تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کا شیڈول، متنازعہ مسئلہ کیوں؟

86

تعلیم جیسے اہم اور بنیادی شعبے کے حوالے سے اسے ایک افسوس ناک امر گردانا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں سکول سطح کے تعلیمی اداروں میں موسمِ گرما کی تعطیلات کا معاملہ ایک متنازعہ مسئلے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے ۔ اس سے قبل گزشتہ دسمبر میں موسم سرما کی تعطیلات کے حوالے سے بھی اسی طرح کی صورتِ حال پیش آئی تھی۔ تعلیمی اداروں میں موسمی تعطیلات ایک ایسا معاملہ ہے جو عرصہ دراز سے معمول کے مطابق اور بغیر کسی الجھائو اور ردوکد کے سر انجام پاتا چلا آ رہا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حالیہ برسوں میں کچھ حلقوں جن میں صوبے اور ضلع کی سطح کے انتظامی افسر شامل ہیں کی ناروا سختی، ضِد اور ہٹ دھرمی اور معاملات و مسائل کو پوری گہرائی اور گیرائی میں پرکھنے کی بجائے سطحی طور پر لینے کی بنا پر ایسی صورتِ حال جنم لیتی ہے جسے کسی صورت میں بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ صوبائی سطح پر سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ افسران اور ضلعی سطح پر ضلعی انتظامیہ کے افسران جلدی میں اور بغیر سوچے سمجھے جاری کیے گئے تعلیمی اداروں کو بند کرنے اور ان میں چھٹیاں کرنے کے احکامات پر عمل در آمد کروانے کے حساس معاملے کو اس انداز سے ڈیل (Deal) کرتے ہیں جیسے یہ کوئی عام انتظامی نوعیت کا یا دفعہ144 کے نفاذ کا معاملہ ہو جس میں رعب ، دبدبے، پکڑ دھکڑ اور دھمکیوں سے کام لینا ضروری سمجھا جاتا ہو۔

تعلیمی ادارے خواہ وہ نچلی سطح کے تعلیمی ادارے اور سکول ہوں یا اعلیٰ تعلیم اور اونچے درجے کے تعلیمی ادارے ہوں، ان کا تعلق سرکاری تعلیمی اداروں سے ہو یا پرائیویٹ سیکٹر سے ، ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی میں ہمیشہ سے ان کی اہم حیثیت اور مقام چلا آ رہا ہے۔ پھر ان کے مخصوص معاملات ، مسائل، فرائض اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں جنہیں سامنے رکھ کر انہیں اپنے معمولات کو ترتیب دینا اور روزمرہ کے معاملات اور وظائف کو سر انجام دینا ہوتا ہے۔ اب کوئی ایسا نادر شاہی حکم جاری کر دینا اور سختی اور غیر مہذب انداز سے اس پر عمل در آمد کے لیے کوشاں ہونا معمول بنا لیا جائے تو یقینا اسے مستحسن نہیں گردانا جا سکتا۔ مان لیا کہ ملک میں خاص طور پر سندھ اور پنجاب میں مئی کے تیسرے عشرے کے آغاز میں گرمی کی شدید لہر شروع ہوئی ۔ گرمی کی اس لہر سے چھوٹی عمر کے بچوں کو بچانا ضروری تھا۔ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے اس کے لیے آسان جانا کہ میٹرک کی سطح کے تعلیمی اداروں جن میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی ادارے شامل ہیں بند کر دیا جائے۔ سندھ حکومت نے سکولوں میں گرمیوں کی تعطیلات کا کچھ آدھا ادھورا اعلان کیاتو پنجاب کے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے سوچا کہ ہم کیوں پیچھے رہیں۔ اس نے 18 مئی کو 31 مئی سے 14اگست تک یہ کوئی 76 دن بنتے ہیں) صوبے میں سکولوں کو بند کرنے کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی سکولوں کے اوقات کو صبح 7 بجے سے قبل دوپہر ساڑھے گیارہ بجے تک محدود کر دیا گیا۔ سکولوں میں اوقات کو محدود کرنا ایک مجبوری سمجھی جا سکتی ہے کہ بچے گرمی کی شدت کے اوقات سے قبل اپنے گھروں میں واپس پہنچ جائیں۔ اس سلسلے کو آگے جاری رکھا جا سکتا تھا لیکن اس کی بجائے پنجاب کے عزت ماب وزیرِ تعلیم کی طرف سے ایک اور حکم آ گیا جس میں 31مئی کی بجائے 7 دن قبل 25 مئی سے ہی سکولوں میں موسم گرما کی تعطیلات کا اعلان کر دیا گیا۔ تاہم اس حکمنامے میں اس بات کی گنجائش رکھی گئی کہ سکول اپنے طور پر گرمی سے سٹوڈنٹس کے بچائو کے ضروری انتظامات کرتے ہوئے پہلے سے شیڈول امتحانات وغیرہ کو جاری رکھ سکتے ہیں۔

پنجاب کے وزیرِ تعلیم جناب رانا سکندر حیات نے چھٹیوں کے حوالے سے جو بھی حکم نامہ جاری کیا یقینا نیک نیتی اور بچوں کے تحفظ کے نقطہ نظر سے کیا ہو گا کہ اپنے ٹویٹ میں اساتذہ کرام اور والدین سے مخاطب ہو کر ان کا کہنا تھا کہ آپ کی رائے ہمارے لیے اہم اور بچوں کا تحفظ ہمیشہ مقدم رہے گا۔ آئیں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر عملی اقدامات اٹھائیں۔ جناب وزیرتعلیم کے ارشاد کے مطابق عملی اقدامات کے حوالے سے یہ اہم عملی قدم اٹھایا جا سکتا تھا کہ تعلیمی اداروں (سکولوں) کی انتظامیہ کو اپنے سٹوڈنٹس (بچوں) کے گرمی سے بچائو کے لیے ضروری حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کا پابند کرتے ہوئے انہیں اپنی تعلیمی سر گرمیاں یا پہلے سے شیڈول لوکل امتحانات کی اجازت دیدی جاتی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ اس کی بجائے پرائیویٹ سیکٹر کے سکول مالکان (انتظامیہ) کو یہ سخت حکمنامہ جاری کیا گیا جس کے تحت سیکرٹری ایجوکیشن پنجاب ڈاکٹر احتشام انور کی خصوصی ہدایات پر پنجاب بھر کے سی ای او ایجوکیشن کو پابند کیا گیا کہ کسی بھی پرائیویٹ سکول میں کسی طرح کی بھی تدریسی سر گرمی کی اجازت نہیں ہو گی۔ محکمہ تعلیم کے افسران پرائیویٹ سکولوں کا وزٹ کریں گے اور ان کی طرف سے خلاف ورزی پر ان کے خلاف تا دیبی کاروائی کرتے ہوئے ان کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے گی۔ اسی حکنامے میں ایڈیشنل سیکرٹری تعلیم اور ایک سیکشن افسر کے دفاتر کے ٹیلی فون نمبر بھی دیئے گئے کہ نجی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے خلاف ان فون نمبروں پر شکایات درج کروائی جا سکتی ہیں وغیرہ۔

تعلیمی اداروں یعنی سکولوں میں گرمیوں کی تعطیلات کے معمول کے ایک معاملے پر عمل در آمد کے لیے مختلف سطح کے انتظامی افسران کے اقدامات کی تفصیل میں جائیں تو اور کئی ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جنہیں تحمل، دانائی، حوصلہ مندی اور معاملے کے سارے پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ضروری اقدامات کرنے کا مظہر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خیر تفصیل میں نہیں جاتے کہ اس کی گنجائش نہیں ہے۔ دیر آید درست آید کہ پنجاب کے وزیرِ تعلیم جناب رانا سکندر حیات سے چیمبر آف ایجوکیشن پنجاب کے ایک وفد کی ملاقات ہوئی جس میں جناب وزیرِ تعلیم نے اپنے محکمے کی طرف سے کچھ ایسے اقدامات کرنے کی یقین دہانی کروائی جنہیں مستحسن قرار دیا جا سکتا ہے۔ سکولوں میں جماعت نہم اور دہم کے لیے یکم جون سے 15 جولائی تک روزانہ3 گھنٹے دورانیہ کے سمر کیمپ کی اجازت دی گئی ہے تو اس کے ساتھ سکولوں کو 7 جون تک اپنے لوکل امتحانات مکمل کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ معقول اور اچھے فیصلے ہیں ان سے پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں کو اپنے نا مکمل اور آدھے ادھورے معمولات اور پہلے سے شیڈول پروگرام مکمل کرنے میں یقینا مدد ملے گی۔

تبصرے بند ہیں.