مالیاتی سکینڈل۔۔۔زندگی موسیٰ کی انجام فرعون کا (حصہ اول)

20

انسان ناشکرا ہے، انسان ظالم ہے اور یہی انسان مسافر خانوں میں ہمیشہ آباد رہتا ہے اور پھر قبرستان میں کھڑے ہو کر بھی ہمیشہ آباد رہنے کی سوچتا ہے۔ اس بات کے باوجود وہ یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ اس کو ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے، دنیاچھوڑنا بے مقصد نہیںجینا۔ ظاہر مرتبے دھوکہ ہوتے ہیں، اتنا کرو جتنا آخرت میں حساب دے سکو۔ سکندر بھی تو خالی ہاتھ ہی تھا۔ انسان کو یہ نہیں معلوم کہ اس کے جسم کو باہر سے کوئی خطرہ ہو نہ ہو اس کے بدن کی چار دیواری اندر سے گلنا شروع ہو جاتی ہے۔ جب وہ جوانی کی دہلیز سے نکل کر بڑھاپے کے دور میں داخل ہوتا ہے اس کو نہیں پتا کہ وہ خواہشات کے بوجھ تلے کس قدر دب چکا ہے۔ دولت جمع کرنے کی خواہش ہے وہ دوزخ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اس لالچی انسان کو علم ہونا چاہئے کہ وہ جن کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے اگر وہی دنیا میں نہ رہے تو پھر عمر بھر کا کمایا ناجائز مال کدھر جائے گا۔

مال و دولت کے بہاے حکومتیں کرنے والے، لوٹ مار کرنے والے، جائیدادیں بنانے والے، بیرون ممالک دولت کے انبار لگانے والے صرف یہ جان لیں کہ ان کا ناجائز کمایا مال روز محشر حساب کتاب کے دوران ان کے گلے پڑ جائے گا۔ ان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر ندامتوں اور رسوائیوں کا رسہ تاوقت ان کے گلے پڑا رہے گا ان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ دولت عزت نہیں، خوف پیدا کرتی ہے۔ یہی انسان یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے پاس دولت کی کثریت ہو۔ بس بڑھتی ہی جائے۔ اس کے بنک اکاؤنٹ میں دولت ہی دولت ہو اور کاش یہی انسان اس کے عبرت ناک انجام سے بے خبر تاریخ پر نظر نہیں دوڑاتا۔ فرعون مال اور حکومت کے باوجود دنیا میں نیست و نابود کر دیا جاتا ہے۔ حضرت موسیٰ اختیارات کی کمی کے باوجود رب کے قریب ہو گئے۔ اب مجھے کوئی بتائے کہ اہم کون موسیٰ یا فرعون؟ میرے نزدیک اصل زندگی یہ ہے کہ زندگی فرعون کی اپنی جگہ لیکن انجام موسیٰ کا چاہئے… جبکہ دنیا میں، یہ بات طے ہے کہ زندگی فرعون کی ایک جگہ انجام موسیٰ کا چاہئے… مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ طبقاتی جنگ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ہوس نے صاحب اقتدار اور امیر طبقے نے جو لوٹ مار مچا رکھی ہے کیا یہ ظلم نہیں ہے؟
پاکستان کیوں تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے؟
پاکستان کیوں معاشی اور معاشرتی بحران کے بوجھ تلے برباد ہوا؟
پاکستان کو اس برباد شدہ نہج پر کس نے پہنچایا؟

کبھی پاناما سکینڈل اور اب ایک اور خوفناک مالیاتی سکینڈل دبئی سے دنیا بھر میں پاکستانی سیاست دانوں، سابق جرنیلوں، امراء اور بڑے نام جنہوں نے اربوں روپے کی پراپرٹی بنا رکھی ہے یعنی گیارہ ارب روپے کی پھر بیرون ممالک میں صرف ان کی جائیدادیں ہیں اور پھر جب شام کو ٹی وی پر لگی عدالتوں میں ان کے بھاشن سنتے ہیں تو لگتا ہے کہ ان سے پاکباز انسان شایدہی اس دنیا میں کوئی اور ہو مالیاتی سکینڈل کی ایک لمبی فہرست نے ہمیں یہ بات لکھنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے ہی سب ایک ہیں۔ عوام بیوقوف ان کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کریں گے ان کی زندگی کو جو مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے آسان بنائیں گے مگر یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ بات کو آگے لے کر چلوں ایک نظر کالا دھن سفید کرنے والے قومی مجرموں کی طویل فہرست پر دوڑاتے ہیں جنہوں نے دبئی میں اربوں کی جائیدادیں بنائیں اور وہ پھر بھی دودھ کے دھلے ہیں۔

عالمی سطح کے ایک تفتیشی صحافت کے پروجیکٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ دنیا بھرکی اشرافیہ کی دبئی میں املاک موجود ہیں۔ اس فہرست میں سیاسی شخصیات، بین الاقوامی پابندیوں کے شکار افراد، کالا دھن سفید کرنے والے اور مجرم شامل ہیں۔ اس فہرست میں پاکستانیوں کی نشاندہی بھی ہوئی ہے اور ان کی مجموعی دولت کا تخمینہ 11 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ صدر زرداری اوران کے تین بچے، پرویز مشرف، حسین نواز، فرح گوگی، شوکت عزیز، شیر افضل مروت، محسن نقوی کی اہلیہ، شرجیل میمن اور درجن بھر سابق جرنیل اس فہرست میں شامل ہیں۔ جنرل باجوہ کے بیٹے نے اپنے فلیٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے یہ اپارٹمنٹ بھائی سے خریدا، ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کیا ہے۔ پروجیکٹ ”دبئی ان لاکڈ“ ڈیٹا کی بنیاد پر کام کرنے والا ایک گروپ ہے اور اس نے دبئی میں موجود لاکھوں املاک اور ان کے مالکان یا استعمال کے حوالے سے اطلاعات اور تفصیلی جائزہ فراہم کیا ہے اور یہ جائزہ زیادہ تر 2020ء سے 2022ء تک کا ہے۔ 17ہزار پاکستانی 23ہزار رہائشی املاک کے ساتھ دوسرے نمبر پر، پہلے نمبر پر بھارتی اور تیسرے نمبر پر برطانوی شہری شامل ہیں۔ مختلف کمپنیوں کے نام پر خریدی گئی املاک اور تجارتی علاقوں میں املاک اس تجزیے کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ ڈیٹا سنٹر برائے ایڈوانسڈ ڈیفنس اسٹڈیز نے واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک نان پرافٹ تنظیم (C4ADS) سے حاصل کیا ہے۔ پھر یہ ڈیٹا ایک نارویجین مالیاتی آؤٹ لیٹ (E24) اور منظم جرائم اور کرپشن کی رپورٹنگ کے پروجیکٹ (OCCRP) کے ساتھ شیئر کیا گیا۔ ان اداروں نے 6ماہ تک اس تفتیشی پراجیکٹ پر آپس میں رابطہ کاری کی اور اس مقصد کیلئے 58 ممالک کے 74میڈیا آؤٹ لیٹس سے رپورٹرز لئے گئے، اس میں بہت سے سزا یافتہ مجرموں، مفرور بھگوڑوں اور سیاسی شخصیات کو بے نقاب کیا گیا جن کے پاس دبئی میں کم از کم ایک قطعہ زمین موجود ہو۔ دی نیوز اور ڈان اخبار پاکستان سے اس پروجیکٹ میں پارٹنر تھے۔ ان پراپرٹی لیکس میں جن پاکستانیوں کا تذکرہ ہے ان میں صدرپاکستان آصف علی زرداری، ان کے تینوں بچے، حسین نواز شریف، وزیر داخلہ محسن نقوی کی اہلیہ، شرجیل میمن اور ان کے اہل خانہ، سینیٹر فیصل واوڈا، فرح گوگی، شیرافضل مروت، چار ارکان قومی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کے نصف درجن ارکان شامل ہیں۔ پاکستانی فہرست میں جنرل پرویز مشرف، سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور ایک درجن سے زائد ریٹائرڈ جرنیلوں اور پولیس کے سربراہوں، ایک سفیر اور ایک سائنسدان بھی شامل ہیں۔ ان سب کے پاس ان املاک کی ملکیت براہ راست ہے یا شریک حیات اور بچوں کے توسط سے ہے۔ 2014ء میں صدر آصف علی زرداری نے غیر ملکی املاک ایک تحفے کے طور پر حاصل کیں۔ 2018ء میں انہوں نے اسے ظاہر کیا تو اس وقت تک وہ اسے کسی کو تحفتاً دے چکے تھے۔ 2014ء میں ہی زرداری کے ساتھ جعلی کھاتوں کے الزام میں شریک ملزم ایک بڑے تاجر عبدالغنی مجید نے اپنی دولت کی دستاویز میں بتایا کہ انہوں نے 32کروڑ 90لاکھ روپے کی ایک جائیداد تحفے میں دی ہے لیکن انہوں نے نہ تو جائیداد کی نوعیت بتائی اور نہ ہی یہ بتایا کہ تحفہ حاصل کرنے والا کون تھا تاہم جے آئی ٹی کو ایک یادداشت مل گئی جو کہ مارچ 2014ء میں دبئی میں ایک پینٹ ہاؤس کی خریداری سے متعلق تھا۔ پراپرٹی لیکس کے ڈیٹا سے اب انکشاف ہوتا ہے کہ غنی نے یہ جائیداد زرداری کو تحفتاً دیا تھا جو انہوں نے اپنی بیٹی کو تحفتاً دے دیا۔ اومنی گروپ کے چیف فنانشل آفیسر اسلم مسعود بھی اس فہرست میں اپنی متعدد املاک کے ساتھ اس فہرست میں موجود ہیں۔ دی نیوز نے ان کی قدر کا پتہ چلایا ہے اورمارچ 2013ء میں ان کی مالیت 8 کروڑ کی مالیت سے خریدی گئی تھیں۔ شعیب ڈنشا بھی دبئی میں ایک جائیداد کے مالک ہیں انہوں نے 2015ء میں ایک ولا 9کروڑ 60 لاکھ پاکستانی روپے میں خریدا تھا۔ ان سب ہی افراد کو سوالنامے بھجوائے گئے (سوائے اسلم مسعود کو جو کہ انتقال کر چکے ہیں) تاہم کسی نے جواب نہیں دیا۔ الطاف خانانی نیٹ ورک جس پر امریکا نے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کر رکھی ہے ان کا نام پھر اس فہرست کے ذریعے ابھر کر سامنے آیا ہے۔ ان کا بیٹا، بیٹی، بھائی اور بھتیجا بھی دبئی میں کئی کئی املاک کے مالک نکلے ہیں۔ ان میں سے 3 تو پابندیوں کا شکار ہیں۔ ایک اور قابل ذکر کردار حامد مختار شاہ ہیں جو کہ راولپنڈی کے فزیشن ہیں۔ ان پر بھی امریکا نے پاکستانی مزدوروں کے گردے نکال کر بیچنے کیلئے انہیں اغوا کرنے، اپنی تحویل میں رکھنے اور بالآخر گردے نکالنے میں ملوث ہونے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ وہ کئی املاک کے مالک ہیں۔ پراپرٹی لیکس نے وزیرداخلہ محسن نقوی کی دبئی میں املاک کا انکشاف بھی کیا ہے جو انہوں نے رواں برس مارچ میں سینیٹ کے انتخاب کیلئے اپنے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیں۔ پراپرٹی لیکس کے ڈیٹا کے مطابق نقوی کی بیوی کا پانچ خواب گاہوں کا ایک پرتعیش ولا عریبین رینچز میں 2023ء تک موجو د تھا۔ انہوں نے اس ولا سے 4 کروڑ 50 لاکھ روپے کا کرایہ بھی حاصل کیا۔ یہ ولا اپریل 2023ء تک ان کی ملکیت میں رہا جسے اگست 2017ء میں 32کروڑ 90لاکھ روپے میں خریدا تھا اور ریکارڈ کے مطابق 34کروڑ 40لاکھ روپے میں اپریل 2023ء میں بیچ دیا تھا تاہم اس کے باوجود وہ دبئی میں ایک جائیداد کی مالک ہیں۔ میڈیا پارٹنر کی جانب سے اس تفتیشی پروجیکٹ کے حوالے سے بھجوائے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے وضاحت کی کہ انہوں نے رواں برس جنوری میں ایک نئی جائیداد دبئی میں خریدی، یہ وہ وقت ہے جب محسن نقوی پنجاب کی عبوری وزارت اعلیٰ پر متمکن تھے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کیلئے موجودہ سال کے ٹیکس ڈکلریشن میں اس جائیداد کا اظہار کرنے والے ہیں۔ منگل کو وزیرداخلہ محسن نقوی نے ایک ٹوئیٹ میں واضح کیا کہ ”دبئی کی جائیداد 2017ء سے میری بیوی کے نام پر ہے اور ٹیکس ریٹرن میں موجود ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ پنجاب کے عبوری وزیراعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے الیکشن کمیشن میں جو ریٹرن جمع کرائے تھے اس میں بھی ان کا تذکرہ تھا۔ یہ جائیداد ایک سال پہلے فروخت کردی گئی تھی اور نئی حال ہی میں خریدی گئی ہے“۔ پراجیکٹ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے بیٹے سعد صدیقی باجوہ کا بھی دبئی کے انتہائی مہنگے علاقے میں دو بیڈ روم کا اپارٹمنٹ 2020ء سے موجود ہے۔ لیک ہونے والے ڈیٹا سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ جائیداد 18فروری 2020ء کو ابتدائی طور پر 2.35 ملین اماراتی درہم میں خریدی گئی تھی۔ بعد میں 27دسمبر 2020ء کو یہ فروخت کر دی گئی۔ لیک ہونے والے ڈیٹا کے مطابق اس پراپرٹی کی قیمت 1.75ملین اماراتی درہم ظاہر کی گئی ہے۔ سعد صدیق باجوہ نے یہ املاک ایک سرمایہ کار کمپنی سے خریدی لیکن بعد میں اپنے چھوٹے بھائی علی اقبال باجوہ کے نام کر دیا جو کہ اس پراپرٹی کا موجودہ مالک ہے۔ دی نیوز نے جب سعد صدیق باجوہ سے رابطہ کیا تو اس نے تصدیق کی کہ اس نے یہ پراپرٹی خریدی تھی لیکن بعد میں اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو فروخت کر دی۔ دی نیوز نے جب اس حوالے سے علی اقبال باجوہ سے رابطہ کیا اور اسے سوال نامہ بھجوایا کہ اس نے یہ جائیداد کیسے خریدی ، اس کی آمدن کا ذریعہ کیا ہے اور کیا اس نے یہ رقم قانونی طریقے سے بینکوں کے راستے سے بھجوائی اور کیا اس نے ٹیکس اتھارٹیز کے سامنے اسے ظاہر کیا ہے؟ تو اس نے اپنے تفصیلی جواب میں مورٹگیج کے معاہدے، ادائیگی کی رسیدیں جو اسے اپنے باپ سے ملیں، بینک اسٹیٹمنٹ (جس میں وہ قرض تھا جو اس نے دبئی میں ایک بینک سے لیا تھا) کی نقول موجود تھیں۔ یہاں اس کا وہ تفصیلی بیان موجود ہے جو اس نے دی نیوز کو بھجوایا ہے۔ ”میں علی اقبال باجوہ بلڈنگ فائیو سٹی واک دبئی کے اپارٹمنٹ کا مالک ہوں۔ اپارٹمنٹ فی الوقت دبئی اسلامک بینک کے پاس گروی ہے۔ یہ اپارٹمنٹ ابتدائی طور پر مشرق بینک دبئی کے ذریعے ایک گروی شدہ جائیداد میرے بھائی سعد صدیق باجوہ نے فروری 2020ء میں خریدی تھی۔ دسمبر 2020ء میں اپارٹمنٹ مجھے منتقل کر دیا گیا اور اس وقت سے اس کا قبضہ میرے پاس ہے“۔ اس سوال پر کہ آیا یہ املاک پاکستان میں ٹیکس حکام کے سامنے ظاہر کی گئی ہیں یا نہیں؟ باجوہ کا جواب تھا کہ ”اپارٹمنٹ میرے بھائی کے ٹیکس ریٹرن 2019-20ء میں تو ظاہر کیا گیا تھا اور تب سے چونکہ یہ جائیداد 2020ء کے وسط میں میرے نام پر منتقل ہوگئی تھی تو میں 2020-21ء کے بعد سے جائز طور پر اپنے ٹیکس ریٹرن میں اسے ظاہر کر رہا ہوں۔ اس اپارٹمنٹ کے بارے میں مفروضہ یہ ہے کہ یہ دسمبر 2019ء میں خریدا گیا کیونکہ جنوری 2020ء میں مجھے دبئی میں نئی نوکری شروع کرنا تھی۔ چنانچہ فنڈز پاکستان سے بینک کے ذریعے امارات میں میرے بینک اکاؤنٹ میں بھیجے گئے۔ میری ملازمت مارچ 2020ء تک موخر ہوگئی۔ چنانچہ میں نے فنڈز اپنے اکاؤنٹ سے اپنے بھائی کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیئے اور اپارٹمنٹ خریدا“۔ علی اقبال باجوہ نے اپنے دعوے کو تقویت دینے کے لیے متعلقہ دستاویزات بھی بطور شواہد نتھی کرکے بھیجی ہیں۔ ان دستا ویزات میں بینک اسٹیمنٹ اور بینکنگ کے لین دین مارٹگیج ایگریمنٹ، قرض کا ایگریمنٹ اور سعد صدیق کا ٹیکس ریٹرن اور علی اقبال کا ٹیکس ریٹرن بھیجا جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جائیداد ٹیکس حکام کے سامنے ظاہر کی گئی ہے۔ ڈیٹا لیک جسے ماہرین معیشت اور رپورٹرز نے تجزیہ کیا ہے اس میں بہت سی رہائشی املاک موجود ہیں جو دبئی میں غیرملکیوں کی ملکیت ہیں، ان میں بھارتی پہلے نمبر پر آتے ہیں اور 29700 بھارتیوں کے پاس 35ہزار جائیدادیں موجود ہیں۔ ان املاک کی مجموعی قیمت کا تخمینہ 17ارب ڈالر ہے۔ پاکستانی قومیت کے حامل جائیدادوں کے مالکان دوسرے نمبر پر آتے ہیں اور 17ہزار پاکستانیوں کی 23ہزار رہائشی املاک موجود ہیں۔ پاکستان کے بعد برطانوی شہریوں اور سعودی شہریوں کا نمبر آتا ہے۔ پاکستانی مالکان میں اوسط ویلیو فی کس مالک 0.41ملین ڈالر ہے۔

تبصرے بند ہیں.