئی علاج نہیں ہوسکا۔۔ وزیرخزانہ بجٹ تقریر میں موبائل فون سے کال پر ٹیکس کا بتاتے ہیں،اگلے روز حکومت اعلان واپس لے لیتی ہے، کچھ روز بعد پھر ٹیکس لگادیا جاتا ہے۔۔ ایسی درجنوں مثالیں آپ کو بتاسکتے ہیں لیکن آپ نے فی الحال گھبرانا نہیں ہے۔آج سنڈے ہے تو اپنی چھٹی خوشگوار موڈ میں منائیں اور ہماری اوٹ پٹانگ باتیں انجوائے کریں۔۔
ایک پہلوان کی نئی نئی شادی ہوئی، تین دن بعد ہی اس کی ٹانگ نیلی ہوگئی۔۔ گھبرا کر گاؤں کے حکیم کے پاس پہنچا۔۔حکیم نے نیلی ٹانگ کو اچھی طرح چیک کرنے کے بعدانکشاف کیا کہ۔۔ ٹانگ کاٹنی پڑے گی، کیوں کہ زہر پوری ٹانگ میں پھیل گیا ہے۔۔ پہلوان نئی زندگی کی شروعات کرنے جارہا تھا، سوچا کہ اب تو سہارا مجھے مل گیا ہے، فوری ٹانگ کاٹنے کی اجازت دے دی۔۔اگلے دن پہلوان کی دوسری ٹانگ بھی نیلی ہوگئی، وہ پریشان حال پھر حکیم کے پاس آیا اور اپنی جان بچانے کی التجا کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔ حکیم صاحب! جلدی سے دوسری ٹانگ بھی کاٹ دیں زہر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ نئی نئی شادی کی ہے، میں مرنا نہیں چاہتا۔۔حکیم سے پہلوان کی تکلیف برداشت نہ ہوئی، اس نے جلدی سے دوسری ٹانگ بھی کاٹ دی اور ان کی جگہ پلاسٹک کی ٹانگیں لگا دیں دو دن گزرے تو پلاسٹک کی ٹانگیں بھی نِیلی ہوگئیں۔۔ پہلوان پھر پریشان حالت میں حکیم کے پاس پہنچا۔۔حکیم معائنہ کرنے کے بعد بولا۔۔ آپ نے گھبرانا نہیں ہے، اب مجھے سمجھ آگئی ہے، آپ کی دھوتی رنگ چھوڑ رہی ہے۔۔
مشہور ہے کہ ایک بار ایک شخص نے بہلول سے کہا۔۔اے دانا بہلول، میرے پاس کچھ رقم ہے، مجھے مشورہ دو کہ میں کیا خریدوں کہ اس سے نفع حاصل کرسکوں۔بہلول نے اْس شخص کو جواب دیا۔روئی اور لوہا خرید لو۔وہ شخص روئی اور لوہا خرید لیتا ہے۔ اتفاق سے کچھ ہی دن میں روئی اور لوہے کی قیمت بڑھ جاتی ہے جس سے اْس شخص کو کافی منافع حاصل ہوتا ہے۔ وہ شخص دوبارہ بہلول کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے۔ اے دیوانے بہلول، میرے پاس کافی رقم ہے۔ مجھے مشورہ دو کہ کیا خریدوں جس سے نفع حاصل ہو۔یہ سن کر بہلول اسے کہتا ہے کہ پیاز اور تربوز خرید لو۔وہ شخص اپنی پوری رقم پیاز اور تربوز کی خریداری میں لگا دیتا ہے۔ کافی دن گزرجاتے ہیں۔ خریدار تو کم آتے ہیں لیکن پیاز اور تربوز گَل سڑ کر خراب ہو جاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ شخص غصے میں بہلول کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے۔۔جب میں نے پہلی مرتبہ تم سے مشورہ کیا تو، آپ نے کہا روئی اور لوہا خریدلو، میں نے ویسا ہی کیا اور مجھے نفع ہوا۔ لیکن دوسری دفعہ آپ نے مجھے پیاز اور تربوز خریدنے کو کہا جو سارے سڑ گئے اور مجھے کافی نقصان ہوا۔آپ نے ایسا کیوں کیا؟؟۔۔یہ سن کربہلول مسکرایا اور کہا۔ پہلے تم نے مجھے دانا بہلول کہہ کر پکارا تھا تو میں نے تمہیں مشورہ بھی دانائی سے دیا تھا۔۔ لیکن دوسری مرتبہ تم نے مجھے دیوانہ بہلول کہہ کر پکارا تھا اور میں نے دیوانہ بن کر تمہیں مشورہ دیا تھا۔۔ اس لئے آپ نے گھبرانا نہیں ہے، بلکہ کپتان کو اچھے ناموں سے پکارنا ہے تاکہ وہ آپ کو اچھے مشورے دے سکے۔۔
لیجنڈ مزاح نگار۔۔شفیق الرحمان اپنی کتاب ”حماقتیں“ میں لکھتے ہیں کہ۔۔عاشق کے ہاتھوں میں اس کی محبوبہ کے ہاتھ تھے۔۔وہ اپنی محبوبہ سے پوچھتا ہے۔۔اس میں سے میری انگلیاں کون سی ہیں؟۔۔ محبوبہ شرما کے کہتی ہے ‘ساری آپ کی ہیں ‘۔۔مجھے اس بات نے اپنا گرویدہ کر لیا۔۔میری بڑی خواہش تھی کوئی مجھے بھی ایسے کہے۔سال پر سال گزرتے گئے،لیکن میں یہ خواہش نہ بھول سکا۔۔آخر وہ میری زندگی میں آگئی۔ایک دن جب اس کے ہاتھ میرے ہاتھوں میں تھے مجھے اپنی وہ ہی خواہش یاد آ گئی۔۔ میں نے بڑے جذب کے عالم اس سے پوچھا، ان میں سے میری انگلیاں کون سی ہیں؟۔۔اس نے کہا، اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے، یہ کالی کالی سب آپ کی ہیں۔۔یعنی اگر آپ کی ”وہ“ یا آپ کے ”وہ“ بھی کبھی اسی قسم کے ریمارکس پاس کریں تو آپ نے پلیز گھبرانا ہرگز نہیں۔۔ایک بڑی کنسٹرکشن کمپنی کو پاکستان پہاڑی علاقوں میں سڑک بنانے کا ٹھیکہ مل گیا،انھوں نے نقشے بنانے شروع کئے۔سروے کہ دوران ایک پاکستانی ٹھیکیدار کو یہ سب سمجھ نہ آیا۔ اعتراض اٹھانے پر انھوں نے پوچھا کہ۔۔ آپ لوگ پہاڑی علاقے میں سڑک کا نقشہ کیسے ترتیب دیتے ہیں؟ اس پر پاکستانی ٹھیکیدار نے کہا کہ۔۔۔ہم کھوتے پہ چونے کی بوری سوراخ کر کے لاد دیتے ہیں اور کھوتے کو پہاڑ پہ چھوڑ دیتے ہیں، کھوتا جس راستے سے اوپر نیچے جاتا ہے وھاں چونے کے نشان سے ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ یہ بہتر راستہ ہے، اور پھر وہیں پر سڑک بنانا شروع کردیتے ہیں۔۔وہ غیر ملکی بڑا پریشان ہوا اور پوچھا کہ۔۔آپ کے یہاں سڑکیں سول انجینئرز نہیں بناتے؟۔۔تو ٹھیکیدار نے ہنس کر کہا۔۔۔جہاں کھوتا میسر نہ ہو وہاں انجینئرزہی بناتے ہیں۔۔ایک امیر خاتون کے ہاں چوری ہو گئی۔پولیس آفیسر ان کے گھر پہنچا تو خاتون نے قدرے روتی ہوئی آواز میں کہا۔۔آج کل ایمانداری نہیں ہے دیکھیے میری نوکرانی وہ تین قیمتی لباس بھی لے بھاگی جو میں نے پیرس سے واپسی پر کسٹم کے ذریعے اسمگل کیے تھے۔۔شوہر نے دیوار پر نصب گھڑی کو دیکھتے ہوئے غصے سے کہا۔۔بیگم،تمہیں کچن میں گئے تین گھنٹے ہوگئے، کیا چانپیں ابھی تک نہیں چلی جاسکیں؟؟چند ہی لمحوں کے بعد اسے سلیقہ مند بیگم کی آواز سنائی دی۔۔تل تو لی تھیں میں نے،لیکن وہ ٹھیک سے گلی نہیں تھیں اس لئے میں نے انہیں بھون لیا تو وہ جل گئیں،اب اگر آپ ذرا صبر کریں تو میں انہیں ابال کر بس لارہی ہوں۔۔بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں لیکن اگر ان کو جھکا لیا جائے تو یہی انگلیاں برابر ہو جاتی ہیں۔ہماری زندگی تب آسان ہوجاتی ہے جب ہم جھکتے ہیں اور نرم رویہ اختیار کرتے ہیں۔اللہ کریم ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ عزت پیار محبت اور احترام سے زندگی گزارنے کی توفیق دے تا کہ ہمارے درمیان اللہ پاک کے بنائے خوبصورت رشتے ٹوٹنے سے بچ جائیں اور قائم دائم رہیں۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.