چندججز ہی زیربحث کیوں؟

19

عزت اور بے توقیری کا ہر انسان خود ذمہ دار ہوتا ہے۔ یہ انسان کے اعلیٰ اوصاف کا اظہار ہے جس سے وہ باعث عزت اور لائق احترام ٹھہرتا ہے یہ بھی خود انسان کے اعمال بد یا بعض رویے اور اقدامات سے جنم لینے والا تاثر ہوتا ہے جو اس کیلئے عزت واحترام کی نفی کا باعث بنتا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے اچھے اعمال کی اچھی تفہیم نہ ہوسکے اور اس سے پیدا ہونے والی سوچ یا تاثر ہی اذہان میں راسخ ہو جائے جسٹس منیر سے جسٹس عطا عمر بندیال اور ساتھی ججوں کے حوالے سے ان کے اقدامات ریمارکس سے جو تاثرات پیدا ہوئے وہی ان کے حوالے سے عمومی ردعمل کی بنیاد ہیں مثلاً اگر جسٹس منیر ایک فوجی آمر کے قابض اقتدار کو نظریہ ضرورت کی بیساکھی دینے کی بجائے استعفیٰ دے دیتے تو عدلیہ کی تاریخ میں بلند مرتبہ ہیروکا درجہ حاصل کرسکتے تھے مگر چندسال کی نوکری کیلئے انہوں نے خود کو زیرو کر لیا۔ لمحات موجود میں ثاقب نثار سے عمر عطا بندیال تک عدلیہ پر جسٹس منیر کے کردار کا رنگ کچھ مختلف انداز سے نظر آتا ہے جسٹس منیر نے فوجی قیادت کے ساتھ کھڑے ہوکر بلاواسطہ فائدہ پہنچایا جبکہ بعدکے بعض ججوں نے عمران خان کو اقتدار میں لانے کیلئے فوجی قیادت کے منصوبے میں رنگ بھرا۔ پھر کسی لیڈر اور اس کی پارٹی کیلئے ریلیف دینے کی منفرد تاریخ رقم کردی گئی۔ یہ غور طلب ہے کہ اے آر کارنیلس، بھگوان داس، دراب پٹیل، خلیل الرحمن رمدے، اعجاز چودھری، سعید الرحمن اور دیگر ججز بھی تو اسی عدلیہ سے تعلق رکھتے ہیں، وہ کبھی توہین ہونے کے تکلیف دہ احساس کا شکار کیوں نہیں ہوئے جسٹس رفیق تارڑ (ن) لیگ کی جانب سے صدر مملکت کا عہدہ قبول کرنے کے بعد سیاسی مخالفین کی تنقید کا ہدف بنے بطور جسٹس ان کے کردار پر انگشت نمائی کا کوئی داغ دھبہ نہیں ہے۔ ثاقب نثار، آصف کھوسہ، گلزار احمد اور عمرعطا بندیال، ان کے ساتھی جج، اعجاز الاحسن، مظاہر علی اکبر نقوی، اور دیگر تنقید کا نشانہ بنے ہیں، خوداحتسابی کے عمل سے خود ہی گزرنا چاہئے۔ فیصل واوڈا جو دوہری شہریت کے حوالے سے پارلیمنٹ کی رکنیت سے محرومی کا صدمہ اٹھائے ہوئے ہے اس کے ذہن میں جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ رکھنے کے باوجود جج کی مسند پر فروکس رہنا سوال تو بن سکتا ہے۔

رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کی یہ وضاحت کہ ملک کے آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے گرین کارڈ رکھنے والا جج نہیں ہو سکتا دوسرے جسٹس بابر ستار نے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو بتادیا تھا کہ ان کے پاس امریکی گرین کارڈ سفری سہولت کیلئے ہے تو کیا عام ذہنوں میں یہ سوال اٹھنا غیر فطری ہے کہ نوازشریف کا اقامہ بھی تو سفری سہولت کیلئے تھا کیا نوازشریف نے دبئی جاکر کسی فیکٹری میں کام کرنا تھا پھر یہ اقامہ جاری کرنے والے دبئی کے حکام کیا اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ یہ اقامہ صرف سفری سہولت کیلئے بنوایا جارہا ہے دبئی کے اقامہ کی شرط میں ہے کہ وہ شخص اس ملک کی کسی فیکٹری، دکان، ادارے، ہوٹل وغیرہ میں باقاعدہ تنخواہ دار ملازم ہو، بیٹے کی فیکٹری کے باعث نوازشریف نے یہ شرط یا تقاضا پورا کرکے اقامہ بندالیا اسے ایک، دو، یا پانچ دس سال میں تاحیات نااہلی سزادیدی گئی حالانکہ پاکستان کے آئین میں ایسا کچھ تحریر نہیں ہے۔
جب پورا ملک کھلی آنکھوں سے یہ دیکھے گا کہ یہ عمران ایک ایسا انوکھا ملزم ہے کہ تشریف آوری میں ایک سے زائد بار تاخیر ہو اور جج صاحب برہمی کی بجائے انتظار کی جان گسلی گھڑیاں (محاورے کے طورپر) خوش دلی سے گزاریں جب ادھر گرفتاری ادھر ضمانت پر رہائی کے حکم کا اجراے چشم فلک سے پیارے پاکستان میں ایسی عدالتی سبک رفتاری کا کب مشاہدہ کیا تھا۔ جب ایک ملزم کے عدالت میں قدم رنجہ فرمانے پر گڈ ٹو سی یو کے مسرت آمیز الفاظ منصب اعلیٰ کی قلبی مسرت کو نمایاں کررہے ہوں۔ جب بعض ججوں کی مہربانیوں کے طفیل ملک کی جیلوں میں بند قیدی عمران جیسی سہولیات کا باقاعدہ مطالبہ کرنے لگیں تو پھر ذہنوں میں سوالات تو اٹھیں گے اگر یہ سوالات توہین کے زمرے میں آتے ہیں تو جناب عای، آپ صاحب اختیار ہیں ایسے سوالات اٹھانے والے ذہن کے جسم کو تو ضرور قید کردیں گے مگر ذہن تو قید نہیں کئے جاسکتے اس لئے بعض ججوں کے رویے اور طرز عمل سے ایسا تاثر ہی کیوں جنم لے کر لوگوں کی ذہنی رو بہکنے لگے، مجھ سمیت جو بھی توہین جج کا مرتکب ہورہے پھانسی دے دی جائے مگر بعض ججوں کے بھی تو پاؤں پکڑ لئے جائیں جن کے عدالتی رویوں اور ریمارکس سے دامن عدل پر کچھ دھبے نمایاں ہوتے ہیں۔

کیا پورے ملک کی عدلیہ کیلئے یہ باعث تشویش نہیں ہونا چاہئے کہ ٹیربان کیس کی سماعت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جو پہلے ہی فیصلے کی سرگوشیاں گونجنے لگی ہیں۔ خدا نہ کرے فیصلے نے ان سرگوشیوں سے مطابقت حاصل کرلی تو قصور وار کون ٹھہرایا جائے گا۔

نواز شریف نے ثاقب نثار کی اس آڈیو کا اپنے پاس ہونے کا ذکر پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں کیا جس میں ثاقب نثار کی جانب سے نوازشریف اور مریم نوازشریف کو سیاسی منظر سے ہٹاکر عمران کو لانے کی بات کی جارہی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے یا نہیں ہے مگر منظر نامہ ایسا ہی اجاگر ہواتھا۔ کسی کو اقتدار سے محروم کرنا کسی کو اقتدار میں لانا کیا کسی جج کے منصبی فرائض کا تقاضا ہے۔ جب اسٹیبلشمنٹ کی جنبش ابروپر یہ سب کیا گیا تب اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی دوہائی کیوں نہیں دی گئی۔ جس طرح 9مئی کے ملزموں کی دھڑا دھڑ ضمانتوں اور رہائیوں کا سلسلہ جاری ہے یہ ملزمان قومی وصوبائی اسمبلیوں وسینٹ کے ارکان اور ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ اور وزراء کے عہدوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں جس سے 9مئی کے مدعی (اسٹیبلشمنٹ) کا کیس بظاہر کمزور پڑ رہا ہے اس حوالے سے تو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی کوئی شکایت منظر عام پر آئی نہ ایک یا دو ججوں کو کوئی خط تحریر کیا ہے پھر عام اذہان مداخلت کا الزام کیسے قبول کر سکتے ہیں۔

سابق امریکی صدر ٹرمپ کی ایک آڈیو عدالت میں پیش کی گئی ٹرمپ نے اپنی آڈیو ہونے کا اعتراف کیا جج سے اس پر فیصلہ کرایا اس نے بار بار یہ سوال نہیں اٹھایا کہ یہ آڈیو ریکارڈ کس نے کی ہے نہ ہی اس کا فرنزاک ٹیسٹ کروانے کا سوال اٹھا اور نہ ہی جج نے کہا کہ ایسے تو میری اور آپ (وکیل) کی آواز سے آڈیو بنائی جاسکتی ہے ہوسکتا ہے یہ باریک بینی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے ہو، لیکن جب دیگر کیسوں میں ایسی باریک بینی نظر نہ آئے تو گستاخی معاف سوال تو اٹھیں گے۔ جبکہ مسلمان جج کیلئے تو انصاف کا معیار 14سو 45سال پہلے مقرر کردیا گیا کہ اگر بنت، محمدؐ بھی چوری کرے گی تو اس کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں گے، مسند عدل پررونق افروز ہونے والوں کو ایک دن اس بڑی عدالت کے کٹہرے میں پیش ہونا ہو گا۔ وہاں نہ عمران کی سوشل میڈیاکے ذریعہ جعلی ”عوامی مقبولیت“ کام آئے گی نہ پی ٹی آئی کا ٹرولنگ بریگیڈ اثر انداز ہوسکے گا۔ منصب اعلیٰ پاکستان کی خدمت میں بصد عزت واحترام اس سوال کی جسارت ہے کہ پاکستان کی پانچ ہائی کورٹس ایک سپریم کورٹ میں کتنے جج صاحبان ہیں، ان میں دوایک پشاور،سندھ، تین چار لاہور ہائی کورٹ اور زیادہ تر اسلام آباد ہائی کورٹ کے اکثر ججز حضرات ہی کیوں زیر بحث آتے ہیں، ان پر ہی مشکوک وشبہات کے سائے کیوں ڈالے جاتے ہیں، جناب محترم اگر پاکستان کے 22کروڑ سے زائد عوام پابند ہیں کہ عدلیہ کا احترام کریں بصورت دیگر مستوجب سزا ٹھہریں گے تو کیا عدلیہ کے وابستگان کو خود عدلیہ کے وقار کو اپنے طرزعمل، رویوں اور ریمارکس کے ذریعہ مجروح کرنے لوگوں کے ذہنوں میں جو منفی تاثر کا سبب بن سکے سے شعوری طورپر اجتناب نہیں کرنا چاہئے۔

ملک جن حالات کا شکار کردیا گیا ہے اس حوالے سے رانا ثناء اللہ کا فارمولہ جو دراصل (ن) لیگ کی جانب سے صدر آصف زرداری فوری قدم اٹھائیں اور فوج اور عدلیہ کی قیادتوں سے رابطہ کرکے ایسا راستہ نکالنے کی کوشش کریں جس سے کسی ادارے کا وقار مجروح نہ ہو۔

تبصرے بند ہیں.