ضمنی الیکشن احتجاج، اسلام آباد پر حملہ منصوبہ؟

37

ہوائی خبریں جن کا سر نہ پیر، فلاں لیڈر حراست کے دوران تشدد سے ہلاک ہو گیا، تدفین کے خفیہ انتظامات، لیڈر کی دوسرے دن باپ سے ملاقات، جھوٹ کا کاروبار کب تک چلے گا؟ بیڑا غرق، ہر چال ناکام، دروازے بند، معاملات لٹک گئے اور بالآخر حکم زباں بندی، احتساب عدالت کا حکم خان اور ان کی اہلیہ عدلیہ و فوج کے خلاف بیان دے سکتے ہیں نہ میڈیا رپورٹ کر سکتا ہے۔ شیر افضل مروت نے عدالت میں فوراً درخواست دی کہ جیل کا آرڈر نمبر 265 فوری معطل کیا جائے، سبحان اللہ کیسی آزادی سی آزادی ہے۔ سر پر تلوار لٹکنے لگی۔ سہولت کار بھی کیا کریں، ان کی اپنی عزتیں دائو پر لگی ہیں۔ انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہونے تک نوبت آ گئی، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 21 نشستوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے پنجاب میں پی ٹی آئی کا صفایا کر دیا۔ ایسی ”پھینٹی“ لگی ہے کہ پوری پارٹی نڈھال اندرونی خلفشار اور انتشار کا شکار ہو گئی، عوام نے اس بار خان کے ”کھمبوں“ کو ووٹ نہیں دیے۔ پی ٹی آئی کے ایک لیڈر نے اعتراف کیا کہ بڑی مار پڑی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ، معاون وزیر دفاع اور سعودی سرمایہ کاروں کے 100 رکنی وفد کے دورے کے دوران سعودی حکومت کے خلاف الزامات، عوام اتنے بھی بے وقوف نہیں، پی ٹی آئی کے ووٹر مایوس ہو گئے۔ گھروں میں بیٹھے ٹی وی ڈرامے دیکھتے رہے۔ خان اور ان کی پارٹی الیکشن سے قبل مظلومیت کا بیانیہ بنانے میں ناکام رہی۔ ڈرامہ کا ڈراپ سین، خان کو یقین ہو گیا کہ طاقتوروں سے پنگا لینا آسان نہیں، حالات ان کے مخالف ہیں۔ لیکن مزاحمت ان کی فطرت اور جبلت، نیازی ہار کے بھی بے مزہ نہیں ہوتے۔ مفاہمت کے بغیر وہ جیل سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے، اس لیے گرجتا برستا خان تیزی سے معافی کی جانب بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ ان کی آدھی پارٹی بکنے کو تیار، جانشین میڈیا دکھاوے کی اکڑ فوں کے باوجود مین سٹریم میں رہنے کے خواہش مند، شنید ہے کہ گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سیکرٹری جنرل سمیت چھ سات لیڈروں نے قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق سے ملاقات کی اور قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی، اپوزیشن لیڈر کی مراعات پروٹوکول اور ترقیاتی فنڈز دلانے کی درخواست کی۔ خان جانتے ہیں پانچ پیادے کہاں سے آئے۔ شاید اسی لیے وہ بار بار ان کے بارے میں رائے بدلنے پر مجبور ہیں۔ ہر گزرتا دن ان کے لیے بری خبریں لا رہا ہے۔ بڑا فیصلہ ہو چکا کہاں ہوا؟ جہاں ہونا چاہیے۔ وہ جون 2025ء سے قبل باہر نہیں آئیں گے امکانات ختم، غور بھی نہیں کیا جا رہا۔ یہ بھی طے ہو گیا کہ سانحہ 9 مئی کے ملزموں کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں گی۔ 26 اپریل کو سڑکوں پر نکلنے کی پانچویں کال بھی ناکام رہی ملک بھر کے 24 کروڑ عوام میں سے 24 سو بھی باہر نہ نکلے۔ کس سے امید وفا رکھی جائے اس کے باوجود علی امین گنڈا پور اسلام آباد پر حملے اور قبضے کرنے کی بڑھکیں مار رہے ہیں۔ پچھلے دنوں تک اچھے بھلے تھے کور کمانڈر کی افطار پارٹی میں شریک ہوئے اس سے قبل شہباز شریف سے گلے ملے مگر کپتان سے جیل میں ملاقات کے بعد سافٹ ویئر میں وائرس آ گیا اپنے گنڈا پوری طرز کے خطاب میں دھمکی دی کہ عوام کا سمندر لے کر اسلام آباد پر حملہ کروں گا۔ خیبر پختونخوا میں سمندر کہاں سے آ گیا۔ شہر اقتدار پر قبضہ کر کے اور جیل توڑ کر خان کو رہا کرائیں گے۔ احمقانہ دھمکی، کیا ملک کے محافظ برفباری دیکھنے گئے ہوں گے۔ سعد رفیق نے نپا تلا جواب دیا کہ اسلام آباد پر حملہ کرنے والوں کی واپسی بہ حیثیت حکمران ممکن نہیں ہوتی۔ حملہ آور اپنے پیروں پر واپس نہیں جاتا۔ بانی پی ٹی آئی جیل میں پریشان ہیں۔ حکومتی اہلکاروں کی جانب سے مذاکرات کی دعوت انہیں زچ کرنے کے مترادف ہے۔ وہ تو اپنے ناراض ”سیاں جی“ سے مذاکرات چاہتے تھے۔ ممتاز صحافی اور تجزیہ کار کے مطابق ایک ریٹائرڈ جرنیل اور دو گمنام وزیروں نے مبینہ طور پر طاقتور شخصیت سے رابطہ کیا۔ رہائی کی سفارش کی جواب ملا ”سانحہ 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ ہونے کی ذمہ داری قبول کریں، فوج اور قوم سے معافی مانگیں جلائو گھیرائو میں ملوث ملزموں سے اظہار لا تعلقی کریں پھر بات ہو گی“ مذاکراتی ٹیم جیل پہنچی، خان ہتھے سے اکھڑ گئے۔ ٹیم مایوس ہو کر واپس لوٹ گئی۔ دل میں ہلچل ”کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے ”اس“ نے، ”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی“ جس محسن کو میر جعفر میر صادق کہتے رہے اس نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر اور مرحومہ والدہ کی قبر کی قسم کھا کر کہا کہ میں نے خان کی حکومت گرانے اور تحریک عدم اعتماد میں مداخلت کی کوئی کوشش نہیں کی، کیا خان بھی اسی قسم کی قسمیں کھا کر جواب دے سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ وہ تواتر سے جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ ان کا جھوٹ سچ کے بھاؤ بکتا ہے۔ انہیں سچ بولنے کی ضرورت ہے نہ صلاحیت۔ اسی لیے خط لکھ لکھ کر ”متعلقہ شخصیات“ کو متوجہ کرتے رہتے ہیں۔ چھیڑ خوباں سے چلتی رہنی چاہیے گزشتہ دنوں چیف جسٹس کو خط لکھ مارا جواب ندارد، ایک معروف شاعر کے بقول، ”انہیں خط میں لکھا کہ دل مضطرب ہے جواب ان کا آیا محبت نہ کرتے، تمہیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے“ سال دو سال تو اسی طرح دل بہلاتے رہیں حالات بدلنے کی توقع نہ رکھیں۔ کہتے ہیں محبت نفرت میں بدل جائے تو انتقام بن جاتی ہے، ابھی مزید مقدمات ہیں سزائوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ ممتاز صحافی تجزیہ کار اور خان کے کزن حفیظ اللہ نیازی نے سوال کیا کہ اگر نواز شریف 190 ملین پائونڈ (70 ارب روپے) قومی خزانہ میں جمع کرانے کے بجائے کسی دوست کے جرمانے کی مد میں دے دیتے۔ سائفر جلسہ میں لہراتے، توشہ خانے کی گھڑیاں لاکھوں میں لے کر اربوں میں فروخت کر دیتے تو کیا خان انہیں بخش دیتے؟ ہرگز نہیں کیا اس دور کی عدالتیں گڈ ٹو سی کہہ کر نواز شریف کو خان جیسی سہولتیں فراہم کرتیں؟ دراصل خان اپنی مرضی کا سیاسی نظام،آئین اور قانون چاہتے ہیں۔ وہ سویلین سپر میسی اور آئین کی بالا دستی کی باتیں کرتے ہیں لیکن جن کندھوں سے اتارے گئے ان ہی کندھوں پر سوار ہو کر دوبارہ اقتدار میں آنے کے خواہش مند ہیں۔ ان پر مقدمات کا بوجھ ہے کبھی نہیں کہیں گے کہ میرے خلاف تحقیقات کرو۔ قتل کی سازش زہر خورانی کا سکینڈل، دونوں میاں بیوی کو باہر بجھوانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ آئندہ چند دنوں میں عارضہ قلب اور پلیٹ لیٹس گرنے کا شور بھی اٹھ سکتا ہے۔ ایک طرف بڑھکیں شہر اقتدار پر قبضہ کی دھمکیاں دوسری طرف مذاکرات کی کوششیں، خان کی رہائی کے دعوے اپریل سے مئی میں داخل ہو گئے۔ رہائی نہ ہو سکی۔ سیاسی گرما گرمی میں مذاکرات بھی نا ممکن، اس قوم کی تقدیر میں انقلاب نہیں ہے بلکہ قوم کے ڈی این اے میں انقلاب کا عنصر ہی شامل نہیں، ہمارے محترم دوست روزنامہ ”نئی بات“ لاہور کے شعبہ نیوز کے سینئر رکن شاہد چشتی کی ٹوئٹ نظر سے گزری، انہوں نے لکھا ”انقلاب اس وقت آتا ہے جب مظلوم متحد ہو جائیں لیکن جب مظلوم کسی ظالم کے پیروکار بن جائیں تو انقلاب نہیں آتا قحط سالی آتی ہے“۔

تبصرے بند ہیں.