سولر پینل والوں پر ٹیکس

86

لطیفہ کافی پرانا ہے اور یقینا آپ نے سن رکھا ہو گا لیکن ملک کے جو موجودہ سیاسی حالات میں ان پر بڑا فٹ بیٹھتا ہے کہ ایک بادشاہ کی بڑی خواہش تھی کہ اس کے عوام اس کے پاس کوئی فریاد لے کر آئیں۔ کسی معاملہ میں داد رسی کے لئے اس کے دربار میں آئیں لیکن کوئی آتا ہی نہیں تھا آخر اس نے وزیر با تدبیر کے کہنے پر ایک حل نکالا اور عوام پر ٹیکس لگانا شروع کر دیئے لیکن کوئی نہیں آیا۔ بادشاہ عوام پر بالکل اسی طرح ٹیکس پر ٹیکس لگاتا چلا گیا کہ جس طرح موجودہ حکومت بجلی گیس اور پیٹرول کے نرخ بڑھاتی چلی جا رہی ہے لیکن احتجاج کے لئے کوئی بھی نہیں نکلا۔ بادشاہ بڑا پریشان ہوا اور آخر تنگ آ کر اس نے ایک حکم جاری کیا کہ صبح ملازمت کے لئے جانے والے ہر شخص کو دس دس جوتے مارے جائیں گے۔ یہ ایسا حکم تھا کہ بادشاہ کو یقین تھا کہ اب تو لازمی رعایا میں سے ایک جم غفیر داد رسی کے لئے بادشاہ کے دربار میں آئے گا۔ بادشاہ کی توقع پوری ہوئی اور بادشاہ کو مطلع کیا گیا کہ شہریوں کا ایک وفد اس نئے حکم نامہ پر بات کرنے کے لئے بادشاہ سلامت سے ملنا چاہتا ہے۔ بادشاہ بڑا خوش ہوا کہ میری تدبیر آخر کام آ ہی گئی۔ اس نے اسی وقت حکم دیا کہ وفد کو فوراََ دربار میں لایا جائے۔ جب شہریوں کا وفد دربار میں حاضر ہوا تو بادشاہ نے ان کی بات شروع کرنے سے پہلے ہی کہنا شروع کر دیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ جوتے مارنے کا حکم بڑا ظلم ہے اور آپ لوگ اسی کے لئے آئے ہو تو ملاقات کے لئے آنے والوں کے سربراہ نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی کہ عالی جاہ ایسی کوئی بات نہیں اور نہ ہمیں جوتے کھانے پر کوئی اعتراض ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ملک کی آبادی کافی بڑھ چکی ہے روزانہ جب صبح جوتے مارے جاتے ہیں تو اس میں کافی وقت لگ جاتا ہے اور ہم دفاتر سے لیٹ ہو جاتے ہیں اس لئے ما بدولت سے التجا ہے کہ وہ جوتے مارنے والے سرکاری اہل کاروں کی تعداد میں اضافہ کر دیں تاکہ جوتے کھانے والوں کی جو لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں ان سے چھٹکارہ مل سکے اور عوام وقت پر اپنے دفاتر پہنچ سکیں۔

گذشتہ جمعہ کو تحریک انصاف نے پورے ملک میں احتجاج کی کال دی تھی لیکن کہیں بھی کوئی موثر احتجاج نہیں ہوا بلکہ لاہورمیں 30مقامات پر احتجاج کی کال تھی لیکن کسی ایک جگہ بھی کارکن احتجاج کے لئے نہیں نکلے اور کم و بیش یہی صورت حال دیگر شہروں میں تھی۔ اس سے پہلے 21اپریل کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی تحریک انصاف فتح کے جھنڈے نہیں گاڑ سکی جس کے بعد ظاہر ہے کہ اس کے حکومت مخالف تحریک کے بیانیہ کو دھچکا لگا اور الیکشن کے چار دن بعد 25اپریل کو تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کی کال پر پورے ملک سے جس طرح کا رد عمل سامنے آیا اس نے اس بات کی تصدیق بھی کر دی کہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے تحریک انصاف ملک میں ماحول نہیں بنا پائی لیکن لگ ایسے رہا ہے کہ حکومت میں کچھ کالی بھیڑیں اس بات کی پوری پوری کوشش کر رہی ہیں کہ ملک میں حکومت مخالف تحریک چلانے کے لئے ماحول بن جائے۔ اس کے لئے بجلی گیس اور پیٹرول کے بلوں میں اضافہ تو ہو ہی رہا تھا اور مسلسل ہو رہا تھا لیکن جب اس سے بھی ملک میں کسی تحریک کے لئے ماحول نہیں بنا تو گندم کی خریداری کے حوالے سے جو پالیسی بنائی گئی تو اس نے یقیناً کسانوں کو گھروں سے باہر نکل کر احتجاج کرنے پر مجبور کر دیا لیکن تحریک کا رنگ نہیں جم سکا لہٰذا پھر میڈیا میں یہ خبریں آئیں کہ سینٹرل پاور پر چیزنگ کمپنی نے گھریلو اور کمرشل دونوں طرح کے صارفین پر ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے اور منظوری کے لئے وزیر اعظم کو بھیجی ہے۔ اس سمری کے مطابق گھریلو اور کمرشل سولر پینل لگانے والوں سے 2ہزار روپے فی کلو واٹ وصول کے جائیں گے۔یہ خبر قومی الیکٹرانک میڈیا میں بریکنگ نیوز کی شکل میں نشر ہوئی اور پھر تمام اخبارات میں شائع ہوئی لیکن بعد میں اس کی تردید آ گئی۔

2008 سے  لے کر 2013 تک پانچ سال کے دوران اس وقت کے حالات کے تناظر میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 18ویں ترمیم کے ذریعے 102 آرٹیکلز میں تبدیلی کر کے تجدید آئین کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ گندم کی قیمت بڑھا کر بیرون ملک سے گندم کی درآمد بند کی تھی۔ حقوق بلوچستان بل بھی پاس کیا تھا۔ سرحد جیسے بے نام صوبہ کو وہاں کے عوام کے دیرینہ مطالبہ پر خیبر پختون خوا کا نام دیا تھا اور سب سے بڑھ کر ایران سے سستی گیس کا معاہدہ کیا تھا لیکن اس سب کے باوجود 2013 کے الیکشن میں اس کا بینڈ صرف اس وجہ سے بج گیا تھا کہ ملک میں بیس بیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی جو کم نہیں ہو سکی۔ 16ماہ کی بد ترین مہنگائی ہی وہ وجہ تھی کہ میاں نواز شریف کی ملک آمد کے باوجود نتائج حاصل نہیں کئے جا سکے تو اب اگر عوام جو بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں سے اس حد تک تنگ آ چکے تھے کہ بات خود کشیوں تک پہنچ گئی تھی تو اس دوران اگر انھیں سولر پینل کی شکل میں بجلی کے بلوں سے نجات کا ایک راستہ نظر آیا ہے تو وہ کون سے عناصر ہیں کہ جو اس طرح کی خبریں وہ بھی سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ اتنے طاقتور ہیں کہ قومی الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا میں آ رہی ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے عرض ہے کہ اس وقت 1735میگا واٹ بجلی سولر پر منتقل ہو چکی ہے اور قسمت سے اگر سولر پینل سستے بھی ہو گئے ہیں تو کیا کسی حکومتی عہدیدار کو اس بات کا اندازہ ہے کہ اس ایک خبر سے سولر پینل کی مارکیٹ پر کس طرح کے اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔ جناب یہاں تو اس طرح کی ایک خبر سے لوگوں کے انوسٹمنٹ کمپنیوں میں رکھے اربوں روپے ڈوب جاتے ہیں تو خدارا دیکھیں کہ دوستوں کے روپ میں کون اور کہاں کہاں دشمن اپنا کام کر رہے ہیں۔ ایسا نہ کیا گیا تو نہ جمہوریت چلے گی اور نہ ہی معیشت بہتر ہو پائے گی۔

تبصرے بند ہیں.