بھلے وقتوں میں ڈانگ سوٹے کی لڑائی ہوتی تھی یا پھر زیادہ سے زیادہ چھری اور برچھی کاکہیں کہیں استعمال ہوتا تھا خاص کر گاؤں میں کہا جاتا تھا کہ دشمن نوں جانوں نہ مارودشمن جانوں مر گیا تے پھر دشمنی کاہدی، پھر جہاں اور چیزوں میں جدت آئی و ہیں لڑائی جھگڑوں میں بھی جدت آگئی پستول اور بندوق نے لوگوں کی جانیں لینا شروع کر دیں کلاشنکوف نے تو ات ہی مچا دی اب تو جو ملکوں کی مفاد ات کی لڑائی ہو رہی ہے اس میں تو گھر بیٹھے ہی مخالف کو تہس نہس کیا جا سکتا ہے اب آتا ہوں اصل موضوع کی طرف کہ جب پی ڈی ایم ٹو کی حکومت کو تحریک انصاف ایک آنکھ نہیں بھاتی اسی لئے وہ اس پر پابندی لگانے کے درپے ہے پیپلز پارٹی جو خود بھی اس پراسس سے گزر چکی ہے پہلے تو کہتی تھی کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی نہیں لگنی چاہیے اب نہ جانے شہباز سپیڈ نے کیا دانہ ڈالا ہے کہ وہ بھی خاموش ہے،سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی پر پابندی سے حکومت کے راستے کے سارے کانٹے صاف ہوجائیں گے کیا پابندی سے بانی پی ٹی آئی اور اس کے پیروکار خاموش ہو کر گھر بیٹھ جائیں گے تویہ حکومتی خام خیالی ہے؟ایسا کبھی نہیں ہو گا بلکہ یوں کہہ لیں کہ زخمی سانپ اور خطرناک ہوتا ہے ماضی میں بھی کئی مذہبی اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگی لیکن ان جماعتوں کے وجود کو ختم نہ کیا جا سکایہ بھی کہا جاتا ہے پاکستان میں نام بدل کر کام کرنے پر پابندی کے حوالے سے بھی ایساکوئی قانون نہیں ہے کہ کسی جماعت کا مکمل ”مکو“ ٹھپا جاسکے؟ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ایک دو ڈمی ناموں کی رجسٹریشن بھی کرا رکھی ہوتی ہے کہ پابندی کی صورت میں وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں، پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کا آغاز 1954 میں ہوا جب اس وقت کی حکومت نے پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کی، کمیونسٹ پارٹی بعد میں مختلف ناموں سے وجود میں آتی رہی لیکن 2013 میں ایک بار پھر الیکشن کمیشن میں اس نام سے پارٹی دوبارہ رجسٹر ہوئی، 1962میں ڈکٹیٹر ایوب خان کے دور میں جماعت اسلامی پر پابندی لگائی گئی،پاکستان میں پابندی کا شکار ہونے والی دوسری جماعت عوامی لیگ تھی جس پر 1971 میں یحییٰ خان نے پابندی عائد کی تھی، بھٹو نے اے این پی پر پابندی عائد کی تھی، تحریک لبیک پاکستان نے 2018 میں پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا تھا اور پنجاب کے ہر دوسرے حلقے میں ان کے امیدوار تیسری پوزیشن پر موجود تھے جبکہ سندھ اسمبلی کی دو نشستوں پر تحریک لبیک کو کامیابی بھی ملی تھی اس پر تحریک انصاف کی حکومت نے پابندی لگائی تھی جو بعد میں اٹھا لی گئی سیاستدان اپنے مفادات کیلئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں کسی کو دہشت گرد جماعت کہنا بہت آسان ہے او ر یہ ہوتا آیا ہے تحریک لبیک کو تحریک انصاف نے دہشت گرد تنظیم کہہ کر پابندی لگائی تھی آج خود تحریک انصاف اسی عمل سے گزر رہی ہے، سیاسی جماعت پر پابندی کے حوالے سے پاکستان کا آئین اور الیکشن ایکٹ یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ یا سالمیت کے لیے خطرہ ہو تو حکومت اس پر پابندی کیلیے ریفرنس سپریم کورٹ کو بھجوائے گی، اگر سپریم کورٹ ڈیکلریشن کو برقرار رکھے تو سیاسی جماعت تحلیل ہوجائے گی اور اس کے تمام منتخب ارکان نااہل قرار پا جائیں گے، کوئی سیاسی جماعت اس طریقے پر بنائی گئی یا کوئی ایسا عمل کر رہی ہے جو پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ یا سالمیت کے لیے مضر ہے، اگر وفاق اس پر پابندی لگانے کا اعلان کر دے تو وہ پندہ دن کے اندر ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کرنے کی پابند ہوگی، جبکہ اعلٰی عدلیہ کا ریفرنس پر فیصلہ حتمی ہو گا ادھر الیکشن ایکٹ کی سیکشن 212 سیاسی جماعت کی تحلیل سے متعلق ہے جس کے مطابق اگر وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کے ریفرنس یا دیگر ذرائع سے موصول معلومات سے مطمئن ہے کہ سیاسی جماعت غیر ملکی فنڈڈ ہے یا دہشت گردی میں ملوث ہے تو حکومت اس پر پابندی کیلیے ریفرنس سپریم کورٹ کو ہی بھجوائے گی، اگر سپریم کورٹ ڈیکلیئریشن برقرار رکھے تو سیاسی جماعت تحلیل ہو جائے گی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کا ہی ہو گا، الیکشن ایکٹ کی سیکشن 213 کے مطابق پارٹی تحلیل ہونے کے بعد اس کے پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی یا مقامی حکومت میں ارکان باقی مدت کیلیے نااہل ہو جائیں گے اب اگر حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے توملک میں مزید انارکی کی پھیلے گی کیونکہ یہ عوام کا نہیں ایک جماعت کافیصلہ ہو گا اگر حکمران ملک کو جان بوجھ کر سیاسی عدم استحکام کاشکار کرنا چاہتے ہیں تو اس کے نتائج بھیانک برآمد ہوں گے، تحریک انصاف سمیت کسی بھی جماعت کو انتشار پسند جماعت قرار دینا حقائق کے منافی ہے مہنگائی نے عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے قائد ن لیگ نوازشریف بھی اس سلسلے میں لب کشائی کر چکے ہیں حکومت کے نامہ اعمال میں دن بدن برے کرتوں کا اضافہ ہو رہا ہے اور عمران خان کی مقبولیت بڑھ رہی ہے حکومت چاہتی ہے کہ اگراس کی مقبولیت قائم ودائم رہے توعوام کو خوشیاں دے، آئی ایم ایف کے ایماء پر بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ کو روکے جو غریب عوام کو خود کشیوں کی طرف لے کر جارہا ہے، غریب عوام کے معصوم بچوں کی بھوک سے نڈھال چیخیں اور سسکیاں سنائی نہیں دیتی، لوگ جھولیاں اٹھا اٹھا کر حکمرانوں کو بددعائیں دے رہے ہیں، حکمران طبقہ اپنے انجام سے بخبر غریب عوام پر ظلم وستم روا رکھے ہوئے ہے آئی پی پیزسے کیے جانے والے مہنگے معاہدے فوری ختم کیے جائیں کیونکہ عوام مہنگی بجلی اور ظالمانہ ٹیکسز کمر توڑ مہنگائی سے تنگ آچکے ہیں، عوام کو 300 یونٹ مفت بجلی فراہم کرنے کا وعدہ کرنے والوں نے بجلی آئے روز مہنگی کرنا وطیرہ بنا لیاہے، حکمرانوں کو ذرہ برابر احساس نہیں کو عوام کس حال میں ہیں حکومت بانی پی ٹی آئی کو سیاسی شہید نہ بنائے اس سے ن لیگ کو نقصان اور تحریک انصاف کو فائدہ ہی فائدہ ہے دشمن کو زندہ رہنے دیں ختم نہ کریں کیونکہ یہی جمہوریت کا حسن ہے اور یہی سچ ہے۔
تبصرے بند ہیں.