ہتک عزت بل 2024، شاباش مریم نواز

26

آخر خدا خدا کر کے وہ وقت آ ہی گیا جب غیر حقیقی اور جھوٹ پہ مبنی خبروں اور بلا رنگ و نسل و مذہب ہر خاص و عام کی عزت اور ذاتی زندگی کو نقصان سے بچانے کے لئے پنجاب اسمبلی نے ہتک عزت بل 2024 بھاری اکثریت سے منظور کر لیا۔ اس بل کی روح سے اب جھوٹ پہ مبنی کسی بھی خبر، خود ساختہ تجزیے کو پرنٹ، الیکٹرانک، یو ٹیوب سمیت سوشل میڈیا کی مدد سے اگر پھیلایا گیا تو ایسا کرنے والے کیخلاف متاثرہ فریق ہتک عزت پہ قانونی کارروائی کر سکے گا اور جرم ثابت ہونے پہ جھوٹ کے موجد کو 30 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکے گا۔ اس ضمن میں عدالتی کارروائی کے لئے خصوصی ٹریبونل قائم ہوں گے جو ہر کیس کا فیصلہ 6 ماہ کے اندر کرنے کے پابند ہوں گے۔ اسی طرح عوام کے ساتھ ساتھ آئینی عہدوں پہ موجود شخصیات کے خلاف جھوٹے الزام پر ہائی کورٹ کا بینچ کیس سن سکے گا۔
گو کہ اپوزیشن سمیت، میڈیا والوں نے اس قانون کی مخالفت کی مگر حقیقت تو یہی ہے کہ اس قانون کے آنے اور سخت سزائیں سنائے جانے کے خوف سے اب جھوٹ کہنے، لکھنے اور اسکو پھیلانے والوں کا خاتمہ ضرور ہو گا۔ سنسنی خیز مواد میں کمی آئیگی اور پیسے یا کسی خاص ایجنڈے کے تحت لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کا دھندا بھی بند ہو گا۔ ایسے قوانین دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں موجود ہوتے ہیں اور معاشرے کے سدھار اور قوموں کی ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

بد قسمتی سے وطن عزیز میں ڈالروں کی خاطر اور ایک مخصوص سوچ کے تحت چند یو ٹیوبرز نے جس طرح پچھلے چند سال میں سنسنی پھیلائی اور پورے معاشرے کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کئے رکھا، وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔ یہ لوگ ویوز اور لائیکس کی خاطر ہر کسی کی عزت و انا کو ٹھیس پہنچاتے بلکہ روندتے ہوئے بڑھتے گئے۔ کبھی کسی پہ کسی کے قتل کی سازش کا الزام لگا دیا گیا تو کبھی کسی کو کرپٹ کہ دیا گیا۔ کبھی کسی قومی ادارے کے سربراہ پہ الزام لگایا گیا تو کبھی اس کے اہل خانہ پہ۔ ان لوگوں کے شر سے نا تو کوئی ادارہ محفوظ رہا اور نا ہی کوئی خاص و عام۔ اسی طرح سوشل میڈیا جس میں بالخصوص ٹک ٹاک، فیس بک، انسٹاگرام اور ایکس جیسے میڈیم قابل ذکر ہیں۔ ان کا انتہائی ناجائز استعمال کیا گیا۔ کہیں کسی عزت دار خاتون کی ایڈٹ شدہ نامناسب تصاویر شائع کر دی گئیں تو کہیں مرد حضرات پہ گھٹیا ترین الزامات لگا دیئے گئے۔ نتیجتاً کئی ہنستے بستے گھرانے اجڑ گئے، اس ظلم و زیادتی کا شکار مرد و خواتین کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے۔ میڈیا کا اس طرح سے شتر بے مہار استعمال معاشرے میں تنزلی کا باعث بنا۔ بلا شبہ اس ضمن میں قانون بنانے اور اسے فوری لاگو کرنے کی انتہائی ضرورت تھی۔

اپوزیشن کے احتجاج کی تو سمجھ آئی کہ ان کے انتشاری ایجنڈے پہ کاری ضرب لگی ہے اور اب ان کے پاس زخموں کو چاٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ لیکن صحافیوں کے احتجاج کی کوئی وجہ نا تھی۔ ہاں صحافت کا لبادہ اوڑھے چند اشخاص کو یو ٹیوب کی جاتی آمدنی کا دکھ تو ہو سکتا ہے لیکن قرین قیاس تو یہی تھا کہ صحافت سے جڑے بڑے نام تو ایسے کسی بھی قانون کے حامی ہوں گے لیکن افسوس ہوا کہ ایک بہت بڑی تعداد نے اس قانون کی مخالفت کی۔ خیر آج نہیں تو کل وہ بھی اس کی افادیت جان جائینگے۔

یہ قانون وقت کی اہم ضرورت تھا اور بلاشبہ اس کا سہرا ایک دفعہ پھر پنجاب حکومت کے سر پہ سجا۔ مریم بی بی کی حکومت نے اس قانون سازی سے جہاں پنجاب کے عوام کی جان و عزت کو محفوظ بنایا وہیں جھوٹ کے بیوپاریوں کی چلتی دکانیں اور ناحق کمائے گئے ڈالروں کی ریل پیل بھی بند کر دی۔ کاش کہ اس کام میں مرکزی حکومت پہل کرتی تو آج صوبوں کو یہ کام نا کرنا پڑتا۔ لیکن مریم حکومت نے یہ کر کے باقی صوبوں کے لئے بھی مثال قائم کر دی ہے کہ اگر وہ امن چاہتے ہیں، اپنے عوام کی عزتوں کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ایسے قوانین پہ قانون سازی اور ان کا فوری اطلاق کرائیں۔
شاباش مریم بی بی۔

تبصرے بند ہیں.