سرکاری جامعات کو تالے لگا دیجئے!!

93

لگتا ہے کہ ہمارے شعبہ تعلیم پر کسی آسیب کا سایہ ہے۔ ہم ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو دو قدم پیچھے کی جانب لڑھک جاتے ہیں۔ ایک ڈھلوان کا سفر ہے جس پر ہم گامزن ہیں۔ شعبہ تعلیم سے جڑی اچھی، مثبت اور خوش کن خبریں شاذ و نادر ہی سننے کو ملتی ہیں۔ منفی اور پریشان کن خبروں کے البتہ ڈھیر لگے ہیں۔ چند دن سے تعلیمی حلقوں میں ایک نہایت مایوس کن اور پریشان کن اطلاع زیر بحث ہے۔ خبر یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے مالی سال 2024-25 کے لئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں کٹوتی کر دی ہے۔ کٹوتی بھی کوئی تھوڑی بہت نہیں، بلکہ اچھی خاصی۔ وفاقی کمیشن کا سالانہ بجٹ 65 ارب روپے تھا، اسے کم کر کے 25 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل وفاقی ہائیر ایجوکیشن کمیشن ملک بھر میں موجود 160 سرکاری جامعات کو مقدور بھر فنڈز فراہم کرتا تھا۔ اس کٹوتی کے بعد وفاقی کمیشن کا فنڈ صرف وفاق کے زیر انتظام چلنے والی جامعات پر خرچ ہوگا ۔یعنی اس میں صوبائی یونیورسٹیوں کا کوئی حصہ نہیں ہو گا ۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمارے ہاں شعبہ تعلیم کیلئے مختص بجٹ پر بحث جاری ہے۔ ہمیشہ یہ مطالبہ دہرایا جاتا ہے کہ ہماری حکومتوں کو تعلیم کے شعبے کیلئے ذیادہ بجٹ مختص کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ہم ملائشیا ء کی مثال دیتے ہیں کہ جب مہاتیر محمد نے حکومت سنبھالی تو تعلیم کے شعبے کے لئے بھاری بھرکم بجٹ مخصوص کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملائشیا نے برق رفتاری سے ترقی کی منازل طے کیں۔ آج دیگر ممالک سے طالب علم نسبتا سستی اور معیاری تعلیم کے حصول کیلئے ملائشیاء کا رخ کرتے ہیں۔ ادھر ہمارا یہ حال ہے کہ پاکستان خطے میں موجود تمام ممالک سے کم یعنی جی۔ڈی ۔پی کا 1.7 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ بھارت کا مقابلہ تو ہم نے کیا کرنا، پاکستان کے بطن سے جنم لینے والا بنگلہ دیش بھی اس ضمن میں ہم سے آگے ہے۔ہمارے ہاںانتخابات کا موسم آتا ہے تو تمام سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں شعبہ تعلیم کی اصلاح احوال کے بلند بانگ دعوے اور اعلانات کرتی ہیں۔ مگر جب انہیں حکومت ملتی ہے اور عملی طور پر اقدامات اٹھانے کا موقع میسر آتا ہے تو انہیں اپنی معاشی مجبوریاں اور مالی مشکلات یاد آ جاتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا ملک اقتصادی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ تاہم تفہیم کا پہلو یہ ہے کہ شعبہ تعلیم پر ہماری نوجوان نسل کے مستقبل کی عمارت کا دارومدار ہے۔ اس اہم ترین عمارت پر خرچ کرنا چاہیے۔ آخر تمام تر مالی مشکلات کے باوجود ہم اپنے دفاع پر بھی تو بھاری بھرکم بجٹ خرچ کرتے ہیں۔ کوئی حکومت دفاعی بجٹ پر کمپرومائز نہیں کرتی۔ ارباب اختیار کو سمجھنا چاہیے کہ تعلیم کی اہمیت بھی کسی طور دفاع سے کم نہیں ہے۔ لہذا لازم ہے کہ معاشی مجبوریوں سے قطع نظر شعبہ تعلیم پر بھی خرچ کیا جائے۔
ہر سال جب قومی بجٹ بنتا ہے تو ہائیر ایجوکیشن کمیشن حکومت سے بجٹ بڑھانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس مرتبہ کمیشن کا مطالبہ تھا کہ اس کا فنڈ 65 ارب روپے سے بڑھا کر 126 ارب روپے کر دیا جائے۔ حکومت نے فنڈ بڑھانے کے بجائے، الٹا اس میں مزید کمی کر دی ہے۔ہماری سرکاری جامعات کا حال کونسا ڈھکا چھپا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ سر ڈھانپیں تو پاوں سے چادر سرک جاتی ہے۔ ہر مہینے تنخواہیں دینے میں ہی سرکاری جامعات نڈھال ہو جاتی ہیں۔ اوپر سے بھاری بھرکم پنشن کا بوجھ بھی ڈھونا پڑتا ہے۔ بیشتر جامعات خسارے میں ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ پنجاب یونیورسٹی جیسا ادارہ بھی تنخواہوں اور پنشن کا بوجھ بمشکل اٹھا رہا ہے۔ انتظامیہ کو ہر مہینے باقاعدہ جوڑ توڑ کرنا پڑتی ہے۔ جب ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے ملنے والی امداد یا گرانٹ بھی بند ہو جائے گی تو یہ جامعات کس طرح زندہ رہیں گی؟۔ ایک طرف ہم سب چاہتے ہیں کہ شعبہ تعلیم میں بہتری آئے۔ اہل دانش تنقید کرتے ہیں کہ پاکستانی جامعات عالمی درجہ بندی میں اتنا پیچھے کیوں ہیں۔ یہ تنقید بھی ہوتی ہے کہ یونیورسٹی پروفیسر پالیسی سازی میں حکومت کی معاونت کیوں نہیں کرتے۔ یہ سوال بھی کہا جاتا ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں عالمی سطح کے سائنسدان پیدا کرنے میں کیوں ناکام ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ جامعات کو مالی آسودگی کی فراہمی میں معاونت نہیں کریں گے تو وہ کیونکر معیار اور دیگر تعلیمی معاملات کی طرف توجہ مرکوز کر سکیں گی۔

اس وقت شہباز شریف صاحب وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں۔ آپ خواہ سیاسی طور پر ان سے اختلاف کریں، تاہم تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب انہو ں نے تعلیم کے شعبے پر خصوصی توجہ دی تھی۔ دانش اسکول قائم کئے۔ پیف کے توسط سے غریب اور ذہین طالب علمو ں کے لئے بھاری بھرکم وظائف دئیے۔ لیپ ٹاپ سمیت مختلف اسکیموں کو متعارف کروایا۔ بلوچوں کے لئے پنجاب میں تعلیم کے دروازے کھول دئیے۔ ان کے دور میں پوزیشن لینے والے بچوں کو غیر ملکی تعلیمی دورے کروائے گئے۔ اب جبکہ وہ وزیر اعظم ہیںتو امید کی جارہی تھی کہ وہ تعلیم کے لئے مختص بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کریں گے۔ بالکل اس طرح جیسے مسلم لیگ(ن) کے گزشتہ دور حکومت میں ہوا تھا۔ لیکن شہباز حکومت نے تعلیم کے لئے مخصوص بجٹ میں کمی کا عندیہ دیا ہے۔

یقین جانیے کہ اس کٹوتی کے بعد سرکاری جامعات کا سانس لینا مشکل ہو جائے گا۔ محاورتا نہیں، واقعتا جامعات کو بند کرنا پڑے ہیں۔ جامعات کی انتظامیہ وفاقی کمیشن سے امداد نہ ملنے کی صورت میں اپنے اخراجات کیسے پورے کرئے گی؟اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہیں کیسے دے گی؟ بجلی کے بھاری بھرکم بلز کیسے بھرے گی؟ سستے داموں طالب علموں کے لئے چلنے والی بسوں کا پٹرول کہا ں سے ڈالوائے گی؟۔جامعات کے پاس صرف ایک حل ہے۔ وہ یہ کہ فنڈز کی کمی کو پورا کرنے کیلئے طالب علموں کی فیسوں میں اضافہ کر دے۔ یعنی سرکاری یونیورسٹیاں، پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے برابر فیسیں وصول کرنے لگیں۔ کیا حکومت کو یہ حل قابل قبول ہو گا؟ کیا اس اضافے کے بعد غریب کا بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہو گا؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سرکاری جامعات میں پڑھنے والے طالب علم غریب اور سفید پوش گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ فیسیں بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے ہاتھ سے غریب طالب علموں کے لئے اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کر دیں گے۔
اگر حکومت غریب کے بچے پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھلے رکھنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ وفاقی حکومت اس فیصلے پر نظر ثانی کرئے۔ کٹوتی کا فیصلہ کلی یا جزوی طور پر واپس لے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں یہ بھاری پتھر اٹھائیں۔اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ یوں بھی صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ اس ترمیم کا حوالہ دے کر وفاقی حکومت فنڈز کی بندش کا جواز پیش کر سکتی ہے۔ سو صوبائی حکومتیں اپنے صوبے کی یونیورسٹیوں کو فنڈز مہیا کریں۔ پنجاب میں اس وقت محترمہ مریم نواز شریف کی حکومت ہے۔ میں ذاتی طور پر آگاہ ہوں کہ وہ نوجوانوں کی تعلیم اور ان کو سہولیات فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ سنتے ہیں کہ حکومت پنجاب نے سرکاری جامعات سے وفاقی کمیشن سے ملنے والے فنڈز کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔ اب یا تو وزیراعلیٰ پنجاب یہ فنڈز مہیا کریں یا وزیر اعظم (اور اپنے چچا) شہباز شریف کو فنڈز کی کٹوتی کا فیصلہ واپس لینے پر قائل کر یں۔ اس وقت پیپلز پارٹی بھی حکومتی سیٹ اپ میں حصہ دار ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے شہباز شریف صاحب سے اچھے تعلقات ہیں۔ وہ بھی وزیر اعظم کو اس ضمن میں قائل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ بھی وفاقی حکومت سے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ صوبوں کی مالی مشکلات کے پیش نظر فنڈز میں کٹوتی کا فیصلہ واپس لے۔
ان میں سے کوئی آپشن بروئے کار نہیں آتا اور مالی مسائل کا بوجھ ڈھونے کے لئے جامعات کی امداد نہیں کی جاتی تو پھر خدانخواستہ ہماری اعلیٰ تعلیم اور جامعات کی حالت میں مزید ابتری کے لئے تیار رہیے۔ سرکاری جامعات دیوالیہ ہو جائیں اور دنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی کا باعث بنیں ، اس سے بہتر ہے کہ حکومت ان کو اپنے ہاتھوں سے تالے لگا دے۔

تبصرے بند ہیں.