دہشت گردی کو گود لینا

64

لگ یہ رہا ہے کہ اس مرتبہ دہشت گردی کو گود لینے کے لئے تحریک انصاف نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ تحریک انصاف نے کوئی اچانک ٹی ٹی پی کی حمایت نہیں کی بلکہ عمران خان تو ان کے اس حد تک حامی تھے کہ انھوں نے اس وقت کہ جب امریکہ اور نیٹو فورسز افغانستان میں تھیں تو انھوں تو پشاور میں طالبان کا دفتر کھولنے کی تجویز دی تھی اور پھر جنرل فیض کا کابل میں چائے کے کپ کے ساتھ تصویر بنوانا یہ سب ایک ہی سوچ کی کڑیاں ہیں۔ وطن عزیز کے متعلق ہر کچھ عرصہ بعد بین الاقوامی سطح پر ہرزہ سرائی کی جاتی ہے کہ خدا نخواستہ فلاں سن تک پاکستان کی سا لمیت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں تو انسان اور ایک پاکستانی ہونے کے ناتے ایک سوچ تھی کہ یہ سب کیسے ممکن ہے اس لئے کہ مشرقی پاکستان تو پانچ ہزار کلو میٹر دور تھا اور بیچ میں سب سے بڑا دشمن ہندوستان تھا لیکن یہاں تو صورت حال یکسرمختلف ہے تو یہ سب کس طرح ممکن ہو سکتا ہے لیکن یہاں بہت کچھ ہو سکتا ہے اور اس کے لئے جس بات کا سہارا لیا جا رہا ہے وہ پروپیگنڈا مہم ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ہم نے موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلنے کے امکان کو بار بار اپنی انہی تحریروں میں رد کیا تھا اور ایسا ہی ہوا لیکن ملک میں عدم استحکام اور انتشار کی فضا پیدا کرنے والی قوتیں بہت زیادہ طاقتور ہیں اور یہ کس حد تک طاقتور ہیں اس کا اندازہ لگانا اب کوئی بہت زیادہ مشکل بھی نہیں رہا۔ امریکن کانگریس اگر کسی پاکستانی سیاست دان کے حق میں متفق ہو کر قرار داد پاس کرتی ہے اور برطانوی ارکان پارلیمنٹ بھی اس کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن کا آشیر باد ہے وہ قوتیں کس قدر طاقتور اور بارسوخ ہیں یہی وجہ ہے کہ اگرکم بخت سہولت کاری ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تو اس کی کچھ وجوہات بھی ہیں کہ سہولت کاری صرف مقامی سطح تک محدود نہیں بلکہ اس کادائرہ بین الاقوامی سطح تک پھیلا ہوا ہے۔
آج وطن عزیز کے خلاف جس طرح کی سازشیں ہو رہی ہیں انھیں دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ خدائے پاک کا شکر ہے کہ یہ تو ممکن نہیں کہ پاکستان کے وجود پر کوئی ضرب لگے لیکن اہل وطن کی توجہ ان سازشوں کی طرف دلانی ہے کہ جو کی جا رہی ہیں۔ سوویت یونین اپنے وقت کی ایک سپر پاور تھا اور اس کے پاس اسلحہ کی کی کوئی کمی نہیں تھی لیکن جب اس کی معیشت کو تباہ کیا گیا تو اس کے بعد اس کا شیرازہ بکھر گیا اور دنیا نے دیکھا کہ اس کے بڑے بڑے انعام یافتہ سائنس دان بھی فٹ پاتھ پر بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے۔ مجھے یاد ہے کہ کراچی میں کینٹ سٹیشن کے پاس ایک فائی سٹار ہوٹل کی بیسمنٹ میں روسی مرد و خواتین سامان بیچا کرتے تھے اور چونکہ وہ کافی سستا ہوتا تھا تو وہاں کافی رش ہوتا تھا تو اپنے وقت کی سپر پاور کو تباہ کرنے کے لئے اس کی معیشت پر وار کیا گیا۔ پاکستان میں 2022سے ہر روز کون پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی خبریں سنا رہا ہے اور کون یہ پروپیگنڈاکر رہا ہے۔ کیا کوئی محب وطن انسان اس طرح پوری دنیا میں اپنے ہی ملک کے دیوالیہ ہونے کی کھپ ڈال سکتا ہے کہ جس سے وہ بیرونی سرمایہ کار کہ جنھوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا بھی ہو تو وہ بھاگ جائیں۔کس نے بار بار یہ کوشش کی کہ آئی ایم ایف پاکستان کو قرض نہ دے تاکہ پاکستان خدا نخواستہ دیوالیہ ہو جائے۔ کس نے پاکستان کے قرض کی قسط رکوانے کے لئے امریکہ میں آئی ایم ایف کے ہیڈ آفس کے سامنے مظاہرے کئے۔ کس نے یورپین یونین کو ہزاروں خط اور ای میلز کرائیں کہ پاکستان کا جی ایس پی پلس سٹیٹس ختم کیاجائے۔ کیا یورپین یونین کی برآمد سے زرداری نواز شریف کو فائدہ پہنچ رہا ہے یا ریاست کو اور کیا اس سے ہزاروں پاکستانیوں کو روز گار کے مواقع نہیں ملے۔ اس کے بعد ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے اتناپوچھنا تو حق بنتا ہے کہ کیا یہ حکومت کے خلاف سیاست ہے یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست ہے یا اینٹی سٹیٹ سیاست ہے کہ جس میں ریاست کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔ یہ کون سی سیاست ہے کہ جس میں آپ آئی ایم ایف کو قرض کی قسط رکوانے کے لئے خط لکھیں۔ چلیں فرض کر لیں کہ اگر آئی ایم ایف قسط نہ دیتا تو کیا ملک دیوالیہ نہ ہو جاتا اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوتا تو ملک پر جو پابندیاں لگتی اور ملک میں جو مہنگائی بیروز گاری کا طوفان آنا تھا تو عوام موجودہ مہنگائی کو بھول جاتے اور جس طرح دہشت گردی نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں اسی طرح اس مہلک وار سے رہی سہی کسر بھی نکل جاتی اور ملکی سا لمیت کو بچانا مشکل ہو جاتا۔ اسی حوالے سے ایک اور اہم بات کہ جس طرح خان صاحب آئی ایم ایف کو قرض کی قسط روکنے کا کہہ رہے تھے تو کیا خان صاحب نے اپنے دور میں کوئی قرض نہیں لیا۔ انھوں نے اپنے دور میں تو قرض لینے کے ریکارڈ توڑ دیئے لیکن دوسروں کو ناکام کرنے کے لئے وہ ملکی بقا سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔
موجودہ حکومت کو آپ مہنگائی کے حوالے سے جتنا چاہے برا کہہ لیں لیکن موجودہ حکومت اور جنرل عاصم منیر کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انھوں نے دو ڈھائی سال کی انتھک محنت کے بعد ملک کو ڈیفالٹ کی پوزیشن سے باہر نکال دیا ہے جبکہ موجودہ قیادت نے مہنگائی کی بدنامی مول لیتے ہوئے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا ہے تو اب دہشت گردی کو گود لے لیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت ملک کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں یہ بات کہہ رہی ہیں کہ پاکستان میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس میں افغان حکومت سہولت کاری کا کام کر رہی ہے لیکن خیبر پختون خوا ان سے پیار محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے چلیں اس میں کوئی حرج نہیں اگر معاملات مثبت سمت میں جائیں لیکن آپ انھیں پاکستان کے قومی ترانے پر کھڑا تو کرا نہیں سکتے تو دہشت گردی کیسے ختم کرائیں گے۔

تبصرے بند ہیں.