زرعی پالیسی سے معاشی ترقی تک

65

ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی مدد سے محکمہ نہر کے پراجیکٹ ڈی جی خان کنال کو وسعت دینے کے لئے میں زمینداروں سے ملاقاتیں کر رہا ہوں، تاکہ نہری پانی سے ضلع راجن پور اور ڈی جی خان کی زمینوں کو سیراب کیا جا سکے۔ یہ علاقہ پنجاب کی بہترین زمینوں پر مبنی ہے اگر اس علاقہ کو پانی کی فراہمی یقینی بنا دی جائے تو پنجاب کا بڑا بوجھ اٹھا سکتا ہے جس میں کپاس, گنا، چاول، تل اور آم کی فراہمی شامل ہے، لیکن یہاں پر زمینداروں کے حالات دیکھ کر سوچا راجن پور اور ڈی جی خان کے ساتھ وطن عزیز مکمل طور پر زراعت کے شعبے میں بحران کا شکار ہے, ایک اچھی زرعی پالیسی کی ضرورت ہے اس مضمون کا مقصد زراعت پر مکمل تجزیہ ہے تاکہ حکومت پاکستان اور پنجاب کی بہتر زرعی پالیسی بنانے میں معاونت کی جائے۔ اور معاشی ترقی کا سفر آسان ہوسکے۔
پاکستان کا کل رقبہ79.6 ملین ایکڑ ہے،جس میں سے 23.7 ملین ایکڑ، زرعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا 28 فیصد بنتا ہے۔اس میں سے بھی 8 ملین ایکڑ رقبہ زیرِ کاشت نہ ہونے کے باعث بے کار پڑا ہے،حالانکہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس کا ماحول اور موسم بھی زراعت کے لئے بہترین زونز کی حیثیت رکھتے ہیں, گزشتہ مالی سال 24-2023 میں پاکستان کی زرعی معیشت حالیہ شدید مون سون بارشوں اور ملک کے کچھ حصوں میں سیلاب جیسی صورتحال کی وجہ سے کمزور پڑ گئی ہے۔ کاشتکار رواں مالی سال میں گندم کی فصل کی کم بوائی کا منصوبہ بنا رہے ہیں جب حکومت پنجاب نے گزشتہ سیزن میں اناج کی خریداری میں ناکامی کے باعث کاشتکاروں کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ اگر حالات یہ ہی رہے تو ملک کو اگلے سال گندم کی وجہ سے قحط سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان کی پانچ بڑی فصلوں میں سے دو گندم اور کپاس کے مالی سال 25 میں خراب کارکردگی کا امکان ہے۔ گندم کی فصل میں کمی، کپاس کی تیزی سے کمی سے درآمدات کی ضرورت پڑے گی، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر متاثر ہوں گے۔ تاہم، چاول کے برآمدی شعبے کو بھارت کی باسمتی برآمدی منڈی میں واپسی کی وجہ سے سنگین مشکلات کا سامنا ہے، جو پاکستان کے چاول کی سالانہ 3 بلین ڈالر سے زیادہ کی برآمدات میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سیزن کے پہلے دو مہینوں میں اجناس کی پیداوار میں 60 فیصد کمی کی نشاندہی کرتی ہے، جس کی پیداوار 31 اگست 2024 تک 1.22 ملین گانٹھوں پر آگئی، جو کہ گزشتہ سال اسی وقت میں 3.04 ملین گانٹھیں تھیں۔ کاشتکار اپنی گندم کی 10 سے 20 فیصد زمین کو تبدیل کر کے آنے والے سیزن (اکتوبر-مارچ) میں زیادہ منافع بخش تیل کی فصل کاشت کاری کریں گے۔ زرعی پیداوار میں متوقع کمی کو پورا کرنے کے لیے رواں مالی سال میں ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے صنعتی اور خدمات کے شعبوں کی بحالی بہت ضروری ہے۔ "ہمیں زرِمبادلہ کے بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور زرِمبادلہ کمانے کے لیے 10 بلین ڈالر جمع کرنے کے دو طریقے ہیں۔ دس بلین ڈالر کی بچت کر کے جو زرعی مصنوعات کی درآمد پر خرچ ہو رہے ہیں۔”
وزارت خزانہ کی تازہ ترین ماہانہ رپورٹ، اکنامک اپ ڈیٹ اور آؤٹ لک (اگست 2024)، کے مطابق خریف 2024 کی فصل کی پیداوار موسمیاتی تبدیلی پر انحصار کرے گی، جو پیداوار کے تعین میں اہم کردار ادا کرے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بارشوں سے چاول، گنے، کپاس، چارے اور سبزیوں پر مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اس بات پر منحصر ہے کہ بارشیں کھیتوں کو بہا لے جاتی ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس ہفتے جاری کردہ اپنے تازہ ترین مانیٹری پالیسی میں کہا ہے کہ زرعی شعبے کے لیے آؤٹ لک کمزور ہوگیا ہے۔ حکومتی اہداف کے مقابلے کپاس کی پیداوار میں متوقع کمی ہے۔ دوسری طرف ستمبر کے آغاز میں، سندھ میں حالیہ شدید مون سون بارشوں اور سیلاب نے فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے، جس کے نتیجے میں صوبے کے کسانوں کو 86.86 بلین روپے کا نقصان ہوا ہے۔ 541,351 ایکڑ فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔ خاص طور پر 293,580 ایکڑ کپاس بارش سے بری طرح متاثر ہوئی۔35,271 ایکڑ پر چاول کی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوئیں اور 269,016 ایکڑ پر جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ اسی طرح کھجور کے باغات کو 53,195 ایکڑ اور 32,849 ایکڑ پر جزوی نقصان پہنچا۔ 26,382 ایکڑ پر گنے کی فصل مکمل طور پر تباہ ہوگئی، مزید 69,689 ایکڑ پر جزوی نقصان اور شدید بارشوں سے کپاس کی پیداوار میں 21 فیصد اور کھجور کی پیداوار میں 41 فیصد کا نقصان ہوا۔ اس کے علاوہ، ٹماٹر کی نرسریوں کو 3.4 فیصد، تل کی فصل کو 22 فیصد، پیاز کو 58 فیصد، مرچوں کو 12 فیصد اور سبزیوں کو مجموعی طور پر 18 فیصد نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ بارشوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اضلاع کی فہرست دی جن میں بدین، دادو، گھوٹکی، سکھر، حیدرآباد، لاڑکانہ، سانگھڑ، ٹھٹھہ، سجاول، میرپورخاص، خیرپور، عمرکوٹ، ٹنڈو الہ یار، شکارپور، شہید بینظیر آباد، مٹیاری، ٹنڈو محمد خان شامل ہیں۔
کچھ تجاویز حکومت کے لئے حاضر خدمت ہیں، حکومتی سطح پر زرعی شعبہ کے لئے فنڈز میں اضافہ کیا جائے اور خصوصی مراعات کا اعلان کیا جائے۔ کسانوں کو پانی کی فراہمی کو بہتر بنایا جائے اور آبپاشی کے متبادل ذرائع تلاش کئے جائیں۔ زراعت کے جدید طریقوں سے استفادہ کیا جائے۔ حکومت کسانوں سے مشاورت کے بعد ،ہر فصل کے پیداواری اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے قیمتیں متعین کرے۔بڑی بڑی جاگیروں کو مناسب مقدار کے کھیتوں میں تقسیم کیا جائے اور پھر ان کی کاشت کا انتظام کیا جائے۔ڈیموں کی تعمیر بلا تاخیر کی جائے تاکہ پانی ذخیرہ کیا جاسکے اور اس سے توانائی بھی پیداکی جائے۔ کسانوں میں زمینوں کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر اور طے شدہ معیار کے مطابق شفاف انداز میں ہونی چاہئے۔ حکومت کو زراعت کی ترقی کے لئے انفراسٹرکچر پر توجہ دینی چاہئے۔ کسانوں کو بلا سود قرضے فراہم کئے جائیں اور چھوٹے کاشتکاروں کو مالی امداد دی جائے۔دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی زرعی آلات پر ٹیکس ختم کیا جائے۔غیر معیاری بیجوں اور زرعی ادویات کی سپلائی کو کنٹرول کیا جائے۔ حکومت وقت کو بہتر زرعی پالیسی مرتب کرنی چاہئے تاکہ معاشی ترقی کا سفر آسان ہوسکے۔

تبصرے بند ہیں.