آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور نعمت قربانی مانگتی ہے۔ جتنی بڑی نعمت ہو اتنی بڑی قربانی ہوتی ہے۔ ہمارے اسلاف نے قربانیاں دیں جس کے نتیجے میں ہم آج آزاد فضا میں جی رہے ہیں۔ دنیا کے نقشے پر ایک آزاد وطن اور آزاد قوم کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔
قوموں اورملکوں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو عام ایام کے برعکس بڑی قربانی مانگتے ہیں۔یہ دن فرزندان وطن سے حفاظت وطن کے لئے تن من دھن کی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں۔قربانی کی لازوال داستانیں رقم ہوتی ہیں، سروں پر کفن باندھ کر سرفروشان وطن آزادی کو اپنی جان و مال پر ترجیح دے کر دیوانہ وار لڑتے ہیں۔ کچھ جام شہادت نوش کر کے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر سرخرو ہوتے ہیں۔ تب جا کر کہیں وطن اپنی آزادی، وقار اور علیحدہ تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
ایسا ہی ایک دن وطن عزیز پاکستان پر بھی آیا جب بھارت نے اپنے خبث باطن سے مجبور ہو کر6 ستمبر 1965ء کو پاکستان پر شب خون مارا۔ بھارت کا خیال تھا کہ راتوں رات پاکستان کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیں گے اور ناشتے میں لاہور کے پائے کھائیں گے لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ انہیں کس قوم سے پالا پڑا ہے۔ افواج پاکستان اور عوام پاکستان نے مل کر دیوانہ وار دشمن کا مقابلہ کیا۔ سروں پر کفن باندھ کر دشمن سے بھڑ گئے، جسموں سے بارود باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، عوام نے اپنا سب کچھ دفاع وطن کے لئے قربان کر دیا اور ہندو بنیے کے ناپاک عزائم کو رزق خاک بنا دیا۔طاقت کے نشے سے چور بھارت پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لئے آیا تھا لیکن ہمیشہ کے لئے ناکامی کا بد نما داغ اپنے سینے پر سجا کر واپس گیا۔
یہ صورتحال دشمن جرنیلوں کے لئے سخت ہزیمت کا باعث بن گئی انہوں نے لاہور سیکٹر پر ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد سیالکوٹ سیکٹر میں بھی جنگ چھیڑ دی۔ وہاں بھی دشمن کی فوج اپنے مذموم عزائم کی تکمیل نہ کرسکی اور پاکستانی جوانمردوں نے بھارتی ٹڈی دل فوجیوں کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔
چونڈہ کے محاذ پر وطن کے بہادر سپوتوں نے ٹینکوں کی سب سے بڑی عالمی جنگ میں چونڈہ کا میدان دشمن کے ٹینکوں کا قبرستان بنادیا۔ پاک فوج کے نڈر جوانوں نے چھمب سیکٹر میں پہاڑوں پر موجود دشمن کے فوجیوں کی گولہ باری کے باوجود کھلے میدان میں اپنی پیش قدمی سے انہیں مورچوں سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔ پاک فوج کے جیالے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے اس حد تک آگے چلے گئے کہ بزدل بھارتی اپنے آہنی مورچے چھوڑ کر دم دبا کر ایسے بھاگے کہ ان کی جوتیاں اور نیکریں دریائے توی کے کنارے (چھمب) کے میدان میں بکھری ہوئی دیکھی گئیں۔ راجہ عزیز بھٹی شہید، محفوظ شہید، شبیر شریف شہید، محمد اکرم شہید اور سوار محمد حسین شہید جیسے جوانمردوں نے شجاعت اور بہادری کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ دشمن بھی داد دئیے بغیر نہ رہ سکا۔
زمینی افواج کے ساتھ ساتھ بحری اور فضائی افواج نے بھی دشمن کی برتری کے خواب سمندروں اور فضاؤں میں بکھیر کر رکھ دیئے۔ پاک بحریہ نے محدود وسائل کے باجود دشمن کے ٹھکانوں پر کاری ضربیں لگا کر ثابت کیا کہ وہ اپنی سمندری حدود کی نگہبانی کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ فضائیہ کے پائلٹوں نے نہ صرف حملہ آور بھارتی طیاروں کے پائلٹوں کو دن میں تارے دکھا دئیے بلکہ دشمن کی حدود میں جاکر ایسے کارنامے دکھائے کہ دنیا مدتوں بھلا نہیں سکے گی اور دشمن پر ایسی ہیبت بٹھا دی کہ اب بھی یاد کرکے بھارتی سورماؤں کی روح کانپ اٹھتی ہوگی۔ بھارتی حکمرانوں کو ستمبر کی جنگ کے 17 دنوں میں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے۔ انہیں یہ بھی احساس ہوا ہوگا پاکستانی قوم نے قیام وطن کے بعد سے 18 سال میں سو کر وقت نہیں گزارا بلکہ اس کی حفاظت کے لئے لمحہ بہ لمحہ آنکھیں کھلی رکھی ہوئی ہیں۔
شاید وہ اس بات سے بھی واقف نہیں کہ جو زمین شہداء کے لہو سے سیراب ہوتی ہے وہ بڑی زرخیز اورشاداب ہوتی ہے۔ اس کے سپوت اپنی دھرتی کی طرف اٹھنے والی ہر انگلی کو توڑنے اور اس کی طرف دیکھنے والی ہر میلی آنکھ کو پھوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جان وار دیتے ہیں لیکن وطن پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں بھی جرأت و بہادری کی وہ درخشاں مثالیں قائم کی گئیں کہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ جنگ ستمبر کے 17 دنوں میں پوری قوم نے اپنے مادر وطن کے محافظوں کے ساتھ پورے عزم اور یقین کے ساتھ جاگ کر وقت گزارا۔ ان 17 دنوں نے پوری قوم میں اتحاد و یک جہتی کی نئی روح پھونک دی جس نے پوری قوم کو یک جان کردیا۔ ہر پاکستانی جذبہ جہاد سے سرشار تھا اور جنگ ستمبر کو حق و باطل کا معرکہ سمجھتا تھا۔ ہر شخص جذبہ حب الوطنی سے سرشار تھا، ذاتی مفاد کو پس پشت ڈال کر کدورتیں ختم کردیں۔ نہ تو اشیا ضروریہ کی مصنوعی قلت پیدا کی گئی اور نہ ہی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ بلیک آؤٹ ہوئے لیکن چوری چکاری ہوئی اور نہ ہی کوئی ڈاکہ پڑا، حتیٰ کہ لڑائی جھگڑے کا ایک مقدمہ بھی درج نہ ہوا۔ ہر شخص قربانی کا پیکر بن گیا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں نے ’’ٹیڈی پیسہ ٹینک سکیم‘‘ میں لاکھوں روپے جمع کرائے۔ جس طرح فوجی جوانوں نے دن رات جاگ کر وطن کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کی اسی طرح پوری قوم شانہ بشانہ ان کے ساتھ رہی کھانے پینے اور ضرورت کی دیگر اشیا محاظ جنگ پر اور ان کے مورچوں تک پہنچائیں۔ یہی وہ جذبہ تھا کہ ہندو دشمن کے دل میں بھارت کی تقسیم پر جو انتقام کی آگ تھی وہ ٹھنڈی نہ ہوسکی اور وہ ناکامی کی صورت میں اس انتقام کی آگ کے شعلوں میں خود ہی جل کر بھسم ہوا۔
آج ہمیں ایک نہیں بلکہ پاک سرزمین پر بہت سے محاذوں پر کئی دشمنوں کا سامنا ہے۔ ہمیں جہالت کے خلاف جنگ کرنی ہے۔ غربت کا خاتمہ کرنا ہے۔ خوشحالی کے لئے جان لڑانی ہے۔معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کرنا ہے۔ مذہبی فرقہ واریت کے خلاف ہتھیار اٹھانے ہیں۔ آیئے ملک دشمن عناصر کی گھٹیا سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے ایک ہوجائیں اور ارض پاک کی سلامتی کے لئے تجدید عہد کریں۔آئیے مل کر عہد کریں کہ وطن عزیز پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر وطن عزیز کی فلاح اور دفاع کے لئے کردار ادا کریں گے۔ اور اپنے قول و فعل سے کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے وطن عزیز کی عزت پر حرف آ سکے۔
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
تبصرے بند ہیں.