نیا تماشا، نئے کردار، خطرناک سازش کا انکشاف

45

تماشا ختم نہیں ہوا، دوسرے خطرناک مرحلہ میں داخل ہو گیا، کب ختم ہو گا بقول افتخار عارف ”جب پردہ گرے گا تب تماشا ختم ہو گا“۔ ریاست کے دو اہم ادارے آمنے سامنے، پارلیمنٹ میں روز ہنگامہ آرائی، آزاد کشمیر کے پُر تشدد ہنگامے خدا خدا کر کے ختم ہوئے، چار جانیں گئی۔ آٹا، بجلی سستے ہو گئے، اسٹیبلشمنٹ اور سہولت کاروں میں لڑائی عدالت عظمیٰ میں آ پہنچی۔ ”ان کے خط آنے لگے یعنی کہ خط آنے لگے“ محبت نامے لکھنے والے چار خاموش دو سرگرم، ایک اور میدان میں کود پڑے، اداروں کی جانب سے دباؤ کا الزام۔ جب دباؤ ڈالا گیا اس وقت چپ رہے۔ فریق ثانی بھی خم ٹھونک کر مقابلہ پر اتر آئے ایک ہی دن میں تین چار پریس کانفرنسیں، فیصل واوڈا اور دیگر نے ثبوت مانگے۔ 2013ء سے 2021ء تک کا ذکر کرنے پر جلتے رہے۔ بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں گھن گرج، سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے کر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت میں طلب کر لیا۔ خان حال مقیم اڈیالہ جیل، ہار ماننے کو تیار نہیں کیوں؟ سہولت کار عشاق موجود ہیں۔ ایک گیا دوسرا حاضر آہستہ آہستہ منظر عام پر آ رہے ہیں۔ پہلے وکلا میدان میں اترے اب سہولت کار ”ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے“ کا وظیفہ پڑھتے طاقتوروں کو چیلنج کرنے لگے۔ پانچ پیاروں کے ٹولے میں سے ایک کو نکال دیا گیا۔ بے چارہ شیر افضل مروت استعمال ہوا اور مروت میں مارا گیا۔ البتہ سہولت کار بڑھ گئے۔ خان کی پیٹھ مضبوط، پربتوں سے ٹکرانے کا حوصلہ دو چند، خطرناک پیغام جیل کی دیواریں توڑ کر باہر آ گیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے زبان زد عام ہوا۔ حافظ صاحب کو خط لکھنے کا ارادہ تھا۔ رابطے کی یہ کوشش بھی ناکام ہوئی۔ جواب ملا فضول کی مشق نہ کریں ردی کی ٹوکری میں جائے گا۔ تب پیغام کی سوجھی، نئے نئے آئیڈیاز کون دیتا ہے؟ جیل کے باہر سے ”آتے ہیں غیب سے یہ مضامین نئے نئے“ ملاقاتیوں پر کوئی پابندی نہیں دن میں چھ چھ ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ وہی لے کر آتے ہیں، سہولت کار سلامت، پابندی لگنے نہیں دیتے۔ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں ضمانت ہو گئی باقی کتنے رہ گئے۔ دو چار ہی ہوں گے عشاق کو یقین کہ ”جلد دیدار عام ہو گا“ دیدار عام پر یاد آیا بہت دنوں سے لیڈر کی زیارت نہیں ہوئی مقدمات کی سماعت جیل کے اندر ہی ہو رہی ہے۔ نیب ترامیم کے کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے طلب کر لیا گیا۔ پیش ہو گئے دل بے قرار کو قرار آیا۔ ”ترس رہی تھیں تیری دید کو جو مدت سے وہ بے قرار نگاہیں سلام کہتی ہیں“ مگر وائے ناکامی یہ پیشی بھی کوئی پیشی تھی۔ ”گریبان چاک شرٹ کے بٹن کھلے چہرے پر پریشانی جھریاں عمر کی چغلی کھانے لگیں ”ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا“ دل کے پھپھولے نہ پھوڑ سکے، ایک دو سوال کے جواب اور پھر خاموشی دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے۔ تصویر لیک ہو گئی۔ امریکا میں بیٹھے فیصل آباد کے شہباز گل کو تشویش ہوئی دہائی دی خان کا وزن کم ہو رہا ہے۔ عوام ساتھ دیتے تو یہ نہ ہوتا۔ عوام بتدریج سمجھ رہے ہیں سڑکوں پر نکلنے کی سات کالیں ہو گئیں۔ پیار کا افسانہ سہولت کاروں نے چھیڑا ہے۔ انجام کوئی اور لکھے گا۔ رہائی کا خواب دیکھنے والے مایوس دو اہم مقدمات تیار کر لیے گئے ہیں۔ خصوصی عدالتوں کے لیے قانون سازی پر غور جاری ہے۔

خان کے پیغام میں کیا ہے؟ دبی دبی حسرتیں، تشنہ خواہشیں، مذاکرات نہ کرنے پر دھمکیاں، انتشار، فسادات، خونریزی کی نئی سازش، پیغامات اور ٹوئٹس کے ذریعے ذہن سازی کر رہے ہیں۔ حالات جس نہج پر پہنچائے جا رہے ہیں اللہ نہ کرے یہ سازش 9 مئی سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہو گی۔ رؤف حسن نے کہا خان سے بات کرنا ہی پڑے گی۔ علی محمد خان نے حالات بدترین ہونے کی خبر دی۔ گوہر ایوب کا مطالبہ مقتدرہ سیاست سے الگ رہے۔ خواجہ آصف نے دادا ابو کے حوالے سے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تو کئی دن تڑپتے رہے۔ ایک طرف سابق صدر عارف علوی کو مذاکرات کا مشن سونپا دوسری طرف سیاست سے الگ رہنے کا مطالبہ، دوغلاپن اور منافقت اسی کو کہتے ہیں۔ جیل سے آنے والا 14 مئی کا پیغام واضح، کہا گیا ”جون جولائی میں حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔“ (اشارہ بجٹ کے بعد کی صورتحال کی طرف، بجلی تین روپے یونٹ ہونے کے بجائے آئی ایم ایف کے مطالبہ پر مزید مہنگی ہو گی) کہا گیا جو انتشار آزاد کشمیر میں نظر آیا وہ پورے ملک میں پھیلنے کا خدشہ ہے۔ اغوا (گرفتار) پر مجھ سے معافی مانگیں۔ جیل میں چکی کی مشقت نہیں تو طرفہ طبیعت کا رنگ دکھا رہی ہے۔ مذموم عزائم کھل کر سامنے آ گئے نام نہاد انقلاب کو آزاد کشمیر کے بعد ملک بھر میں پھیلانے کی سازش، بات بات میں 1971ء اور شیخ مجیب کا حوالہ، جیل کا گیٹ ٹوٹے گا باہر آؤں گا اور مخالفین کو چوراہوں پر لٹکاؤں گا۔ ”اے بسا آرزو کہ خاک شدہ“ ذمہ داران ان عزائم سے بخوبی واقف ہیں۔ پندرہ سے 16 شہروں میں فوج کے گشت کی اطلاع، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے الرٹ، یقین کامل کہ انتشار اور فسادات کی لہر کشمیر کے پہاڑوں سے اتر کر میدانی علاقوں میں نہیں پھیلے گی۔ موجودہ حکومت 23ارب کی سبسڈی دے کر آزاد کشمیر میں حالات معمول پر لانے پر مطمئن، کیا نہیں جانتی کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور وقت گزرنے کے ساتھ ہر روز کھل رہے ہیں۔ گورنر فیصل کریم کنڈی کا ناطقہ بند کرنے کی دھمکیاں اسلام آباد میں کے پی ہاؤس کی گورنر کی انیکسی پر تالے، اسلام آباد آؤ تو کہیں اور ٹھہرو، کزن کے ساتھ یہ سلوک، بڑے لیڈر کا بھی یہی وتیرہ رہا ہے۔ ماجد خان سے حفیظ اللہ نیازی اور پارٹی کے بنیادی ارکان اور محسنوں کے ساتھ سلوک تاریخ کے صفحات پر درج، ایجنڈا بڑا طویل ہے لیکن سیانے کہتے ہیں پاکستان میں نیلسن مینڈیلا یا چی گویرا بنانے کا رواج نہیں یہاں تو کوئے یار سے نکلنے والے سوئے دار ہی جاتے ہیں، منظم ادارے کو شکست دینے کا خواب پورا نہیں ہو گا، لیکن اس انتشار اور افراتفری کی سیاست سے ملکی ترقی استحکام اور معاشی بحالی کا ہدف پورا کرنے میں مشکلات اور تاخیر کا سامنا ہو گا۔ حرف آخر، دو اہم ادارے ٹکراؤ کے دہانے پر۔ انجام بھیانک، مفلوج ذہن اپنے خوابوں کی تعبیر پر بضد انجام گلستاں کیا ہو گا؟ واقفان حال کہتے ہیں خطرناک موڑ پر کسی بھی وقت ایمرجنسی کے نفاذ اور پی سی او کی آمد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

تبصرے بند ہیں.