اب اس قوم کی بدقسمتی کو کیا نام دوں… کس کے کھاتے میں اس کو ڈالوں، کبھی طوفانی آفات، کبھی بدترین بادباراں، کبھی سیلابی تباہیاں، کبھی شدید زلزلے تو کبھی کرونا، تو کبھی سموگ کے نام پر بیماریاں، اموات، زندگی بے حال ایک بلا ٹلتی ہے تو دوسری بلا ہمارے سر آ لگتی ہے بہرحال یونہی تباہیاں دے رہا ہے یہ بیمار زدہ معاشرہ… آئے روز کی نت نئی بیماریوں نے بری طرح ہمیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے اور میڈیا ہے کہ صبح سے رات گئے تک چیخ چیخ کر پیٹ رہا ہے کہ کچھ کر لو… اور کچھ کرنے والے جب بھی کوئی کام کرنے لگتے ہیں تو سموگ کا رونا رونے والے ہی اس پر عمل نہیں ہونے دیتے۔ میرے خیال میں آپ جو مرضی اقدامات کر لیں سموگ کا ایک ہی قدرتی علاج بارش ہے اور ہمیں سموگ کو ختم کرنے کے لئے بارگاہ الٰہی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے بار بار بارش کی دعا کرنی ہوگی کہ سموگ پیدا کرنے والے ماحول کو آپ کسی بھی صورت میں نہ تبدیل اور نہ بدل سکتے ہیں۔ گزشتہ تین سال سمیں آپ نے کتنے قانون بنائے، کتنی سختیاں کیں، کتنی پکڑ دھکڑ ہوئی مگر ہماری نااہلی تو یہ ہے کہ انہی سڑکوں پر صبح سے رات گئے تک دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں، بڑے ٹرک، بڑے ٹرالے، لاکھوں بائیک اور شہر میں پھیلے ہزاروں چنگ چی رکشوں سے خارج ہونے والے زہریلے دھویں جو سڑکوں پر موت پھیلا رہے ہیں وہ تو آپ کی پکڑ میں نہیں آ رہے۔ روزانہ کی بنیاد پر آپ نے کتنے لاک ڈائون، کتنے گرین لاک تو ریڈ لاک لگا لئے مگر دھواں ہے کہ وہ اٹھ رہا ہے اور یہ اٹھتا ہی رہے گا۔ نہ سموگ نیا ایشو ہے نہ ایسے وسائل کہ حکومتیں اس پر قابو پا سکیں اور سموگ صرف ہمارا مسئلہ نہیں۔ اس سموگ نے تو 1952ء میں لندن میں پہلا حملہ کیا اور اس زہریلے دھوئیں نے 4000سے زائد جانیں نگل لیں تھیں۔ یہ وہ سموگ جس نے پورے لندن کا جینا حرام کر دیا تھا۔ اب ہمارے ساتھ کیا ہوا۔ وہ تو ایک قدرتی آفت تھی لیکن بڑی تباہی کرتے ہوئے اپنے ہی ہاتھوں ہم نے جنگل ختم کر دیئے۔ دوسری طرف آئے روز ہماری آبادی میں اضافہ ہونے لگا۔ ہم نے بہتی ندیاں اور چلتی جھیلیں ختم کر دیں۔ ہمارے گائوں دیہات شہروں میں بدل گئے، کھیتوں میں ہم نے ہائوسنگ سوسائٹیاں بنا دیں، صنعتی انقلاب کے نام پر شہر کے اندر گلیوں، محلوں میں فیکٹریاں اور کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ بنا ڈالے، سردیوں میں گیس نہ ہونے سے لوگوں نے گھروں میں کوئلے کی انگیٹھیاں ڈال دیں۔ کھانا پکانے کے لئے پھر سے لکڑی کا استعمال ہونے لگا اور پھر شہر نے دھواں دھواں تو ہونا ہی تھا۔ آج میرا پنجاب سموگ کا بہت شکار اور تین سالوں سے اس نے ہمارے پنجاب میں پکے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ لاہور کے علاوہ پنجاب کے کئی بڑے شہر اس زہریلی دھند میں گم ہو جاتے ہیں۔ حکومتی نااہلیوں کی وجہ سے پنجاب اس بار پھر سموگ میں دفن ہے اور اس کا بڑا سبب درخت نہ ہونے سے لاہور میں تین سے چار سو فٹ تک آکسیجن کی شدید کمی ہے۔ دوسری طرف الزام بھارتی پنجاب پر لگائے جا رہے ہیں جبکہ پنجاب ہی نہیں بھارت کے بڑے شہروں میں بھی ہم سے بھی برے حالات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 2012ء میں اس سموگ کی وجہ سے بھارت میں پندرہ لاکھ لوگ موت کے منہ میں گئے۔ اب یہی صورتحال ہمارے ساتھ بھی ہے۔ خدا نہ کرے کہ ہمارے ہاں بھارت جیسی صورت پیدا ہو مگر اس سے لاکھوں لوگ آج اس وباء سے متاثر ہیں۔
یہ سموگ آ کہاں سے رہی ہے،یہ سوال بہت اہم ہے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے اس کے چار بڑے سورسز ہیں،پہلا سورس بھارتی پنجاب کا شہر ہریانہ ،ہریانہ میں گزشتہ دس سال میں چاول کی فصل میں آٹھ گنا اضافہ ہوا‘ہریانہ کے کسان ا کتوبر کے آخر میں چاول کے پودے کے خشک ڈنڈل اور خالی سٹے جلاتے ہیں،بھارتی کسانوں نے اس سال 3کروڑ 50 لاکھ ٹن ڈنڈل جلائے،ڈنڈلوں کے دھوئیں نے دہلی سے لے کر لاہور تک پورے پنجاب کی مت مار دی۔ دوسرا سورس لاہور میں چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے،یہ فیکٹریاں دھواں پیدا کرتی ہیں،جبکہ تیسرا سورس حکومت نے لاہور کے گردونواح میں درجن کے قریب بڑے پاور پلانٹس لگائے،بجلی کا ایشو ختم ہوا اور نہ فضا سے آلودگی گئی اور چوتھا سورس صرف لاہور شہر میں بیس لاکھ گاڑیاں ہیں اور ہمارے ہاں پٹرول کا معیار انتہائی پست ہے چنانچہ شہر بھر میں یہ گاڑیاں چلتا پھرتا سموگ ہیں۔ دیکھا جائے تو ان چار سورسز کے علاوہ اور کئی سورسز ہیں۔ ان میں لاہور میں ٹائروں کو جلا کر تاروں سے تیل حاصل کیا جاتا ہے،شہر میں ٹائر جلانے والے سینکڑوں احاطے ہیں۔ فیصل آباد اور سیالکوٹ ریجن میں بھی اس موسم میں مونجی کی بہت باقیات جلائی جاتی ہیں،جس رفتار سے لاہور کی آبادی بڑھ رہی ہے اسی رفتار سے مضافات میں جنگل،کھیت اور کھلیان بھی ختم ہو رہے ہیں۔ اسی وجہ سے لاہور تیزی سے سموگ میں ڈوبتا جا رہا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ترقی کا جھنڈا لاشوں پر نہیں لگا کرتا۔ ہماری درخواست ہے پنجاب حکومت سے کہ وہ فوری طور پر کلین پنجاب کمیشن بنائے،جو فضائی آلودگی کی وجوہات تلاش اور اصلاحات کرے۔ اس کی پنجاب اسمبلی سے باقاعدہ منظوری لے اور لاہور اور اس کے گردونواح میں اصلی شجرکاری کرائے،فیکٹریاں شہر سے باہر شفٹ کرائے،گاڑیوں کی تعداد کنٹرول کرے۔ گاڑی کی جگہ ہر آدمی بائیک استعمال کرے اور نمبر دو پٹرول کا معیار بہتر بنائے،کوڑا،ٹائر اور کوئلہ پر پابندی لگائے اور درخت کاٹنے کی سزا متعین کرے۔ اس سلسلے میں حکومت کلین ائیر لندن ایکٹ اور یہ بھوٹان حکومت ماڈل کی بھی سٹڈی کر سکتی ہے،اس کے ساتھ بھارتی حکومت کے ساتھ مل کر دھان کی باقیات جلانے پر پابندی لگائے۔
اور آخری بات……
بار بار تعلیمی ادارے بند کرنا سموگ کا مستقل حل نہیں…بلکہ تعلیمی ادارے بند کرنے سے اس ملک کے نونہالوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ جیسا کہ کرونا میں ہوا تھا جو کرونا کے نقصانات سے کہیں بڑھ کر ہوگا۔ اس وقت توجہ غور مسئلہ تو یہ ہے کہ حکومت جب تک سموگ کے خلاف بنائے قانون پر عملدرآمد کیلئے شکنجہ تیار نہیں کرتی، جب تک ان کو پکڑ کے سزائیں نہیں دی دیتی اور جب تک سموگ پیدا کرنے والے ماحول کو ختم نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک نجانے ہم کس قدر نقصان اٹھا چکے ہوں گے۔ جس کا اندازہ جانی نقصانات کی صورت میں اٹھا رہے ہیں جس نے ہسپتال بھر دیئے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.