تذکرہ بئیر غرس و فندق وقف عثمان ابنِ عفانؓ….!

61

 

(گزشتہ سے پیوستہ)
حضرت سلمان فارسی ؓ سے منسوب باغ (کھجوروں کے باغ) کی زیارت کے بعد اشتیاق ہمیں اُسی سمت میں کچھ فاصلے پر ”بئیر غرس“ کی زیارت کے لیے لے گیا۔ بئیر غرس جسے جنت کا کنواں بھی کہا جاتا ہے کی بڑی فضیلت سمجھی جاتی ہے ۔لوگ بڑے شوق اور محبت و عقیدت کے ساتھ اس کا پانی پیتے ہی نہیں ہیں بلکہ برتنوں میں بھر کر ساتھ بھی لے جاتے ہیں۔ مشہور صحابی حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اس کنوئیں ”بئیر غرس“ کا پانی پیتے اور اس سے وضو بھی فرماتے ۔ ایک اور صحیح روایت میں بتایا گیا ہے کہ ایک دن نبی پاک نے ارشاد فرمایا کہ میں نے آج کی رات بہشت کے کنوﺅں میں سے کسی کنوئیں پر صبح کی ہے۔ حضور صبح کو بئیر غرس پر پہنچے، وضو فرمایا اور بقایا پانی کنوئیں میں ڈال دیا۔ آپکو وہاں شہد پیش کیا گیا اُس میں سے کچھ کھانے کے بعد بچا ہوا شہد بھی کنوئیں میں ڈال دیا۔ اسی طرح ابنِ ماجہ کی ایک صحیح روایت ہے کہ آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے وصال کے بعد مجھے میرے کنوئیں (بئیر غرس) کے سات مشکیزے پانی سے غسل دینا۔ آپ کا وصال مبارک ہوا تو حضرت علیؓ بئیر غرس سے ہی آپ کے غسل کے لیے سات مشکیزے پانی کے بھر کر لے گئے۔
بئیر غرس کے بارے میں نبی پاک کی یہ روایات اور ارشادات اس کو ایک مقدس ، منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتے ہیں۔ ہم اشتیاق کے ساتھ گاڑی پر وہاں پہنچے تو وہاں زائرین کافی تعداد میں موجود تھے۔ کنوئیں کے بالمقابل کھلی جگہ پر گاڑی کھڑی کی تو وہاں کچھ نوعمر لڑکے پلاسٹک کی چھوٹی بڑی بوتلیں بیچ رہے تھے۔ لوگ اُن سے مہنگے داموں بوتلیں خرید رہے تھے تاکہ ان میں بئیر غرس کا پانی بھر کر ساتھ لےجا سکیں۔ ہماری خواتین کے پاس پانی کی کچھ خالی بوتلیں تھیں لہٰذا ہم میں سے کسی نے کوئی بوتل وغیرہ نہیں خریدی ۔ کنوئیں کے گرد اور اس کے اوپر لوہے کا ایک بڑا جنگلا لگا ہوا ہے اس بنا پر اس میں
جھُک کر جھانکا نہیں جا سکتا۔ پیچھے ایک طرف کنوئیں کی تہہ میں پانی تک جانے کے لیے پُرانے زمانے کی بنی ہوئی ڈھلوان سیڑھیاں نظر آتی ہیں جو اب بند ہیں۔ ذرا آگے بائیں طرف کونے میں پرانی طرزِ تعمیر والا ایک کمرہ ہے جس میں جائے نمازیں وغیرہ بچھی ہوئی ہیں اور لوگ اُن پر نفل ادا کرتے ہیں۔ ہم وہاں پہنچے تو اس کمرے میں سامنے کی طرف سے داخلے کا راستہ بند تھا ۔ ہماری خواتین جو صبح سے مختلف مقامات کی زیارت کے دوران مسلسل نفل پڑھتی آ رہی تھیں ، انہیں کچھ مایوسی ہوئی۔ میری اہلیہ محترمہ اور راضیہ نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ہم دوسری طرف سے دیکھ لیتی ہیں کہ کوئی راستہ ہوگا لیکن میں نے انہیں روک دیا۔ میری اہلیہ محترمہ اب بھی مجھ سے گلہ کرتی ہیں کہ آپ نے وہاں نوافل ادا نہیں کرنے دئیے تھے۔
بئیر غرس کے سامنے (غالباً جانب مشرق) پتھروں کی دیوار میں ٹونٹیاں لگی ہوئی ہیں جن میں دیوار کے پیچھے بنی پانی کی ٹینکی یا سبیل سے ٹھنڈا پانی آتا ہے ۔ لوگ ان ٹونٹیوں سے پانی پیتے ہی نہیں ہیں بلکہ پلاسٹک کی چھوٹی بڑی بوتلوں اور ڈبوں (Canes ) وغیرہ میں بھی بھر لیتے ہیں۔ ہم نے پانی جس کا ذائقہ خوشگوار تھا سیر ہو کر پیا ۔ خواتین نے اپنے پاس موجود چھوٹی بوتلوں میں پانی بھر بھی لیا جو بعد میں اپنے ساتھ پاکستان لے کر آئیں۔ پانی کی ٹونٹیوں والی اسی دیوار کے درمیان میں ایک بورڈ بھی لگا ہواہے جس پر اُوپر عربی میں جلی حروف میں بئیر غرس لکھا ہوا ہے تو اس کے نیچے ذرا کم جلی حروف میں انگریزی میں GHARS WELL کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ اس کے نیچے عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں بئیر غرس کا پورا تعارف اور سیرتِ طیبہ میں اس کے بارے میں روایات کو بیان کیا گیا ہے۔ بئیر غرس کے اس تعارفی بورڈ کا میں نے اپنے موبائل سے ایک شاٹ لیا جو میرے موبائل میں محفوظ ہے تو اس کے ساتھ میں نے بئیر غرس کی منڈیر پر تھکی ہاری بیٹھی اپنی اہلیہ محترمہ اور بھابی (عمران کی امی) کی بھی فوٹو بنائی وہ بھی میرے موبائل کی گیلری میں ابھی تک محفوظ ہے۔
بئیر غرس کے سامنے کھلی جگہ پر ایک اُدھیڑ عمر موٹا تازہ صحت مند عربی اپنی کھلی کیرج گاڑی میں کھجوروں کے ڈبے (کارٹن) رکھے کھجوریں بیچ رہا تھا میں نے عمران سے کہاآئیں ذرا اس سے کھجوروں کی قیمت وغیرہ پوچھتے ہیں۔ اُس نے عجوہ کھجوروں جو زیادہ موٹی نہیں تھیں اور کچھ خشک بھی لگتیں تھیں کا نرخ 20 ریال فی کلو بتایا۔ ہم نے کہا کہ اگر زیادہ (2 یا 3 کارٹن) لینی ہوں تو اُس نے 18 ریال فی کلو بیچنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ اسی دوران ہمیں یہ خیال آیا کہ ہم اس وقت یہاں سے کھجوروں کے کارٹن لے لیتے ہیں تو اُن کو کہاں کہاں اُٹھائے پھریں گے اور پھر ہوٹل میں بھی جبکہ ہماری مکہ واپسی میں کچھ دن باقی ہیں کہاں سنبھالے رکھیں گے۔ اس پر ہم نے کھجوریں بیچنے والے اُن صاحب کو خدا حافظ کہا تو وہ صاحب ہمارے پیچھے ہی پڑگئے کہ ہم اُس سے ضرور کھجوریں خرید کر لے جائیں۔
بئیر غرس کی زیارت کے بعد اشتیاق کے ساتھ اپنے ہوٹل کی طرف آتے ہوئے راستے میں سڑک کے کنارے بنی ہوٹلوں کی اُونچی اُونچی کئی منزلہ عمارتیں دیکھنے کو ملیں۔ ان کے درمیان ایک عمارت پر ”فندق وقف عثمان ابن عفانؓ المدینہ منورہ“ کے الفاظ لکھے دکھائی دئیے۔ خلیفہ سوم امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان ؓ کی شہادت کے تقریباً1400 سال بعد اُن کے نام پر مدینہ منورہ میں وقف کے طور پر ایک بڑے ہوٹل کا موجودہونا کسی حد تک حیرانی کی بات ہو سکتی ہے ۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ حضرت عثمان ؓ جو غنی کے لقب سے جانے جاتے ہیں ، اللہ کریم نے انہیں بے حد مال و جائیداد اور دولت عطا کر رکھی تھی۔ اپنی حیاتِ طیبہ میں نبی پاک کی فرامین کی تعمیل کرتے ہوئے وہ اپنے اموال اور دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہے۔ اُن کی وفات کے بعد بھی اُن کے نام پر مدینہ منورہ میں جائیدادیں وغیرہ موجود تھیں جو اس دور تک بھی موجود رہی ہیں۔ ان جائیدادوں کی آمدن سے مدینہ منورہ کی انتظامیہ نے اُن کے نام پر ایک بڑا ہوٹل بنا کر اُس کی آمدن کو وقف کر رکھا ہے یقینا یہ امیر المومنین حضرت عثمان غنیؓ کے لیے صدقہ جاریہ ہے جو ان شاءاللہ تا قیامت جاری رہے گا۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.