دوستی

155

دوستی کے حوالے سے، عالمی سطح پر منائے جانے والے ہفتہ میں، اپنا دل دوستوں کی یاد اور محبت میں لبریز، جانی انجانی سوچوں میں گم تھا کہ دوستی کے حوالے سے ایک بہت ہی حساس اور مہربان دوست کی یاد نے اچانک آ ستایاجس سے ملنے اور گفتگو کے اشتیاق نے جلد ہی اس سے ملاقات کی راہ ہموار کردی۔۔! اس سے قبل کہ اپنی طرف سے دوستی پرکچھ کہنے سننے کا آغاز ہوتا، سوئے اتفاق، سوچتی آنکھوں اور ڈوبے لہجے میں، وہاں سو ئی پہلے ہی سے دوستی اور ایک دوست کی ذات کے بارے میں اٹکی ہوئی تھی۔۔چھوٹتے ہی کہنے لگا۔۔۔مجھے یقین تھاکہ وہ میرا دوست ہے۔مجھے اس کی دوستی پر بڑا ناز تھا۔ میرا ہر دن اس کے ساتھ تو ہر شام اس کی نظر تھی۔ وہ پاس نہ ہو کر بھی میرے پاس تھا۔ اس کی یاد کی چبھن میرے دل کی ایک میٹھی سی کسک تھی۔ میں پہروں اس کے ساتھ گھومتا پھرتا اور جابجااس کے ہم رکاب ہوتا۔ جانی انجانی راہوں پر ہم نے مصرعہ سے مصرعہ ملائے سینکڑوں گیت گائے۔ وہ تھا تو خوشیاں، قہقہے، باتیں، قصے، کہانیاں اور خوش گپیاں تھیں۔ وہ نہ تھا تو اس کی کمی تھی۔ اس کے ساتھ گزرتے لمحے، دن اور رات کا روپ دھارے سالوں کا سفر طے کرتے چلے گئے۔ سینکڑوں دعوتیں ہوئیں، ہزاروں ملاقاتیں ہوئیں اور ان گنت مسافتیں طے کی گئیں۔۔۔!

دن رات سے بے نیاز اور رنج و غم سے بے پرواہ وقت گزرتا رہا۔ اس کی ہمراہی میں وہ گل افشانی ہوئی کہ مہک دور تک گئی۔ رات رات بھر محفلیں جاری رہتیں۔ بات سے بات نکلتی تو دور تک پھیلتی چلی جاتی۔ اس کے پاس گفتگو کرنے، دوسروں کو پرکھنے اور لوگوں کے مزاج کے مطابق ان کو ”ہوا دینے“ کا فن تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کب خاموش رہنا ہے اور کب کلام کرنا ہے۔ سو ایک میں ہی کیا اس دلربا کے تو اور بھی بہت سے دیوانے تھے۔ اس کو دوسروں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے اور ان کے مطابق چلنے کا سلیقہ آتا تھا۔ وہ اپنی ذات میں وہ چراغ تھا جو تیل کے بغیر بھی جلنے اور روشنی کرنے کے ہنر میں طاق تھا۔ وہ ایک روپیہ خرچ کیے بغیر بھی ہزاروں کا کر یڈٹ لینے کا فن جانتا تھا۔وہ تہہ در تہہ ایک گہرا انسان تھا۔ اس کی گفتگو، سادگی اور لاپرواہی کی عکاس تھی مگر اس کے عمل کا ہر پہلو بہت محتاط اور ”تعین شدہ“ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کب، کس سے اور کس حد تک رابطہ رکھنا ہے۔ اس کو اپنے تعلقات کو اپنی حد میں رکھ کر آگے بڑھنے کا راز معلوم تھا۔ وہ یک بیک مختلف دائروں میں علیٰحدہ علیٰحدہ ”دوستیاں رکھنے“ اور سفر کرنے والا انسان تھا۔ وہ میرے ساتھ تھا تو میرے دل کے اتنے قریب کہ ہر کام کا مشورہ اسی سے ہوتا تھا۔ ہمیں ہر جگہ ساتھ ساتھ دیکھ کر کسی کے دل میں رشک جاگتا تو کہیں حسد ڈیرے ڈالتا۔ کسی کو اپنی رفاقت یاد آتی تو کوئی گزرے کل کو سامنے رکھ کر آہیں بھرتا۔۔۔!

مدتوں اس کے ساتھ دوستی کا یہ سلسلہ چلتا رہا مگر پھر اچانک ایک دن فطرت نے میزان کھڑی کر دی۔ کہیں سے حقیقت شناسی کا ایک بگولا آیا اور ہر شے کو الٹ پلٹ کر گیا۔ گرد اور گرداب نے آنکھوں میں یوں چبھن پیدا کی کہ کچھ دیکھنا ممکن نہ رہا اور جب گرد بیٹھی تو دوستی کی شاندار عمارت کے کھنڈرات میں فقط گھومنا پھرنا، کھانا پینا اور خوش گپیاں ہی منہ چڑا رہی تھیں۔ دوستی کے اصل رنگ، احساس، خلوص، وفا، قربانی، چاہت اور محبت تو کہیں دور کونوں میں سسک رہے تھے۔ وہ جو سب کا یار تھا، وہ تو بس اپنا ہی یار تھا….!

وہ جو سامنے ہوتا تو اتنا مہربان اور اپنا محسوس ہوتا کہ ہر کسی کا دل چاہتا کہ اس کے سامنے دل کھول کر رکھ دے۔ مگر جب وہ کسی اور محفل یا کسی اور دائرے میں ہوتا، محفل جمتی، موقع میسر آتا تو وہ ”ان دوستوں“ کے سامنے ”غیر موجود دوستوں“ کی شخصیت کی نا ہمواریوں اور کمزوریوں کے تذکرے بڑے شوق سے، مثالیں سنا سنا کر کرتااور ان کی شخصیت کا مذاق اڑا کر خوش ہوتا۔ وہ افراد سے نہیں، دوستوں سے نہیں، غم گساروں سے نہیں بلکہ اپنے ذہن میں بنائے ہوئے شخصیت کے خاکوں سے ملتا تھا۔ وہ جو بظاہر بڑا مہربان، ہمدرد، غم گسار اور پر خلوص تھا، دل ہی دل میں سامنے بیٹھے ہوئے فرد کی کمزوریوں اور شخصی خامیوں کو گرفت میں لے کر اپنی تفریح طبع کے لیے غیر محسوس انداز میں تانے بانے بنتا رہتا تھا۔ افراد اس کے ہاں کٹھ پتلیاں تھیں اور پتلیوں کو اپنی انگلیوں پر نچانے کا فن اسے خوب معلوم تھا….!

وہ اپنے فن کی اس معراج پر تھا کہ اپنی زندگی کے کتنے ہی سال اس دلِ ناداں کو خبرتک نہ ہوئی مگر ایک بار جو توقع کا کشکول ٹھوکر زدہ ہو کرٹوٹا اور اس زور سے ہاتھ سے چھوٹا کہ پھر دور تک لڑھکتا ہی چلا گیا۔۔ اس کو جتنا سمجھایا اور احساس دلایا، اتنا ہی اس نے خود پر اور اپنے رویے پر فخر کیا۔ دوستی کے نام پر جتنا کشکول پھیلایا، اتنا ہی وہ تہی دامن نکلا۔۔! دوستی باہمی احترام اور احساس کا نام ہے، کسی کی خوبیوں اور خامیوں کو تسلیم کرنے کا ایک مکمل ضابطہ اخلاق ہے مگر جب مقصود تفریح طبع ہو تو پھر دوستی، دوستی نہیں، محض منافقت بھرا تعلق رہ جاتی ہے۔۔۔!

دوستی میں تڑپنے اور مچلنے کا یہ سلسلہ جانے کتنی دیر اور چلتا کہ فطرت کومجھ پر پیار آ گیا اور اس نے کئی میک اپ زدہ چہرے دھوکر ان کے اصل خدوخال نمایاں کر دیے۔ دلِ دردمند سے صدا نکلی کہ سنبھل اور چل….! اس راستے کی طرف جس کے لیے تجھے بنایا گیا ہے۔ وہ تو اس راہ کا مسافر ہی نہیں۔تم گہرائی کے قائل اور وہ سطح کا نقیب۔۔۔اسے انسانوں سے نہیں کھلونوں سے ملنا ہے۔ اس کے پاس تو خلوص کے جواب میں دلائل اور اپنا نقطہ نظر ہے اور توہے کہ دلی تعلق و خلوص کا مشتاق ہے۔ وہ تو بس دماغی تعلق اور اپنے بنائے خاکوں کے ساتھ وقت گزارنے اور لطف اٹھانے کا ماہر ہے۔۔!سمجھ، دیکھ، سن، فرد در فرد مشاہدہ کر اور عبرت پکڑ۔۔۔! وہ دوست تھا، ہے اور نہ ہی زندگی میں شاید کبھی کسی کا ہوگا…! ابھی وہ اپنے گمان اور دھن میں ہے، اسے کسی کے خلوص و جذبات کی کیا قدر۔۔۔! جب بذاتِ خود اس کے لب سوال کی اذیت سے آشنا ہونگے تو جواب کی حقیقت اور لذت خود بخود نمایاں ہو جائے گی۔۔ ابھی تیری ضرورت ہے اور لوگوں کی ضرورتوں کو ٹالنا اور ان سے نمٹنا اس کا فن ہے۔۔۔! جب اس کو ضرورت ہو گی وہ لہجے کو خوشگوار بھی بنالے گا، مل بھی لے گا، مشورہ بھی کرلے گا اور روابط بھی بڑھالے گا…..! تو اُٹھا اپنے سر پراپنے خلوص، پیار، محبت اور چاہت کی ٹوکری، گھوم نگر نگر اور آواز لگا کہ لوگو۔۔۔! دوستی اور تعلق رکھنا مگر کبھی توقع نہ رکھنا۔۔۔بھرم ٹوٹے تو صبر کرنا، آہ نہ کرنا۔۔۔خواب بکھریں تو کرچیاں چننا، شکوہ نہ کرنا۔۔۔سب کچھ لٹا دینا مگرکسی کو دل نہ دینا ورنہ ایک عمر حساب چکا نا ہو گا۔ دوستی کی ہے تو پھر ایک قبر کھودو اور اس میں اپنے دوست کے سب عیب دفن کر دو۔ دینے کا فکر کرو، طلب کی سوچ سے ہی کنارہ کش ہو جاؤ، شاید تمہارا حصہ وہاں نہیں بلکہ کسی اور طرف سے تمہاری طرف محو سفر ہے….!

میرا دوست ہے کہ اپنی دھن میں، اپنی اشک زدہ آنکھوں اور درد مند لہجے میں بولے چلا جارہا ہے اور میں ہوں کہ آئینے کے روبرو گردن جھکائے، شرمسار کھڑا، عالمی سطح پر منائے جانے والے ”ہفتہ ء دوستی“ میں دوستی کے نام پر مہکتے کئی پھولوں، چمکتے کچھ نگینوں اور دوستی کی لاج رکھنے والی چند نابغہء روزگار ہستیوں کے لیے محو دعا اور ان کی خدمت میں بے اختیار سلام پیش کرنے میں مصروف ہوں۔۔۔!

تبصرے بند ہیں.