ٹیکسوں کا بوجھ اور بے بس عوام

39

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پیش کردہ سالانہ بجٹ واقعتا اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہوتے ہیں۔ بسا اوقات انتہائی پڑھے لکھے لوگ بھی ان اعداد وشمار کی کامل تفہیم سے قاصر ہوتے ہیں۔ معیشت اور معاشیات کی سمجھ بوجھ رکھنے والے یقینا بجٹ کو عمدگی سے جانچ پرکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک عام آدمی کا تعلق ہے تو اسے خشک اور بھاری بھرکم معاشی گفتگو کیسے سمجھ آسکتی ہیں۔یوں بھی ہر برس جب بجٹ پیش ہوتا ہے تو حکومتی حلقے اسے عوام دوست قرار دیتے ہیں۔ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالا ہے اور حتی المقدور کوشش کی ہے کہ عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے۔ جبکہ ہر دو ر کی اپوزیشن بجٹ کو ہدف تنقید بناتی ہے۔ اسے عوام دشمن قرار دیتی ہے۔ حکومت کو برا بھلا کہتی اور مہنگائی کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کرتی ہے۔

معیشت اور معاشی موضوعات پر میری فہم واجبی سی ہے۔ معیشت یا اس سے جڑے کسی موضوع پر کچھ لکھنا ہو یا گفتگو کرناپڑے تو مجھے باقاعدہ تحقیق کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بعد کچھ گزارا ہو تا ہے۔ اپنی کم فہمی کے باوجود، ہر سال جب بجٹ پیش ہوتاہے،میں اسے دلچسپی سے سنتی ہوں، اس کا جائزہ لیتی ہوں۔ پیش کردہ اعداد و شمار سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ تاہم اس مرتبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پیش کردہ کسی بھی بجٹ تقریر کو سننے کو دل چاہا اور نہ بعد ازاں اس کے مختلف پہلووں کو سمجھنے کو ضرورت محسوس ہوئی۔ نہایت بے دلی کے ساتھ میں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پیش کردہ بجٹ کا جائزہ لیا اور بس۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ بیشتر عام شہریوں کی طرح مجھے بھی بجٹ سے کچھ خاص امید نہیں تھی۔ کوئی معمولی سمجھ رکھنے والا عام ساشہری بھی اب یہ بات سمجھنے لگا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو، کوئی بھی وزیر خزانہ ہو،بجٹ میں عام آدمی کے لئے ریلیف کم اور ٹیکسوں کی بھر مار زیادہ ہو گی۔ اس صورتحال میں ہم جیسوں کو بھلا بجٹ میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟۔

اس مرتبہ جو بجٹ پیش ہوا، اس پر بھی تنقید ہو رہی ہے۔سچ پوچھئے تو اپوزیشن جماعتوں کی تنقید کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔یہ جماعتیں عوام کے دکھ اور مشکلات کے پیش نظر نہیں، محض پوائنٹ سکورنگ اور تماشا بازی کے لئے حکومت پر تنقید کرتی ہیں۔ تنقید برائے تنقید کی غرض سے حکومت یا بجٹ پر تنقید کرنے والے نام نہاد صحافیوں (بلکہ سیاپا فروشوں) کے تنقیدی تجزیوں پر بھی کان دھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم حقیقی اور غیر جانبدار صحافی بجٹ کے جن پہلوؤں پر تنقید کر رہے ہیں۔ وہ ضرور غور طلب ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ ہر حکومت کا بس چونکہ عام آ دمی اور تنخواہ دار طبقے پر چلتا ہے، سو عام آدمی کے لئے ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ ملازمت پیشہ طبقے پر نہایت خاموشی کیساتھ 10 فیصد سپر ٹیکس بھی لاد دیا گیا ہے۔ حکومت کے اس عمل پر بھی تنقید ہو رہی ہے۔ گزشتہ چند برس میں مہنگائی کی رفتار میں نہایت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کے حساب سے حکومت نے ملازمت پیشہ طبقے کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا۔ چلیں سرکاری ملازمین کے لئے یہ بھی غنیمت ہے کہ ہر سال اس کی تنخواہ کچھ نہ کچھ بڑھ جاتی ہے۔ لیکن نجی شعبوں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کو کون یقینی بنائے گا؟۔ اس ضمن میں کبھی کوئی اقدام نہیں ہوتے۔ سیٹھ کی مرضی ہو تو وہ ملازمین کی تنخواہیں بڑھاتا ہے، بصورت دیگر اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی عشروں سے معیشت کی حالت سنبھلنے میں نہیں آ رہی۔ سیاسی بے یقینی،سیاسی تجربات اور عدم استحکام نے قومی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ کسی بھی حکومت کے پاس جادو کا چراغ نہیں ہوتا کہ وہ اسے رگڑ کر معیشت کی گاڑی کو دوبارہ پٹری پر ڈال دے۔ اس کے لئے مسلسل کاوش کرنا پڑتی ہے۔ قومی معیشت کا رخ برسوں کی محنت اور جدوجہد کے بعد تبدیل ہوتا ہے۔ پاکستان تو یوں بھی قرضوں اور سود کے بوجھ تلے ڈوبا ہوا ہے۔ قرض اور سود کی ادائیگی کے لئے ہمیں بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ یعنی تقریباً 9775 ارب روپے مختص کرنا پڑتا ہے۔ آئی۔ ایم۔ ایف سے قرض کی نئی قسط لینے کے لئے ہمیں آئی۔ ایم۔ایف کی شرائط کے تحت عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لادنا پڑتا ہے۔ خود وزیر اعظم شہباز شریف نے اعتراف کیا ہے کہ آئی۔ ایم۔ایف کے ساتھ بجٹ بنانا جان جوکھم کا کام ہے، ایک طرف انکا دباؤ اور دوسری طرف عوامی توقعات کو بھی مد نظر رکھنا پڑتا ہے۔ شہباز حکومت کی یہ ساری مجبوریاں قابل فہم ہیں۔ اس کے باجود، بے بس عوام اگر حکومت کی طرف نہ دیکھیں تو پھر کس کی طرف دیکھیں؟۔شہبا ز حکومت کا فرض ہے کہ کچھ بھی کرے لیکن عوام کو ریلیف پہنچانے کا اہتمام کرے۔

ایک طرف وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام آ رہا ہے۔ دوسری طرف عوا م بجلی کے بلو ں اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئے ہیں۔ ڈرامہ اور تھیٹر کے سینئر آرٹسٹ راشد محمود صاحب کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے۔ وہ 701 یونٹ بجلی کا بل 45 ہزار آجانے پر سراپا احتجاج ہیں۔ یہاں تک کہ بے بسی کی حالت میں موت کی دعا کر رہے ہیں۔ یہ فقط ایک مثال ہے۔ یقین جانئے بیشتر عام شہریوں کا یہی حال ہے۔ اس ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی جو صورتحال ہے۔ اس سے عام آدمی اور خاص طور پر نوجوان مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنے اور ملک کے مستقبل کے بارے میں ناامید ہو جانا نہایت خوفناک رجحان ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پڑھے لکھے نوجوان اور ہنر مند افراد دھڑا دھڑ بیرون ملک جا رہے ہیں۔ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوور سیز ایمپلائمنٹ کے مطابق سال 2022 میں 8 لاکھ 32 ہزار سے زائد پاکستانی روزگار کی تلاش میں ملک چھوڑ کر گئے۔ ایسی جائزہ رپورٹیں بھی سامنے آتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بیشتر شہری اس ملک کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں سکونت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس نے 2023 میں ایک سروے کیا تھا۔ اس سروے کے نتائج کے مطابق 15 سے 24 سال کی عمر کے 27 فیصد پاکستانی ملک چھوڑکر کسی دوسرے ملک منتقل ہونے کے خواہشمند ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ پاکستان میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
اس صورتحال سے قطع نظر، اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ شہباز حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔ یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں مہنگائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ خاص طور پر اشیائے خورو نوش کے نرخ کم ہوئے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کیجئے کہ عام آدمی کی زندگی پٹرولیم مصنوعات اور بجلی، گیس کے بلوں نے عذاب بنا رکھی ہے۔ تمام بر سر اقتدار سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر مسلم لیگ(ن) کی ذمہ داری ہے کہ اس صورتحال پر سنجیدگی سے غور کریں۔ آپ نے اقتدار سنبھالا ہے تو عوام کے مسائل حل کرنے کی تمام تر ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ عوام کو پٹرولیم مصنوعات، بجلی گیس کے بلوں اور ٹیکسوں کے بوجھ سے نجات دلانا آپ کا فرض ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے، آپ کا ووٹر آپ سے بد دل ہو کر کسی اور سمت نکل جائے، لازم ہے کہ آپ اس ضمن میں اقدامات کریں اور عوام کو سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کریں۔

تبصرے بند ہیں.