جاپان کا ریلوے نظام دنیا کے بہترین ریلوے نظاموں میں شمار ہوتا ہے۔یہاں کئی قسم کی ٹرینیں چلتی ہیں ، جو مختلف شہروں اور علاقوں کو آپس میں ملاتی ہیں۔جاپان کی بلٹ ٹرین تو خیر نہایت مشہور ہے۔یہ ٹرین کئی گھنٹوں کا سفر محض چند گھنٹوں میں طے کر لیتی ہے۔ اوساکا سے کانا گھاوا (Kanaghawa) پریفکچر کیلئے مجھے بلٹ ٹرین کے ذریعے روانہ ہونا تھا۔یہ تقریباً اڑھائی گھنٹوں کا سفر تھا۔ متعین وقت پر ریل آئی اور میں اس میں سوار ہو گئی۔اندر داخل ہوتے ہی میرے منہ سے بے اختیار نکلا ۔ واہ۔ کیا زبردست ٹرین ہے۔سیٹیں ایسی تھیں، جیسے جہاز کی نشستیں ہوں۔انتہائی مختصر پڑاو کے بعد ٹرین چل پڑی۔ میں نے ارد گرد نظر ڈالی۔ ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔ مسافر چپ چاپ بیٹھے تھے۔ کچھ کتاب پڑھ رہے تھے۔ کچھ لیپ ٹاپ پر مصروف تھے۔ کچھ سیٹ کے سامنے لگے ٹرے کھولے کھانا کھارہے تھے۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک بوڑھا جاپانی براجمان تھا۔ میں نے گھڑی دیکھ کر وقت کا حساب لگایا۔ پاکستان میں فجر سے پہلے کا وقت تھا۔یعنی کسی سے بات ممکن نہیں تھی۔میں نے اپنے میاں، فہد صاحب کو کال ملائی۔ وہ اس وقت امریکہ میں تھے۔وقت گزاری کیلئے ادھر ادھر کی بے معنی باتیں کیں۔ لمبی بات کرنے کے بعد کال منقطع کر دی۔ اگلے دن مجھے معلوم ہوا کہ جاپان میں ٹرین میں موبائل پر بات کرنے کی ممانعت ہے۔ دوران سفر فون پر بات کرنا بد تمیزی اور بداخلاقی کے مترادف ہے۔اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ دوران سفر موبائل فون کو سائیلٹ موڈ پر لگا دیا جائے۔ اس بات پر مجھے انتہائی شرمندگی محسوس ہوئی۔ تاہم یہ بعد از خرابی بسیار والا معاملہ تھا۔
ٹرین کی کھڑکی سے باہر کے مناظر دلکش تھے۔ کبھی خوبصورت سر سبز و شاداب کھیت آتے۔ کبھی جاپانی طرز کے گھر۔ کبھی کوئی کارخانے قسم کی جگہیں۔ ریل گاڑی مختلف اسٹیشنوں پر چند سیکنڈ کیلئے رکتی اور چل پڑتی ۔ مسافر چڑھتے، اترتے رہے۔ میںنے تمام راستہ سوتے جاگتے گزارا۔ اوداوارا (Odawara) اسٹیشن کا اعلان ہوا تو میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ ٹرین رکی۔ میں نے اپنا سامان پکڑا اور باہر آگئی۔ حیرت ہے کہ یہاں منٹوں نہیں، سیکنڈوں تک کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے۔جاپان میں ٹرینوں کے متعین اوقات کار میں تاخیر کا کوئی تصور نہیں ہے۔ میں کہیں پڑھ رہی تھی کہ جاپان میں ریل گاڑی تیس سیکنڈ سے زیادہ لیٹ ہو جائے تو ریل کے محکمے یا کمپنی کو باقاعدہ معذرت جاری کرنا پڑتی ہے۔ یہ خبر بھی میری نگاہ سے گزری کہ ایک مرتبہ ٹرین اپنے طے شدہ وقت سے بیس سیکنڈ پہلے چل پڑی تو کمپنی کو باقاعدہ معافی مانگنا پڑی تھی۔ کسی ہنگامی صورتحال کی وجہ سے ٹرین کے آنے یا جانے میں ایک گھنٹہ یا اس سے زیادہ تاخیر ہو جائے تو باقاعدہ قومی اخبارات میں خبر شائع ہوتی ہے۔ جاپانی قوم انتہائی محنتی ہے۔اور وقت کی بے حد پابند بھی۔ اپنے اس طرز عمل کی وجہ سے ہی جاپانی قوم امریکہ کے ایٹمی حملوں کا نشانہ بننے کے باوجود اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑی ہو گئی۔
ٹرین سے باہر قدم رکھا تو ملک نور صاحب منتظر تھے۔ جاپان میں آپ کسی مسافر کو ٹرین سے لینا یا چھوڑنا چاہیں تو ٹکٹ لے کر پلیٹ فارم تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ میرے منع کرنے کے باوجود انہوں نے میرا سفری بیگ تھام لیا۔ مجھے اسٹیشن کے داخلی دروازے پر ٹھہرا کر وہ پارکنگ سے گاڑی لینے چلے گئے۔ قریب کھڑی سٹرولرمیں مجھے ایک چھوٹا سا جاپانی بچہ دکھائی دیا ۔ میری نظر اس پر پڑی تو وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔ اسے دیکھ کر مجھے اپنی بیٹی حفصہ یاد آگئی۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے گدگدایا تو وہ مزید ہنسنے لگا۔ اس وقت مجھے خیال آیا کہ ایک زمانہ تھا جب بچے مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ اس قدر چھوٹے بچوں کو تو میں چھو تی بھی نہیں تھی۔ تاہم جب سے حمنہ، حفصہ میری زندگی میں آئی ہیں، میرے احساسات بدل گئے ہیں۔اب گندے، مندے حلیے اور عام سی صورت والے بچے بھی مجھے اچھے لگتے ہیں ۔ بیرون ملک سفر کے دوران ملنے والے سیاہ فارم بچے بھی مجھے خوبصورت محسوس ہوتے ہیں۔ میرے رب نے ماں کے دل کو خاص طرح کے پیار محبت میں گوندھ کر بنایا ہے۔ جتنے دن میں جاپان میں رہی، مختلف بچے مجھے ملتے رہے۔ میں ان سے ہیلو ہائے کرتی ۔ ان کے گال چھوکر گزر جاتی۔ بسا اوقات میرا دل چاہتا کہ میں کسی چھوٹے بچے کو گود میں اٹھا لوں۔ در اصل مجھے اپنے بچے یاد آنے لگے تھے۔
چند منٹ بعد گاڑی آئی تو ہم ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں نور بھائی مختلف جگہوں اور علاقوں کے بارے میں معلوماتی گفتگو کرتے رہے۔ آدھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم اوزیو پرنس ہوٹل پہنچ گئے۔ یہ پنج ستارہ ہو ٹل سمندر کے کنارے واقع ہے۔کیوتو سے میرا سامان میرے آنے سے پہلے یہاں پہنچ چکا تھا۔ کمرہ نہایت کشادہ تھا۔اوپر کی منزل پر واقع اس کمرے کی بالکونی سے تا حد نگاہ تک پھیلا سمندر نظر آتا تھا۔ نور بھائی کہنے لگے کہ آپ آرام کر لیں پھر گھومنے کیلئے نکلتے ہیں۔ میں بلٹ ٹرین میں سارا راستہ آرام ہی کرتی آئی تھی۔ طے یہ ہوا کہ فوری طور پر گھومنے کیلئے چلتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ہم گاڑی میں بیٹھے اور یوکوہاما (Yokohama) کے لئے روانہ ہو گئے۔
یوکوہاما جاپان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یوکوہاما کا مطلب ہے ” سمندر پر” ۔ یہ شہر جاپان کے وسط میں واقع ہے۔ اس شہر میں خوبصورت ساحلی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں تاریخی اور تفریخی مقامات ہیں ۔ یہاں یوکوہاما بندرگاہ ہے ، جہاں سے جاپان نے بین الاقوامی تجارت کا آغاز کیا تھا۔یہ ایک مصروف بندرگاہ ہے۔ یہاں دنیا بھر سے تجارتی جہاز وں کی آمدورفت رہتی ہے۔ یوکوہاما میں نسان موٹرز سمیت کئی معروف کمپنیاں قائم ہیں۔ اس تناظر میں جاپان کا یہ شہر معاشی اور تجارتی اہمیت کا حامل ہے۔
نور بھائی مجھے اس شہر کی مختلف جگہیں، عمارتیں وغیرہ دکھاتے رہے۔ ان کی تاریخ کے متعلق بتاتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں گاڑیوں میں استعمال ہونے والے یوکوہاما ٹائر وں کی فیکٹریاں اس شہر میں قائم ہیں۔ یہاں کئی بلند عمارتیں ہیں۔ شہر کی بلند ترین عمارت یوکوہاما لینڈ مارک ٹاور بھی یہاں موجود ہے۔ یہ جاپان کی بلند ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ گاڑی پارک کر کے ہم کافی دیر پیدل چل کے مختلف جگہوں کو دیکھتے اور آگے بڑھتے رہے۔ بلند ترین عمارت یعنی یوکوہاما ٹاور میں داخل ہوئے۔ یہاں مختلف ریستوارن اور شاپنگ ائیریاز سے گزرے۔ اس عمارت کی 70 ویں منزل تک پہنچے۔ یہاں شیشے کی دیوار سے سارے شہر کا نظارہ دکھائی دیتا ہے۔ جاپان کا ایک کنارہ بھی نظر آتا ہے۔ ٹوکیو ٹاور بھی۔ یوکوہاما بندرگاہ کا منظر بھی خوب تھا۔ اس بلندی سے دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ یہ شہر پانی پر قائم ہے۔ کیا خوبصورت اور دلکش نظارہ تھا۔ یہ ایک اہم سیاحتی مقام ہے۔ دوردراز سے سیاح اس جگہ آتے ہیں۔ ہم نے کچھ تصاویر لیں اور آگے چل پڑے۔ ایک جگہ سیاحوں کی لمبی قطاریں لگی تھیں۔ پتہ چلا کہ یہ کیبل کار میں سوار ی کے خواہشمندوں کا رش ہے۔سیاح کیبل کار میں بیٹھ کر یوکوہاما شہر کا نظارہ کرتے ہیں۔ ہم بھی قطار میں لگ گئے۔ اپنی باری آنے پر کیبل کار میں سوار ہو ئے۔ شہر کے اوپر سے گزرتے ہوئے رنگ و نور میں ڈوبے اس شہر کا نظارہ کیا۔ باہر آئے تو ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ جاپان کی بارش میں تھوڑابہت بھیگتے ہم نے چہل قدمی کی۔ یہاں پر ایک تفریحی پارک بھی قائم ہے۔ بلندی سے کشتی آ کر پانی میں گرتی ہے۔ مختلف جھولے بھی لگے ہیں۔پانی میں ایک جہاز کھڑا ہے۔ جھولا جھولنے کیلئے فیرس وہیل ہے۔ کچھ دیر ہم یہا ں رکے اور آگے بڑھ آئے۔
یہا ں "کاروان بے یوکوہاما ” نام کا ایک معروف عرب ریستوران موجود ہے۔ریستوران میں شیشے کی دیوار کے سامنے کرسی میز لگے تھے۔ دیوار کے اس پار پانی میں ایستادہ شہر دکھائی دے رہا تھا۔ اس منظر کے سامنے بیٹھ کر ہم نے لذیذ عربی کھانا کھایا ۔ رات گئے تک ہم یوکوہاما شہر میں گھومتے رہے ۔ آدھی رات
کے وقت میں اپنے ہوٹل واپس آئی۔ یوکوہاما شہر کی سیر واقعی زبر دست رہی۔
(ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر)
تبصرے بند ہیں.