فلم بینی کا ذوق و شوق رکھنے والے سینما ہال کی روشنیاں گل ہونے کے بعد سنسر بورڈ کی طرف سے جاری کردہ فلم سرٹیفکیٹ کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں جسے دیکھ انہیں فلم کی طوالت کا اندازہ ہوتا ہے، سرٹیفکیٹ پر لکھا نظر آ جائے ’’ریلیں سولہ‘‘ تو انہیں اطمینان ہو جاتا ہے، ریلوں کی تعداد کم ہو تو انہیں افسوس ہوتا ہے فلم چھوٹی ہے تعداد سولہ سے زیادہ ہو تو انہیں مزید خوشی ہوتی ہے۔ فلم معمول سے زیادہ دورانئے کی ہے، پنجابی فلموں سے یہ رجحان شروع ہوا پھر ہر زبان میں بننے والی فلم اس کے بغیر نامکمل سمجھی جانے لگی۔ فلم کی ہیروئن کیلئے ضروری ہو گیا کہ وہ دو تین گانوں پر رقص کے نام پر کی گئی اچھل کود میں سینہ خوب ہلائے اور کولہے خوب مٹکائے جس فلم میں یہ جمناسٹک کم ڈالا گیا وہ فلم فلاپ ہو گئی۔ بعض فلمیں اپنی تمام تر اچھائیوں کے باوجود ’’پہلے رن‘‘ میں فلاپ ہو جاتی ہیں لیکن ’’دوسرے رن‘‘ میں کامیابی حاصل کر لیتی ہیں لیکن یہ معاملہ کم ہی فلموں کے ساتھ ہوتا ہے جو فلم پہلے شو پہلے رن میں فلم بینوں کو متاثر نہ کر سکے وہ اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ فلم آپریٹر کی غلطی سے کبھی کبھار فلم کی ریلیں الٹ پلٹ چل جاتی ہیں۔ پہلے والی بعد میں اور بعد والی پہلے چل جاتی ہے لیکن اس غلطی کو فوراً ہی درست کر لیا جاتا ہے۔ ہاری ہوئی جنگ اور فلاپ فلم میں ایک قدر مشترک ہوتی ہے۔ ہاری ہوئی جنگ کے ترانے اور فلاپ فلم کے گیت بہت جلد ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں۔
سرکار پروڈکشن کی پہلی فلم ’’آئینی ترمیم‘‘ پہلے ہی شو میں پٹ گئی ہے۔ یہ فلم سیاسی فلم بینوں کو متاثر نہیں کر سکی، سیاسی فلم میں کرداروں کی کثرت ہوتی ہے، اس میں ہیرو تو ہوتا ہے ہیروئن نہیں ہوتی۔ اگر کوئی ہو بھی تو وہ صرف مسکرا سکتی ہے۔ شیریں لہجے میں گفتگو کر سکتی ہے لیکن وہ سب کچھ نہیں کر سکتی جو فلمی ہیروئن کر گزرتی ہے اس میں ولن بھی نہیں ہوتا لیکن ولن نما کردار سے ہیرو کی بجائے خود میلہ لوٹ لیتا ہے، کسی کے پلے کچھ نہیں پڑنے دیتا۔ سیاسی فلم ’’آئینی ترمیم‘‘ میں بہت سی خامیاں رہ گئی ہیں لیکن ستم بالائے ستم پہلے ہی شو میں اس کی ریلیں بھی الٹی چل گئی ہیں۔ کسی کو احساس ہوا نہ کسی نے اسے
درست کیا، پتہ اس وقت چلا جب فلم ختم ہو گئی اور فلم بین ڈبہ ڈبہ کی آوازیں لگانے لگے۔
فلم کی اول اول ریلوں میں دکھایا گیا جناب وزیراعظم پاکستان مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کرنے آئے، ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی، خوبصورت جملوں کا تبادلہ ہوا پھر صدر مملکت جناب آصف علی زرداری آئے وہ مولانا کو بندوق کا تحفہ دے گئے، ان کی ملاقات بہت مثبت رہی پھر وزیر داخلہ اور وزیر قانون ان کے بعد حکومت کے دیگر زعماء سب نے مولانا فضل الرحمان سے ایک ہی موضوع پر بات کی کہ جناب آئینی ترامیم وقت کی اشد ضرورت ہیں۔ مولانا نے سب سے مسکرا کر کہا ٹھیک ہے لائیں اور لانے سے پہلے بتائیں کیا کرنے جا رہے ہیں۔ سب نے انہیں شاید دو کا پہاڑا زبانی سنایا۔ جب دوسری طرف سے کہا گیا کہ کوئی کاغذ پتر بھی ہے یا سب کچھ زبانی تو وعدہ کیا گیا کہ ترامیم کا ڈرافٹ جلد آپ کی خدمت میں پیش کیا جائیگا جس پر کہا گیا کہ ٹھیک ہے جب ڈرافٹ آئے گا تو اسے دیکھتے ہیں۔ مولانا کی طرف سے ان لفظوں کو یہ معنی دیئے گئے کہ وہ مکمل رضامند ہو گئے ہیں جبکہ انہوں نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ سرکار نے اجلاس طلب کر لئے اپنے ممبران اور حلیفوں کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کر دی جو ممبران بیرون ملک گئے ہوئے تھے ان کے رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے انہیں بھی فوراً پہنچنے کی ہدایت کی گئی، درکار اکثریت کو پورا کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کے ساتھ اور کئی جگہوں کا زور لگا دیا گیا لیکن راولپنڈی کا زور لگانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ خوش گمانی تھی کہ ہم اکیلے ہی کافی ہیں یہ کسی نے نہ سوچا جن پتوں پر سب سے زیادہ تکیہ کیا جا رہا ہے وہ ہوا دے سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کی طرف سے جب بھی کہا گیا کہ ڈرافٹ تو پہنچائیں جواب دیا گیا جناب آ رہا ہے بس پہنچنے ہی والا ہے۔ صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان، وفاقی وزراء اور دیگر زعماء جو مولانا فضل الرحمان سے ملنے گئے وہ سب خالی ہاتھ تھے، ڈرافٹ پہنچانے کا سب نے کہا، پہنچایا کسی نے بھی نہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر مولانا فضل الرحمن نے وہ پریس کانفرنس کر ڈالی ان کی تقریر نے غبارے سے ہوا نکال دی۔ دریں اثنا بڑی اپوزیشن جماعت کی لیڈرشپ بھی ملاقاتیں کرتی رہیں اور ان سے درخواست کرتی رہی کہ ان کا موقف بھی سنا جائے۔ مولانا نے ہر آنے والے کا موقف سنا اور غور کرنے کا وعدہ کیا۔ مولانا نے اپنی پریس کانفرنس میں بات واضح کی تو سب سر پکڑ کر بیٹھ گئے آخری لمحوں میں رستم زماں گاماں پہلوان ثانی کو بھیجا گیا کہ جائیں اور مولانا کو محبت کے زور پر چت کر دیں۔ مولانا نے ملاقات سے معذرت کر لی۔ اس موقع پر انہیں ترامیم کا ڈرافٹ بھجوایا گیا جس کے بارے میں بلاول بھٹو نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ یہ تو کچا ڈرافٹ تھا۔ کچا ڈرافٹ بھجوانے والوں نے جانے کیوں مولانا کو کچا سیاستدان سمجھ لیا۔ مولانا نے ثابت کر دیا کہ وہ انتہائی زیرک سیاستدان ہیں انہوں نے میدان سیاست میں کچی گولیاں نہیں کھیلیں وہ کبھی کچا کام نہیں کرتے۔
مولانا فضل الرحمان کے قریبی حلقے بتاتے ہیں کہ وہ کبھی کوئی کام جلدبازی میں نہیں کرتے۔ ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھاتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں ان کے تمام ووٹ حکومت کے پکڑے میں چلے بھی جائیں تو اسے اکثریت حاصل نہیں ہوتی۔ وہ جانتے تھے کہ دوچار ووٹوں کی کمی کسی اور کھاتے سے پوری کرکے سب کچھ کر گزرنے کا پروگرام تھا اور عزم یہ تھا کہ بعد میں جو ہوگا دیکھا جائے گا، جو بعد میں ہونا تھا مولانا فضل الرحمن کو اس کا بروقت ادراک تھا پس انہوں نے اپنی اور اپنی سیاسی جماعت کی ناک اور ساکھ بچانے کو ترجیح دی، وہ جلد بازی میں یا مروت میں فرمائشی پروگرام میں اپنا حصہ ڈال دیتے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان انہیں اور ان کی جماعت کو ہونا تھا۔ آئینی ترامیم کے حوالے سے ضروری تھا کہ گفتگو پہلے نچلی سطح سے شروع کی جاتی۔ افہام و تفہیم ہونے کے بعد وزراء ملاقات کرتے، حتمی نتیجے پر پہنچنے کے بعد چیزیں طے ہونے کے بعد صدر مملکت اور وزیراعظم ملاقات کرتے۔ دعائے خیر ہوتی۔ فلم کی ریلیں الٹی چل گئیں، فلم فلاپ ہو گئی، اب تدوین کے بعد کب لگے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ انجام کیا ہو، اس کی بھی کچھ خبر نہیں۔ پنڈی بادشاہ نیوٹرل ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.