میرا پیمبرﷺ عظیم تر ہے

129

ربیع الاول کے مہینے کی برکت میں کیا کلام کہ عالم کے پروردگار نے قیامت تک کے لیے اپنی مکمل ہدایت کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا۔ خالق کائنات نے خود آپؐ کو رحمت اللعالمین قرار دیا۔ اس ماہ میں اس ہستی کا ظہور ہوا جس کے لیے تمام زمین کو مسجد بنا دیا گیا۔ یہ اسی شخصیت مبارکہ کا فیض ہے کہ ظْلمات فروشوں کی رات کو شکست ہوئی اور آپؐ کے عدل اور میزان کا سورج طلوع ہوا اور سورج بھی وہ جو قیامت تک کے لئے روشن اور قائم ہے۔ انسانیت کو وہ شرف اور سہارا بخشا جو اسے کسی شر کے آگے جھکنے نہیں دیتا۔ گرامی قدر جاوید احمد غامدی صاحب بتاتے ہیں کہ آپؐ کے شرف اور اعزاز کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں آپؐ کو اصل نام احمدؐ کے بجائے محمدؐ کے نام سے مخاطب کیا جو معنوی اعتبار سے لقب ہے۔ صرف سورۃ صف میں جہاں حضرت مسیحؑ کی بشارت آپؐ کے بارے میں نقل ہوئی ہے، اْس میں آپؐ کا نام احمدؐ آیا ہے۔ اس میں بھی کوئی دوسری بات نہیں کہ آپؐ کی شخصیت فقط ایک دن یا مہینے کی نہیں بلکہ ہر روز اور ہرلمحے کی ہے۔انسانی زندگی کا وہ کو ن سا ایسا پہلو ہے جس کے بارے میں آپؐ نے اپنی سیرت و کردار سے قیامت تک کے لیے نمونہ انسانیت کے لیے قیمتی اثاثے کی شکل میں نہ چھوڑاہو۔ آپؐ کے سوا ازل سے لے کر ابد تک کوئی شخصیت ایسی نہیں گذری ہے نہ آئے گی جس نے یہ کہا ہو کہ (اے قریشیو!) میں اس (دعویٰ نبوت) سے پہلے تمھارے درمیان ایک عمررہا ہوں کیا تم نہیں سمجھتے۔ (سورہ یونس ۱۰/ ۱۶)۔ ویسے تو بطور مسلمان اور آپؐ کا اْمتی ہونے کے ناتے ہمیں ہر وقت سیرت مبارکہ کو جاننے اور اس پر عمل کرتے رہنا چاہیے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم رمضان کے مہینے میں اپنے رب سے عام دنوں کی نسبت زیادہ تعلق استوار کرتے ہیں اسی طرح ربیع الاول کے مہینے میں ہمیں چاہیے کہ سیرت کا مطالعہ کریں اور اپنی زندگیوں کو اس روشنی سے منورکریں۔

سیرت مبارکہ پر ہر زبان میں کْتب کا ایک وسیع ذخیرہ ہے۔ اس حوالے سے سید سلمان ندوی کے خطبات کا مجموعہ ’’خطبات مدراس‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا، کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے اور ذخیرہ سیرت میں اہم اضافہ ہے۔ سید سلیمان ندوی جو علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد رشید تھے انہوں نے 1925ء میں جنوبی ہند کی ’’اسلامی تعلیمی انجمن‘‘ کی فرمائش پر سیرت نبویؐ کے مختلف پہلوؤں پر آٹھ خطبات دیئے تھے۔ خطبات کے موضوعات سیرت نبوی ؐ کا تاریخی پہلو، سیرت نبوی ؐ کی کاملیت، سیرت نبوی ؐکی جامعیت، سیرت نبوی ؐ کی عملیت ہیں۔ خطبات میں بعض مقامات پر سیرت محمدی ؐ کا دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرتوں سے موازنہ ہے۔ مثال کے طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب سولی پر چڑھتے ہیں تو بیتابانہ زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ ’’اے میرے خداوند! تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا‘‘۔ لیکن محمد رسولؐ اللہ جب موت کے بستر پر ہوتے ہیں اور زندگی کی آخری سانسیں لیتے ہوتے ہیں تو زبان پر یہ کلمہ ہوتا ہے’’اے میرے خداوند! اے میرے بہترین ساتھی۔

آپؐ کی سیرت کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ آپؐ نے بہ حیثیت ایک پیغمبر کے اپنے پیرؤں کو جو نصیحت فرمائی اس پر سب سے پہلے خود عمل کرکے دکھایا۔ آپؐ کے شب و روز میں شاید ہی کوئی ایسا لمحہ ہو جب آپؐ کا دل خدا کی یاد سے اور آپؐ کی زبان ذکرِ خدا سے غافل ہوئی ہو۔ سید سلیمان بتاتے ہیں کہ ہم اوائل فروری 1924ء میں حجاز و مصر سے واپس آرہے تھے، اتفاق سے مشہور شاعر ڈاکٹر ٹیگور بھی اسی جہاز میں امریکہ کے سفر سے واپس ہورہے تھے۔ ایک رفیق نے ان سے سوال کیا کہ برہمو سماج کی ناکامی کا سبب کیا ہے؟ حالانکہ اس کے اصول بہت منصفانہ صلح کل کے تھے۔ اس کی تعلیم تھی کہ سارے مذہب سچے اور کل مذہبوں کے بانی اچھے اور نیک لوگ تھے۔ اس میں عقل اور منطق کے خلاف کوئی چیز نہ تھی۔ وہ موجودہ تمدن، موجودہ فلسفے اور موجودہ حالات کو دیکھ کر بنایا گیا تھا، تاہم اس نے کامیابی حاصل نہ کی۔ فلسفی شاعر نے جواب دیا کہ یہ اس لیے ناکام ہوا کہ اس کے پیچھے کوئی شخصی زندگی اور عملی صورت نہ تھی جو ہماری توجہ کا مرکز بنتی۔ سید بتاتے ہیں کہ مذہب نبی کی سیرت اور عملی زندگی کے بغیر ناکام ہے۔ یہ آپؐ کی سیرت کا ہی فیض ہے کہ مسلمانوں اور رومیوں میں جنگ ہے، صحابہ کرامؓ فوج کے سپاہی ہیں۔ سپہ سالار ان مسلمان سپاہیوں کی حالت دیکھنے کے لیے اسلامی کیمپ میں چند جاسوس بھیجتا ہے۔ وہ یہاں آکر اور مسلمانوں کی حالت دیکھ کر واپس جاتے ہیں تو سرتا پا اثر میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ وہ جاکر رومی سپہ سالار کو بتاتے ہیں کہ ’’وہ راتوں کے راہب ہیں اور دن کے شہسوار‘‘ یہی اسلام کی اصل زندگی ہے۔

دنیا کی موجود تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ایک مثالی مملکت کی تشکیل و قیام کے لیے فلسفیوں اور مذہبی مثالیت پسندوں نے ہر دور میں بحث کی ہے اور بعض عملی تخیل پرستوں نے ان مباحث کی روشنی میں ان خیالات کو عملی طور پر وجود میں لانے کی بھی کوششیں کی ہیں۔ سقراط و افلاطون سے لے کر ایچ جی ویلز نے تخیلیاتی مثالی ریاست کا نقشہ پیش کیا ہے۔ سقراط نے جہاں ریاست کا نقشہ پیش کیا وہاں ساتھ ہی اقرار بھی کیا کہ اس کا عملی نمونہ آسمانوں پر ہی بن سکتا ہے۔ لیکن یہ بات تاریخی حقیقت کا درجہ حاصل کرچکی ہے کہ رسول کریم ؐ کے علاوہ دنیا کے روحانی و سیاسی رہنماؤں میں سے کسی نے بھی اپنے خیالات و الہامات کی روشنی میں کسی مثالی مملکت کے قیام کے لیے کامیاب کوشش نہیں کی۔ آپؐ کی ذات ہی وہ مدبرِ اعظم ہے جس نے قیامت تک کے لیے ایک مثالی مملکت کے سیاسی، معاشی، سماجی سمیت ہر شعبے کے لیے قابل عمل خاکے اور عملی نمونے اپنے اسوہ حسنہ کی شکل میں پیروی کے لیے چھوڑی ہیں۔ حضور اکرم ؐ نے ایسے نصب العینوں کو انسانیت کے سامنے پیش کیا جس میں انسانی فطرت اور کوتاہیوں کو سامنے رکھا گیا۔ آپؐ نے مملکت کے قیام کے لیے انسانی زندگی کے ہر پہلو اور انسانی استعداد کو سامنے رکھا، جیسے کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان پر اسکی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔
میرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ خلاق ذات اْس کی
جمالِ ہستی حیات اْس کی
بشر نہیں عظمتِ بشر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
شعور لایا کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اْس نے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

تبصرے بند ہیں.