اچھائی اور برائی ساتھ ساتھ چلتی ہے فرق یہ ہے کہ اچھائی کا اجر اللہ سوہنے کی طرف سے دنیا میں اور آخرت میں بھی ملتا ہے اور برائی کی سزا ملتی ہے اور برائی کرنے والے کو اچھے لفظوں سے یاد نہیں رکھا جاتا جبکہ اچھائی کرنے والے کو دنیا اچھے انداز میں ہمیشہ یاد رکھتی ہے، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف بھی جب سے اقتدار میں آئی ہیں ترقیاتی کاموں سمیت دیگر اقدامات میں اپنے چچا شہبازشریف کو بھی شاید پیچھے چھوڑ رہی ہیں شہبازشریف نے بھی بطور وزیراعلیٰ سڑکوں کا جال بچھایا، ترقیاتی منصوبے مکمل کرائے جبکہ پنجاب میں ایک سنہری دور لایا گیا اسی طرح چوہدری پرویزالٰہی آج بھی عوام کو یاد آتے ہیں جنہوں نے ریسکیو1122 بنا کر اپنے کھاتے میں نیکیوں کا اور اضافہ کر لیا،مخالفین بھی اس منصوبے کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے، وزیراعلیٰ مریم نواز نے دل کا ہسپتال2 کا جو سنگ بنیاد رکھا ہے اور ساتھ ہی 7 ماہ میں مکمل کرنے کا بھی حکم دیا ہے سے پی آئی سی ون پر مریضوں کا بوجھ کم ہو گا اور اس کے بدلے مریم نواز لوگوں کی دعائیں سمیٹیں گی اور دعا سے بڑھ کر اور کچھ نہیں کہ جو دل سے نکلتی ہے اور نئے دل والے ہسپتال میں سہولتیں ملنے پر کتنے ’’دلوں‘‘ سے ان کے لیے دعائیں نکلیں گی، دعا یہ ہے کہ اللہ اس منصوبے کو نظربد سے بچائے، بس وزیراعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ وہ کبھی حلیہ بدل کر اور روٹ لگائے بغیر بھی سڑکوں پر نکلیں تو انہیں پتہ چلے کہ ان کے دائیں بائیں براجمان سیاسی مزارے کتنے نااہل ہیں جو صرف فوٹو سیشن تک آپ کو اور خود کو محدود رکھتے ہیں، مثال کے طور پر آپ پی آئی سی جب آتی ہیں تو آپ کو ہر چیز ایکوریٹ ملتی اور نظر آتی ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا وہاں دو دو سال سے مریضوں کا بائے پاس نہیں ہوتا مختلف بہانے بنائے جاتے ہیں کہ مریض تھک ہار کر گھر بیٹھ جاتا ہے پی آئی سی کے ڈینٹل سیکشن کا بھی کبھی دورہ کریں کہ جہاں لفٹ کی سہولت نہ ہونے سے مرض کے مارے مریضوں کو کتنی مشکل پیش آتی ہے کیونکہ مریض تو پہلے ہی مریا مُکیا ہوندا اے اوپر سے سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیںاور سیڑھیاں چڑھ کر مریض کا جو حال ہوتا ہے وہ مریض جانتا ہے یا اللہ! آج کل سموگ کے نام پر کروڑوں کے فنڈز ضائع کئے جا رہے ہیں عملی طور پر کارکردگی زیرو ہے، مصری شاہ لوہا مارکیٹ اور رنگ روڈ کے اطراف آج بھی چمنیاں زہریلا دھواں نکال رہی ہیں اور پنجاب سرکار اشتہار بازی کر کے میڈیا مالکان کے پیٹ بھر رہی ہے، بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی،کبھی سرکاری گاڑیوں کو بھی چیک کرنے کی زحمت کریں تو دیکھیں کہ وہ اپنی عمر بھی پوری کر چکی ہیں اور دھویں کے ساتھ ساتھ شور بھی سارے شہر میں برپا ہوتا ہے، کبھی تھانوں کا بھی چکر لگائیں جہاں پولیس والے وردی کی آڑ میں کیسے شرفاء کی پگڑیاں اچھال رہے ہوتے ہیں، کبھی وارڈنز کی ہی خبر گیری کریں تو آپ کو پتہ چلے کہ جن کے رات دن قصیدے پڑھے جا رہے ہوتے ہیںوہ سڑکوں پر کیا کیا گل کھلاتے ہیں، کہا جاتا ہے قانون سب کیلئے ایک جیسا ہوتا ہے جو سفید جھوٹ ہے، قانون صرف موٹرسائیکل والوں اور لوڈر گاڑیوں کیلئے ہے جن کے چالان کر کے وارڈنز اپنی تنخواہیں نکال رہے ہیں، کبھی کسی گاڑی والے کو بھی روکیں تو آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے، کبھی فوڈ ڈیپارٹمنٹ والوں سے بھی دعا سلام کریں جو صحت مند پنجاب کے نعرے کو پائوں تلے روند رہے ہیں، کبھی پرائس کنٹرول مجسٹریٹ سے بھی حال چال پوچھیں تو آپ کو پتہ چلے کہ وہ ماہانہ لے کر کس طرح پنجاب حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں،کبھی مارکیٹ کمیٹی بھی جائیں تو آپ کو پتہ چلے کہ افسر، اہلکار کیسے آڑھتیوں سے ہاتھ ملا کر اپنے آپ کو مالامال کر رہے ہیں، پٹرول کی قیمت میں کمی ہونے کے باوجود کرائے کم نہیں کئے جاتے،محکمہ ٹرانسپورٹ ایک آدھ کارروائی کر کے بڑا پھنے خان بنتا ہے لیکن کالے کرتوت کچھ اور ہی ہوتے ہیں، کبھی پنجاب بھر کے ہسپتالوں کے خفیہ دورے کریں جہاں چوکیدار اور چپڑاسی وغیرہ ہی سرجن کا کام کر رہے ہوتے ہیں، پی آئی سی میں ملنے والی ادویات کے بارے میں بھی کبھی لائن میں لگ کر دیکھیں کس طرح بندر بانٹ ہوتی ہے اور حق داروں کو گھر تک ادویات ملنے میں کتنی صداقت ہے؟ تجاوزات کرنے والوں سے بھی میل ملاپ کریں توآپ کو پتہ چلے کہ اس کے بدلے کون کون گنگا میں نہا رہا ہے آخر میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کیلئے بس اتنا ہی کہ کبھی روٹ لگائے بغیر ضرور باہر نکلیں!؟؟۔
تبصرے بند ہیں.