جھوٹ کیوں بولیں فروغ مصلحت کے نام پر

27

قائد ا عظم محمد علی جناحؒ  نے پاکستان میں سچ کی سیاست کی بنیاد رکھی تھی لیکن آج اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان میں جھوٹ، کرپشن، لوٹ کھسوٹ کو بے پناہ فروغ حاصل ہوا ہے، آج ہم اس کا پھل کھارہے ہیں، پاکستان میں جھوٹ کرپشن وغیرہ کا نظام اس قدر مضبوط ہوچکا ہے کہ اب کسی بڑے چور پر گرفت محض ایک خواب نظر آتا ہے، شور اٹھتا ہے، آندھی چلتی ہے اور بس؟ ہمارے سیاستدان اس قدر تجربہ کار ی سے جھوٹ بولتے ہیں کہ سچ لگنے لگتا ہے جھوٹ کو ہم نے زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے کسی کا گھر اجاڑ دیں اپریل فول کے نام پر کسی کے پیارے کی جان چلی جائے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہمیں تو شغل کرنا آتا ہے اور یہ شغل سیاست میں کچھ زیادہ ہی پروان چڑھ رہا ہے انتخابات میں ایسے ایسے وعدے کیے جاتے ہیں کہ جن کا پورا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے ایک وقت ہوتا تھا صرف اخبارات کا طوطی بولتا تھا بندہ کچھ کہہ کر مکر بھی جاتا تھا کہ یہ بات تو میں نے کہی ہی نہیں لیکن آج سوشل میڈیا کا دور ہے کوئی مکر نہیں سکتا باقاعدہ ریکارڈ سامنے رکھ کر کچا چٹھا کھول دیا جاتا ہے جیسے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہتے نہ تھکتے تھے نے پچھلے دنوں سیاسی داؤ کھیلتے ہوئے اسے سیاسی بیان قرار دیدیا، انہوں نے منطق جھاڑی کہ دس، بارہ سال بانی پی ٹی اور ہم مد مقابل رہے ہیں، یہودی ایجنٹ کہنا گالی نہیں ہے بلکہ یہ احتجاج کا عنوان ہے، جے یو آئی سربراہ فرماتے ہیں مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا کہ میں یہودی ایجنٹ کیوں کہہ رہا تھا، پی ٹی آئی والے پہلے آتے تو بھی ان کے سامنے اپنا موقف رکھتا، آج بھی رکھا ہے،بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے امکان کے سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں، مذاکرات سے انکار نہیں کریں گے، مذاکرات کا ماحول بنتا ہے تو حوصلہ افزائی کریں گے پھر اگلے دن مکر گئے یہ سیاسی بیان تھا ان کے نزدیک شائد یہ معمولی بات ہے کہ کسی کو آرام سے یہودی کہہ دینا؟ اگلے دن بیان بدل لیا جاتا ہے یہ نہیں یہ کہا تھا یہ تو نہیں کہا تھاکہہ کر مزید 100 جھوٹ بولا جاتا ہے اکثر لوگ محض مذاق اور تفریح کے لئے زبان درازی کرتے ہیں، حالانکہ نبی کریم ﷺ نے مذاق میں بھی جھوٹی باتیں زبان سے نکالنے سے منع فرمایا ہے چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ افسوس ہے اس شخص پر جو محض لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے جبکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان کوئی بات بلا تحقیق کے اپنی زبان سے نہ نکالے، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر اس کی جواب دہی کے لیے تیار رہے، ارشادِ خداوندی ہے، ترجمہ: اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل در آمد مت کیا کر، کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی پوچھ ہوگی، آدمی کو چاہیے کہ کان، آنکھ اور دل و دماغ سے کام لے کرکوئی بات منہ سے نکالے، سنی سنائی باتوں پر عمل درآمد شروع نہ کردے،انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں، پھرایسی یوایس بی ہے کہ جس میں وائرس بھی نہیں آتا میں ریکارڈ کے مطابق محفوظ کر کے اللہ کے سامنے پیش کیا جائے کہ جس پر قیامت کے دن جزا و سزا دی جائے گی، ایک دیہاتی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ مجھے ایک اونٹنی دے دیجئے، آپؐ نے فرمایا کہ ہم تم کو ایک اونٹنی کا بچہ دیں گے، اس نے کہا: یا رسول اللہ میں بچے کو لے کر کیا کروں گا،مجھے تو سواری کے لئے ضرورت ہے،آپؐ نے فرمایا کہ تمہیں جو بھی اونٹ دیا جائے گا وہ کسی اونٹنی کا بچہ ہی تو ہوگا،یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مذاق فرمایا اور ایسا مذاق جس میں خلافِ حقیقت اور غلط بات نہیں کہی تو مذاق کے اندر بھی اس بات کا لحاظ ہے کہ زبان کو سنبھال کر استعمال کریں اور زبان سے کوئی لفظ غلط نہ نکل جائے اور آج کل ہمارے اندر سچے جھوٹے بیانیے پھیل گئے ہیں خوش گپیوں کو بطور مذاق بیان کردیتے ہیں،یہ سب جھوٹ کے اندر داخل ہے پچھلے دنوں عدالت میں عمران خان کی اہلیہ پیش ہوئیں اور انہوں نے عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا پھر وکلا سے مشاورت کے بعد ڈیڑھ گھنٹے بعد اعتماد کا اظہار کردیااس میں بھی جھوٹ موٹ کا عنصر شامل ہے تازہ ترین اور ہوشربا سانحہ پراپرٹی لیکس کا ہے جس میں بڑے بڑے شرفاء کی دبئی میں اربوں کی جائیدادیں ہیں کسی نے نہیں پوچھا کہ یہ پیسا کہاں سے آیا اور کیسے آیا اور پھر باہر کیسے گیا کون پوچھے گا پوچھنے والے تو سب مامے چاچے اور تائے ہیں؟ قانون کے مطابق آف شور کمپنی بنانا اور ملک سے باہر سرمایہ کاری کرنا جرم نہیں لیکن ہمارے ہاں یہ سرمایہ کاری اپنی کرپشن،ٹیکس چوری اور حرام کی آمدنی کو چھپانے کیلئے کی گئی اور بیرون ملک جائیدادیں خریدی گئیں، ان کمپنیوں اور جائیدادوں کے حوالے سے اس قدر جھوٹ بولا جارہا ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے بات چلی تھی مولانا کے بیان سے کہاں تک جا پہنچی کہنا بس اتنا ہے کہ مولانا کے لاکھوں کی تعداد میں چاہنے والے ہیں انہیں جھوٹ بھی سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے کہ ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے آخر میں بس اتنا ہی کہ
جھوٹ کیوں بولیں فروغ مصلحت کے نام پر
زندگی پیاری سہی لیکن ہمیں مرنا تو ہے

تبصرے بند ہیں.