مصر میں اخوان رہنماؤں اور کارکنوں پر مظالم

177

 امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے مصر کی فوجی حکومت کی جانب سے اخوان المسلمون کی12 راہنماؤں کو سزائے موت اور 31 سرکردہ کارکنوں کو سزائے عمر قید سنائے جانے کو انصاف و قانون کی تضحیک قراردیا ہے۔ ان سزاؤں سے ظالم فوجی حکمران جنرل السیسی کی جانب سے عدالتوں اور نظام انصاف کو پامال کرنے کا مزید ثبوت فراہم ہوگیا ہے۔امیرجماعت اسلامی نے انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے ساتھ اپنی وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مصر کی واحد منتخب حکومت کے ارکان کی پھانسیوں اور سزاؤں کو رکوائیں۔
بین الاقوامی برادری کی جانب سے فوری اور فیصلہ کن اقدامات نہ کیے گئے تو مصری آمر حکمران ٹولے کو یہ موقع مل جائے گا کہ مصر میں عام جمہوری قوتوں کو ملیامیٹ کرکے رکھ دے۔جن سرکردہ راہنماؤں کو سزا سنائی گئی ہے ان میں محمد البلتاجی، ڈاکٹر عبد البر، اسامہ یاسین اور صفوت حجازی شامل ہیں۔ محمد البلتاجی مصری پارلیمان کے سابق رکن ہیں ان کی 17 سالہ بیٹی اسما البلتاجی کو قاہرہ میں پرامن مظاہرے میں نقاب پوش افراد نے سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہلاک کردیا تھا۔ عبدالرحمان البر الازھر یونیورسٹی کے شعبہ اصول الدین کے سابق سربراہ جبکہ اسامہ یاسین نوجوانان کے سابق وزیر رہے ہیں۔
 ان افراد نے زندگی بھر شہری حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کی ہے۔ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ منتخب جمہوری حکومت کو جبری طور پر برطرف کرنے کی پرامن طور پر مذمت کررہے تھے۔ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے دانشوروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو سزائیں سنانا انصاف و قانون کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے۔ ان ظالمانہ سزاؤں پر عملدرآمد سے نوجوانوں کو خطرناک 
پیغام ملے گا جو پہلے ہی خطے کے شورش زدہ علاقے میں رہ رہے ہیں۔ اس اقدام سے تشدد پر یقین رکھنے والی پرامن تنظیموں کے اس بیانیے کو تقویت ملے گی کہ تبدیلی لانے کے لیے جمہوری جدوجہد درست راستہ نہیں ہے۔ 
مصر میں طویل آمریت کے بعد 2012 میں انتخابات منعقد ہوئے تھے جن میں 51 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد 30جون 2012ء کو فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے رہنما جناب محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہوئے۔مصر میں انتخابات جمہوریت کے ہر پیمانے کے حوالے سے شفاف اور غیر جانبدارانہ انداز میں ہوئے۔ ان انتخابات کو مغربی جمہوریت کے تمام پیمانوں پر پرکھا جائے تو بھی اس میں کوئی جھول نظر نہیں آتا۔ یہ ملک جمہوریت کے راستے پر رواں ہوا لیکن ایک سال کے اندر ہی اس کی جمہوری بساط لپیٹ دی گئی۔آئین معطل ہوااور فوج نے ڈاکٹر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر سابق صدر سمیت ان کے رفقاء  کو نظر بند کر دیا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ملک کا عبوری صدر مقرر کر کے ٹیکنو کریٹ حکومت قائم کر دی۔ 
صدر مرسی کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ انہوں نے دینی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ کے مجبور اور محصور اور بے کس مسلمانوں کی مدد کی اور اسرائیل کو پیغام دیا کہ وہ بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام بند کرے۔ صدر مرسی کا یہ جرم اسرائیل اور مصر کے عیش پرست جرنیلوں کو پسند نہیں آیا نتیجتاً انہوں نے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا محمد مرسی کی مخالفت میں تمام سیکولر جماعتیں آج بھی متحد ہیں۔ ان سب نے مل کر جمہوریت کو ختم کیا اور جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے فوج کا ساتھ دیا۔ عدلیہ جو پہلے ہی فوج کی لونڈی بنی ہوئی تھی وہ بھی کھل کر آئین، قانون، اخلاق اور انصاف کے مقابلے میں لاقانونیت، بدمعاشی اور بے انصافی پر اتر آئی ہے۔ تب امریکا نے مصر کی فوج جو کہ لادینیت کا شکار تھی، کو آلہ کار بنانے کا فیصلہ کیا اور فوج کے سربراہ نے صدر مرسی اور اخوان المسلمین کے چیدہ چیدہ لیڈرز کو گرفتار کرلیا۔ اس پر اخوان نے جگہ جگہ دھرنے دینے شروع کردیے۔ 
فوج یہ دلیل دیتی ہے کہ عوام صدر محمد مرسی کے خلاف ہوگئے تھے۔ اسی لئے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ حالانکہ محمد مرسی کے حامیوں نے ثابت کیا کہ ان کے حامیوں کی تعداد ان کے مخالفین سے کہیں زیادہ ہے وہ کئی ہفتوں سے سراپا احتجاج تھے۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ عوام کے منتخب صدر محمد مرسی کو بحال کیا جائے لیکن فرعون صفت جرنیلوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی بلکہ صدر مرسی کے ساتھ اخوان المسلمون کی قیادت کو بھی پس دیوار زندان کردیا۔ پھر ایک دن صدر محمد مرسی کمرہ عدالت میں سماعت کے دوران انتقال کرگئے۔ محمد مرسی پر قطر کیلئے جاسوسی کا الزام تھا۔ محمد مرسی 30 جون 2012 سے تین جولائی 2013 تک مصر کے صدر رہے۔ صدر مرسی کی وفات سے امت مسلمہ ایک عظیم رہنما محروم ہوگئی۔
جنرل السیسی کی طرف سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹانے کے اقدام کی کچھ مغربی ممالک نے حمایت اور ستائش کی تھی۔ اگر جمہوری حکومت عوامی یا فوجی قیادت کی توقعات پر پورا نہیں اْتر رہی تھی تو اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ جمہوریت کو ڈی ریل کر دیا جائے۔ جرنیلوں اور انکی پشت پناہی کرنے والی قوتوں کو شاید عوامی سطح پر اس شدید ردعمل کا ادراک نہیں تھا جو فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سامنے آیا اور پھر جلتی پر تیل کا کام فوجی حکومت نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف متعدد انسانیت سوز آپریشن کر کے کیا۔یہ آپریشن سب سے زیادہ خوفناک تھا۔ اس سے یوں لگا جیسے فرعون ایک بار پھر اقتدار میں آ گیا ہے۔ عالمی رائے عامہ بھی یہی ہے کہ معزول مصری حکومت کی بحالی کے سوا کوئی بھی حل اس ملک میں امن قائم نہیں کرسکے گا  لہذااقوام متحدہ کو مصر میں امن اور شہریوں کے تحفظ کے لئے ان ہی خطوط پر کام کرناہوگا۔

تبصرے بند ہیں.