ترقی یافتہ ممالک یہ کہنے کی نوبت نہیں آتی کہ فلاں سرکاری آفیسر دیانتدار ہے۔ یہ طے شدہ حقیقت ہوا کرتی ہے کہ انتہائی اکثریت دیانتدار، محب وطن اور فرض شناس سمجھی جاتی ہے۔ دیانتدار معاشرت میں کسی سرکاری اہلکار کے لئے امانتدار کا لفظ استعمال نہیں کرنا پڑتا۔ بھلے دنیا بھر میں کرپشن کا زہر عام ہو رہا ہے مگر جہاں یہ پچاسی فیصد سے تجاوز کر جائے وہ معاشرت کا انسانیت منہ چڑاتی ہے۔ حضرت بہلول داناؒ خلیفہ ہارون رشید کے دور کے صوفی اور درویش ہستی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ زبیدہ خاتون کا مٹی کا گھر خریدنے جبکہ خلیفہ ہارون الرشید کا نہ خریدنے اور پھر خواب زبیدہ خاتون کا جنت میں گھر ہونے کا واقعہ حضرت وہب بن عمرؒ المعروف بہلول دانا جو بنو امان قبیلہ سے تھے حضرت امام جعفر صادقؒ کے شاگرد تھے سے ہی منسوب ہے۔ ایک دن کسی نے ان سے مذاق کیا کہ بہلول بادشاہ نے تمہیں پاگل گننے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ بہلول دانا بولے پھر تو مجھے اس کام کے لیے (دفتر) آج کی اصطلاح میں (محکمہ یا سیکرٹریٹ) کہتے ہیں درکار ہو گا اور مزید کہا کہ ہاں اگر دانا گننے کی ذمہ داری سونپی جائے تو وہ میں انگلیوں پر گنوا دوں۔ یہی حالت دیانتداری کے اعتبار سے ہماری معاشرت اور سرکاری اداروں کی ہے، دانا و دیانت دار انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت اور عسکری قیادت نے اہداف کے حوالے سے اکثریتی اہداف یا ترجیحات درست چنی ہیں جن میں سمگلنگ کی روک تھام، سمگلنگ کو نکیل ڈالنا بہت جرأت کا کام تھا مگر برآمدات اور خصوصاً درآمدات کے پردے میں ہونے والی سمگلنگ بہت مشکل کام ہے چونکہ ملک مالیاتی بحران سے گزر رہا ہے لہٰذا حکومت نے درست فیصلہ کیا کہ ایف بی آر کی ری سٹرکچنگ کی جائے۔ اس میں تعیناتیاں بھی کی گئیں کسٹم انٹیلی جنس صرف ایک سہولت کار محکمہ بن کر رہ گیا تھا۔ میرے دیکھنے میں تو ڈائریکٹر سعید اختر کے بعد دو دہائی سے زائد عرصہ میں محترمہ طیبہ کیانی ایسی ڈائریکٹر آئیں جنہوں نے تھوڑے عرصے میں بہت کام کیا۔ کروڑوں روپے کی ماہانہ سمگل شدہ اشیاء پکڑی جن میں گاڑیاں، دیگر مصنوعات، سگریٹ، زیورات، کپڑا اور ہیروئن شامل ہے۔ اس کے علاوہ اپنے زیر اختیار اپریزمنٹ کلکٹریٹس میں کنٹینرز کو مشترکہ طور پر چیک کرنے سے ہی کروڑوں روپے کی ڈیوٹی چوری پکڑی۔ اس کے علاوہ شاید تین کنٹینرز تھے جن کو انٹیلی جنس کے اشتراک سے چیک کرنے کا خط لکھا جس کو انکار کر دیا گیا۔ سہولت کاروں اور سمگلروں سے ناتا رکھنے والے افسران نے گھٹیا الفاظ،تکبر اور انداز سے تمسخر اڑایاجبکہ قدرت نے ان کی اوقات ظاہر کر دی بہرحال ان میں سے اپریزمنٹ کے افسران نے چیک کرایا تو ایک کروڑ کے قریب ڈیوٹی چوری پکڑی گئی۔
یہ یاد رہے کہ ان دنوں کی بات جب کسٹم انٹیلی جنس کے اختیارات روبہ زوال تھے۔ اب چند ہفتے پہلے لاہور ایئرپورٹ پر 130 تولے سونا، گھڑیاں، ہیرے ٹانگوں سے باندھ کر ایک مسافر لے آیا، اس کو شاید معلوم نہیں تھا اب محترمہ طیبہ کیانی صاحبہ کسٹمز ایئر پورٹس ہیں۔ یوں تو چیف کلکٹر ایئرپورٹ پاکستان حسن ثاقب شیخ ہیں لیکن محترمہ طیبہ کیانی صاحبہ کے زیر اختیار پنجاب کے تمام ایئرپورٹ ہیں۔ اب دو دن پہلے پھر 5 کروڑ مالیت کے موبائل فون، ہیرے، شراب کی بوتلیں، شیشہ فلیور ملتان ایئرپورٹ پر پکڑا گیا جو محترمہ طیبہ کیانی صاحبہ کی ہدایت پر کارروائی کی گئی۔ دراصل بزدل دیانتدار آدھے سچ کی طرح زیادہ خطرناک ہوتا ہے جبکہ محترمہ طیبہ کیانی صاحبہ Courageous integrity کے ساتھ ساتھ Humanity کے لیے جانی جاتی ہیں۔ حکومت نے یہ فیصلہ کر کے، کہ ایئرپورٹس پاکستان اور صوبہ کے لحاظ سے ذمہ داریاں ترتیب دیں گے، بہت اچھا کام کیا ورنہ آج تک یہی ہوتا رہا ہے کہ لاہور میں دیانت دار آفیسر آنے پر جہاں گنجائش ملے وہاں چلے جاؤ اور بائی ایئر سمگلنگ شروع کر دی۔ ابھی یہاں صرف لاہور کا ہی ذکر ہے۔ لاہور کی دونوں کلکٹریس میں دیانتدار کلکٹر صاحبان ہیں۔ محترمہ بیلم رمضان، محترمہ مہرین نسیم جبکہ چیف کلکٹر اپریزمنٹ محترمہ رباب سکندر اور کلکٹر انفورسمنٹ لاہور رینج جناب محمد سعید وٹو، ایڈیشنل کلکٹر ثاقب وڑائچ اور دیگر لوگ شفاف اور عمدہ شہرت کے حامل ہیں مگر ان کے ماتحت عملہ، بعض لوگ بہت پریشان ہیں کہ حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ محترمہ طیبہ کیانی نے بطور ڈائریکٹر انٹیلی جنس کسٹمز خط لکھ کر جن کنٹینرز کی نشاندہی کی تھی ان میں کروڑوں کا گھپلا نکلا کیونکہ اعلیٰ افسران جن دونوں کلکٹرز اپریزمنٹ، چیف کلکٹر اپریزمنٹ کا کسی بھی طرح کوئی منفی تعلق نہ تھا انہوں نے پرنسپل اپریزر تبدیل کر دئیے، نیا نیا حاجی بھی گیا۔
اب حال ہی میں اپریزمنٹ ویسٹ کی کلکٹر محترمہ بیلم رمضان نے حکم دیا کہ کوئی سپیڈ منی بھی نہیں چلے گی خبردار! سب کو یہ پیغام دے دیں کہ ایک ٹکہ بھی کسی کو نہیں دینا لہٰذا ڈی سی صاحبان نے بلا کر سب سے کہہ دیا۔ امپورٹرز اور ان کا کام کرنے والوں کو مگر ایک پرنسپل اپریزر دل پہ لے گیا۔ کیا کسی سیاسی جماعت نے فیک نیوز پھیلانی ہے جو اس پرنسپل اپریزر نے امپورٹر کے خلاف پھیلائی، جرم صرف یہ تھا کہ اس نے سپیڈ منی نہیں دی۔ وہ امپورٹر پریشان ہوا، کاروبار میں رخنہ آیا، جائز کاروباری تھا پھر اس نے دیانت دار آفیسر ایڈیشنل کلکٹر ثاقب الرحمان وڑائچ سے ملاقات کی۔ اپنی روداد سنائی۔ انہوں نے قرین انصاف فیصلہ کیا۔ اب وہ پرنسپل اپریزر جو کہ اب وہاں موجود نہیں مگر دوسری جگہ سے ان لوگوں کے پاس جا کر ان کے پاس کمپیوٹر سسٹم ہے، انہیں این ایل سی ڈرائی پورٹ کے کام کو چیک کرتا ہے اور پھر فون کر کے متعلقہ لوگوںسے کہتا ہے کہ فلاں کام آپ نے (پیل) دیا۔ خالصتاً وارداتیوں کا لفظ ہے وہ اس بات سے بہت تنگ ہیں کہ یہ جس کے ٹرانسفر آرڈرز کیا ہوئے موت کا پروانہ بن گیا، باؤلا ہو گیا۔ مختصر یہ کہ اعلیٰ ترین افسران جن میں محترمہ طیبہ کیانی صاحبہ، محترمہ بیلم رمضان، محترمہ مہرین نسیم، محترمہ رباب سکندر اور محمد سعید وٹو، ثاقب الرحمان وڑائچ صاحبان کے نیچے تبدیل شدہ ایک موجودہ اور ایک تو حالیہ حج سے لوٹا تھا اس نے حج کا ذرا برابر اثر نہ لیا اور کلکٹر صاحبہ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی بہرحال حکومت کی کم از کم لاہور اور پاکستان خصوصاً پنجاب کے ایئر پورٹس پر افسران کی تعیناتیاں سمگلروں کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ بڑی سخت زیادتی ہو گی اگر دیانت دار صوفی منش افسران میں قبلہ محمد صادق صاحب ڈی جی ویلیوایشن کا ذکر نہ کیا جائے۔ جن کو انسانیت کی تبلیغ کیلئے زبان استعمال نہیں کرنا پڑتی۔
یہ یاد رہے کہ دیانت داری اور انسانی خدمت کا نتیجہ ہی ہے کہ کسٹم کے ایک اعلیٰ آفیسر جناب ڈاکٹر آصف محمود جاہ جو موجودہ ٹیکس محتسب ہیں کو ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز ملا۔ آج بمشکل لاہور کسٹم کی بات ہو سکی جبکہ سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس و کراچی تو سمندر ہیں۔دانا و دیانت دار انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ باقی لوگوں کے لیے دفتر نہیں ایک بحری جہاز اور سمندر چاہیے۔ دانا ہی دیانت دار ہوتے ہیں جو جان جاتے ہیں کہ اصل وراثت اور ترکہ کردار کی وراثت اور ترکہ ہوتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.