پنجاب بیوروکریسی اور گزشتہ سال

258

ایک طویل عرصے کے بعد پنجاب میں بیوروکریسی کے حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ چیف سیکرٹری کے عہدہ پر کسی افسر کی تعیناتی کا عرصہ اچھا گردانا جا رہا ہے ، ورنہ یہاں ایک درجن سے زائد تعینات سابق چیف سیکرٹریوں کا عرصہ تعیناتی مذاق ہی بنا رہا،وہ تعینات ہوتے ، کام شروع کرتے ،ساتھ ہی انکی تبدیلی کی باتیں شروع ہو جاتیں اور اچانک خبر آتی کہ وہ تبدیل ہو گئے ہیں ،زاہد زمان خوش قسمت ہیں جو دو سال مکمل کر رہے ہیں اور اگر انکی کارکردگی اور وزیر اعلیٰ کے ساتھ ہم آہنگی کو دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ تین سال بھی مکمل کریں گے ،وہ پنجاب میں نگران دور کے آغاز میں چوبیس جنوری دو ہزار تئیس کو چیف سیکرٹری تعینات ہوئے اور بعدازاں مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے بھی انکی کارکردگی کی وجہ سے انہیں اپنے ساتھ برقرار رکھا، انتظامی افسروں کو کسی بھی عہدے پر مناسب عرصہ تعیناتی ملے تو تبھی انہیں اپنی کاکردگی دکھانے کا موقع مل سکتا ہے ،گزشتہ ایک سال کے دوران اگر پنجاب میں بیوروکریسی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اسے اچھا قرار دیا جا سکتا ہے اور اسکی ایک وجہ ان کا مناسب عرصہ تعیناتی ہے۔سابق نگران دور میں چیف سیکرٹری زاہد زمان نے سیکرٹریوں کی جو ٹیم منتخب کی تھی اسکی اکثریت کو انہوں نے منتخب دور میں بھی اپنے ساتھ رکھا ،ٹاپ کلیدی عہدوں پر ان کے ساتھ ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو بھی برقرار رہے مگر چیئرمین پی اینڈ ڈی کے عہدے سے افتخار سہو کو تبدیل کر دیا گیا حالانکہ انہوں نے مثالی کام کیا تھا،انکی جگہ پر ایک اور اچھے افسر بیرسٹر نبیل اعوان کو لگا دیا گیا ،نبیل اعوان نے مسلم لیگ کے سابقہ دو تین ادوار حکومت میں پنجاب اور وفاق میں میاں حمزہ شہباز ،میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کے ساتھ ان کے سیکرٹریٹ میں کلیدی عہدوں پر کام کیا تھا جسکی وجہ سے انہیں مسلم لیگ (ن) کے سیاسی اور انتظامی امور کا کافی تجربہ حاصل ہے۔

کسی بھی اچھی حکومت کیلئے اچھی انتظامی ٹیم کا ہونا ناگزیر ہے،بدقسمتی سے ہماری حکومتیں اچھے ٹیم ممبران کے چنائو میں ہمیشہ باتونی،چالباز،موقع پرست لوگوں کے چنگل میں گرفتار رہیں،سیاسی مداخلت بھی اپنی جگہ ایک نا پسندیدہ امر رہا،لہٰذا اچھی ٹیم کے انتخاب میں ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا،تاہم ایسا بھی نہیں کہ ملکی بیوروکریسی بانجھ ہو چکی ہے ، اچھے ،قابل،تجربہ کار ،محنتی،اصول پسند بیوروکریٹس ہر حکومت کا اثاثہ رہے،انتظامی ٹیم کے انتخاب میں اگر احتیاط برتی جائے ،بیوروکریٹس کے ماضی اور ان کی اہلیت، قابلیت، لیاقت، خدمات کو پیش نظر رکھا جائے اور سیاسی وابستگی سے قطع نظر ٹیم کا انتخاب کر کے انہیں با اختیار بنا کر کام کرنے کا موقع دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں حکومت اپنے منشور پر کامیابی سے عملدرآمد نہ کرا سکے، پالیسیوں کا کامیابی سے نفاذ ممکن نہ ہو،ڈلیور نہ کیا جا سکے اور عوام کو ریلیف میسر نہ آسکے۔
کوئی حکومت اگر ڈلیور نہیں کرتی اور عوام کو ریلیف نہیں دیا جا سکتا تو وہ حکومت کسی بھی طور کامیاب نہیں کہلا سکتی،تاہم اس کیلئے ایک منظم،مربوط،مستحکم اور اہل ٹیم کا ہونا انتہائی ضروری ہے،اس مقصد کیلئے ہر حکومت اپنی مرضی کی ٹیم کے انتخاب میں سر کھپاتی رہی،مگر یہ بھول گئی کہ ڈلیور کرنے ،ریلیف دینے اور اچھی حکومت کے قیام کیلئے مستقل نہ سہی تو لمبے عرصہ کیلئے انتظامی ٹیم کا قیام لازمی ہے،ہمارا المیہ یہ رہا کہ کسی بھی حکومتی رہنما،وزیر یا منتخب رکن کی شکایت،افواہ نما اخباری خبروں،یا کسی زبانی حکم کی تعمیل سے انکار پر بہت اہل،قابل ،مستند افسروں کو بیک جنبش قلم تبدیل کیا جاتا رہا،نتیجے میں کوئی حکومت اپنے منشور پر عملدرآمد تو دور کی بات ڈلیور کر سکی نہ ریلیف دے سکی،تاہم گزراسال اس حوالے سے منفرد رہا، موجودہ حکومت نے بیوروکریسی کی ٹیم پر اعتماد کیا۔ چیف سیکرٹری پنجاب نے بھی اپنی ٹیم کی تیاری میں محنت کی اور افسروں کو تحفظ بھی دیا جس کے نتیجے میں حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کو تسلسل ملا،اگر چہ اس دوران بھی تبادلوں کا جھکڑ چلتا رہا اور پابندی کے باوجود وزیر اعلیٰ کی منظوری سے تھوک کے حساب سے تبادلے عمل میں آئے مگر اس کے باوجود صورتحال تسلی بخش رہی،وزیر اعلیٰ مریم نواز کا رویہ بھی بیوروکریسی کے حوالے سے بہتر رہا اور بیوروکریسی کی اچھی کارکردگی کو حکومتی اور عوامی سطح پر سراہا گیا، اچھے افسروں کو اعزاز بھی دیا گیا، ایسا رویہ محنتی او ر کام کرنے والوں کی حوصہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔

تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں ذوالفقار بھٹو کی حکومت کو بیوروکریسی نے چلایا،اگر چہ حکومتی ذمہ داروں کے بعض نام نہاد عوامی اقدامات کے نتیجے میں بیوروکریسی کی کوششیں رائیگاں گئیں،سیاسی مداخلت بھی آڑے آئی،بعد ازاں فوجی آمر ضیاالحق کی حکومت کو بھی بیوروکریسی کی بیساکھیوں نے ہی دس سال تک کامیابی سے حکمرانی کرنے کا موقع دیا،نواز شریف کا تو انحصار ہی بیوروکریسی پر رہا،اب ان کی بیٹی مریم نواز بھی والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بیوروکریسی کے حوالے سے نرم اور محتاط رویہ رکھتی ہیں،جس کی وجہ سے مداخلت اور تبادلوں کے باوجود مریم نواز ڈلیورر کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، جس بناپر سال2024نہ صرف بیوروکریسی کیلئے اطمینان بخش تھا اور عوام کو بھی زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ ریلیف ملا ،یہ بات ذہن نشین رہے کہ منتخب ادارے اور نمائندے پانچ سال کیلئے آتے ہیں جبکہ بیوروکریسی کو ریاست نے25سال ریاستی مفادات کی نگرانی کیلئے دئیے ہوتے ہیں،حکومت مدت پوری کر کے رخصت ہو جاتی ہے ، ممکن ہے اگلے الیکشن میں عوام کسی دوسری سیاسی جماعت کو مینڈیٹ دیں، ریاست کا وجود برقرار رہے گا،اگر حکومت بدلنے کے فوری بعد تمام پالیسیاں اور اقدامات بھی ریورس ہو جائیں تو ریاست پانچ سال پیچھے چلی جائیگی اور زیرو پوائنٹ سے نئی حکومت آگے بڑھے گی،جو ریاست کیلئے بھی نقصان دہ ہے اور جمہور کیلئے بھی،اور اگر مستقل بیورو کریسی کا تقرر ہو تو وہ آنے والوں کو سمجھا سکتے ہیں کہ پالیسیوں کا تسلسل بہتر ہے،فلاں پالیسی نئی حکومت کیلئے بھی سود مند ہے البتہ فلاں پالیسی میں یہ معمولی ترمیم کی جا سکتی ہے،یوں ریاست مستقل مزاجی سے آگے بڑھتی رہے گی اور ترقی کے خواب کو تعبیر سے ہمکنار کیا جا سکے گا۔

گزرے سال میں حکومت اس تناسب سے ڈلیور کر سکی نہ عوام کو ریلیف دے سکی جس قدر عوام مسائل و مشکلات کا شکار ہیں،لیکن جو تھوڑا بہت ڈلیور کیا گیا اور جو ریلیف عوام کا مقدر بنا وہ صرف بیوروکریسی کو ملنے والے معمولی استحکام کا نتیجہ ہے،اگر آنے والی کوئی بھی حکومت بیوروکریسی کو اعتماد میں لے کر پالیسیاں وضع کرے،اقدامات کا اعلان کرے اور پھر عملدرآمد کیلئے فری ہینڈ اور اعتماد دے،اختیار دے،جہاں فنڈز کی ضرورت ہو ، بخیلی نہ کرے تو عوامی مسائل و مشکلات پرقابو پایا جا سکتا ہے، سال2024 کو اگر ابتدائیہ کہا جائے اور اسی طرح بیوروکریسی اور انتظامی مشینری کو بلا خوف تبادلہ کام کرنے کی اجازت دی جائے تو معاملات برسوں نہیں مہینوں میں اپنی ڈگر پر آ سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.