بیرونی سرمایا کاری سنہرا جال

18

قیام پاکستان کے فوراً بعد حکومت پاکستان کو دو بڑے مسائل کا سامنا تھا۔ اول، بھارت سے آنے والے مہاجرین کی آباد کاری۔ دوم، معیشت کی کوئی صورت گری۔ کئی برس انہی کوششوں میں گزر گئے۔ کچھ کو سر چھپانے کا ٹھکانہ میسر آ گیا کچھ نے اپنے زور بازو پر آشیانے تلاش کر لیے۔ یہ سلسلہ آزادی کے بعد نصف صدی تک چلتا رہا کچھ ایسے بھی تھے جو جب کے اُجڑے آج تک نہیں بن سکے۔ معیشت کی طرف توجہ مبذول ہوئی تو ایک بات کی تسلی تھی زمین زرخیر اور پانی کی فراوانی تھی۔ خوراک کے معاملے میں زیادہ پریشانی نہ تھی۔ کسان نے بھر پور محنت سے غلہ اُگایا اللہ تعالیٰ نے مہربانی کی یہاں لوگ فاقوں سے نہ مرے، مرنے اور مارنے کا چلن برسوں بعد شروع ہوا۔ 1960 سے 1970 تک تعمیر و ترقی کا زمانہ تھا کئی معاملات میں ہم خود کفیل ہو چکے تھے لیکن معیشت کی چادر بس اتنی تھی ایک وقت میں ایک ہی چیز ڈھانپی جا سکتی تھی پس ہم ضرورت کے مطابق کبھی سر ڈھانپ ڈھانپ لیتے کبھی پیر۔ ہم معاشی طور پر آج جہاں بھی کھڑے ہیں اسکے سامنے سیکڑوں سوالیہ نشان ہیں لیکن محکمہ زراعت نے ہر زمانے میں اپنا کام خوب نبھایا، میکسی پاک گندم سے جان چھڑائی، نئے بیج تیار کیے، بھر پور فصلیں حاصل ہوئیں ڈیموں کی تعمیر پر سمجھوتا نہ کیا جاتا پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جاتا تو آج خوراک کے زمرے میں آنے والی ہر چیز ہم وافر مقدار میں برآمد کرتے نظر آتے۔

آبادی میں تیز رفتار اضافے کو نہ روکا جا سکا کبھی مشرقی اور مغربی پاکستان کی کل آبادی آٹھ کروڑ تھی آج ملک نصف رہ گیا آبادی چوبیس کروڑ ہو گئی۔ معیشت کی چادر جس سے کبھی پورا جسم ڈھانپ لیتے تھے نیکر میں تبدیل ہوئی پھر جانگیے کی جگہ لے لی اب جانگیہ بھی اتنا سا ہے جتنا امریکہ، یورپ اور ترقی یافتہ ممالک کے ساحلوں پر سن باتھ لینے کیلئے لیٹی عورتوں کا ہوتا ہے، جس سے چھپتا کچھ نہیں۔ آبادی بڑھانے میں محکمہ بہبود آبادی کا اہم کردار ہے اربوں روپے کی گرانٹ ملتی رہی غیر ممالک سے امداد بھی ملتی رہی لیکن اشتہاری مہم پر زور رہا۔ دفتروں میں بیٹھ کر فائلوں میں جعلی اعداد و شمار تک پرفارمنس رہی جنکی ڈیوٹیاں گاؤں یا دیہاتوں میں لگائی گئیں وہ شہروں میں بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرتے رہے۔ گاؤں کی عورتیں مشین بنی رہیں اور پیداوار میں اضافہ ہوتا رہا رہی سہی کسر ہمارے معاشرتی اور طبقاتی نظام نے پوری کر دی۔ ایک مطالعاتی سفر میں گاؤں کے سب سے سمجھ دار شخص سے پوچھا، بچے کتنے ہیں۔ جواب ملا، اللہ کے فضل سے نو زندہ ہیں تین فوت ہو گئے، پوچھا اتنے بچے کیوں۔ جواب ملا ضرورت ہے بلکہ ہماری اشد ضرورت۔ پھر پوچھا ذرا تفصیل تو بتائیں، انہوں نے فرمایا، ایک بچے کو پٹواری بنانا تھا دوسرے کو تھانیدار تیسرے کو وکیل، دو کو سیاست میں لانا ضروری تھا ایک برائے قومی اسمبلی دوسرا صوبائی اسمبلی کیلئے وقف کیا۔ ایک بیٹا دشمنی کی بھینٹ چڑھ کر قتل ہو گیا، ایک بیٹے نے قاتلوں کو قتل کر کے بدلہ لیا اسے سزائے موت ہو گئی۔ دو بیٹے زمیندارا کرتے ہیں۔ انہوں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا آج پھر اولاد کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ حکومت نے کم عمری کی شادیوں پر پابندی عاید کر رکھی ہے لیکن تمام تر پابندیوں کے باوجود کراچی اور لاہور ایسے شہروں کی آبادی دو دو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، وسائل تیزی سے کم ہو رہے ہیں کیونکہ انہیں بڑھانے پر توجہ نہیں دی گئی، معیشت کے تھے سولہ سنگھار ضرور کیے گئے ہیں۔ ہر صوبے کے ہر شہر کی ایک ہی کہانی ہے۔ اب امیدوں کا مرکز عیدین ہیں، دونوں عیدوں پر غیر ممالک میں مقیم لاکھوں پاکستانی اربوں روپیہ اپنے اہل خانہ کو بھیجتے ہیں جس سے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر کو وقتی سہارا ملتا ہے۔ پھر ہم خطے میں اپنے دوستوں کی طرف دیکھتے ہیں، امداد اینٹھتے ہیں اور پرانے قرضوں کے سود کی ادائیگی میں صرف کر دیتے ہیں، مذہبی عیدوں کے علاوہ جس روز ہمیں آئی ایم ایف عالمی بنک یا ایشیائی بنک قرضہ دیتا ہے وہ روز بھی ہمارے لیے روز عید ہوتا ہے۔ گذشتہ چالیس برس سے ہم غیر ملکی انوسٹمنٹ کے حصول کو ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹیاں سر کرنے سے بڑی کامیابی سمجھنے لگے ہیں۔ تصویر کے دوسرے رخ پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، ایک بین الاقوامی پٹرولیم کمپنی کو ملک بھر میں خوشنما پٹرول پمپس لگانے کی اجازت دی گئی انہوں نے ایک سو پٹرول پمپ لگائے، ہر یونٹ پر بیس افراد کو مختلف قسم کی نوکری ملی۔ یوں مجموعی طور پر دو ہزار افراد کو روزگار ملا انکی تنخواہ سے آٹھ ہزار افراد پلنے لگے۔ وہ کمپنی پہلے ہی برس اپنی سرمایا کاری سے زائد منافع اکٹھا کرنے میں کامیاب رہی۔ اب اسے ہماری کھال اتارتے ہوئے پچیس برس ہو چکے ہیں اسے یہ منافع پاکستان سے باہر لے جانے کا حق دیا گیا ہے۔ وہ سالانہ کئی ارب ڈالر یہاں سے لے جاتے ہیں۔ ایک فاسٹ فوڈ تیار کرنے والی کمپنی کو اسی قسم کی پُرکشش اجازت دی گئی، ہمارے ارباب اختیار اسکے بزنس پارٹنر بن گئے۔ انہوں نے چونی نہ لگائی صرف سہولتیں دینے کا وعدہ کیا اور سرکاری وسائل انکے حوالے کیے۔ اس کمپنی نے برگر فروخت کرنے کیلئے کراچی میں پہلا ریسٹورنٹ کھولا اور آج سے تیس برس قبل پچاس روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے برگر کی قیمت دو سو روپے رکھی، دیکھنے میں آیا کہ پہلے روز یہ برگر خریدنے کیلئے کئی ہزار افراد لائن میں لگے تھے، یہ لائن کئی کلومیٹر لمبی تھی۔ آج اس برگر چین کے ملک میں پانچ سو ریسٹورنٹ ہیں برگر چھ سو روپے کا ہو چکا ہے، اسکی لاگت میں یقینا اضافہ ہوا ہے لیکن اس سے تین سو گنا اضافہ انکے منافع میں بھی ہوا ہے۔ اہل وطن ایسے ہی بین الاقوامی ریسٹورنٹ کی چین پر اہل خانہ سمیت ہفتے میں دو بار ضرور جاتے ہیں اور خوشی خوشی لٹ کر واپس آتے ہیں۔ انوسمنٹ کے نکتہ نظر سے یہ دو کاروبار کرنے والی کمپنیوں کی سرمایا کاری تو کچھ بھی نہیں ایسی کئی سو بین الاقوامی جونکیں ہمارے جسم سے چمٹی ہیں اور ہمارا لہوچوس رہی ہیں۔ فارن انوسٹمنٹ کے نام پر آنے والے ہر دس ڈالر ہماری معیشت سے بیس ہزار ڈالر کشید کر کے لے جاتے ہیں۔

اس ضرر رساں انوسٹمنٹ کا متبادل یہ ہے کہ ہم اپنی زراعت کو فروغ دیں، غلہ زیادہ سے زیادہ اُگائیں کپڑا زیادہ سے زیادہ بنائیں اور ایکسپورٹ کریں۔ لباس اور خوراک ہر دور کی ضرورت ہے اس میں اضافہ ہو گا کیونکہ دنیا بھر میں برتھ کنٹرول پروگرام کے باوجود بچے پیدا ہوتے رہیں گے، ہمارا بہبود آبادی پروگرام اپنے یہاں آبادی کنٹرول نہیں کر سکا تو دنیا بھر میں آبادی کنٹرول کیسے کرے گا۔ اس محکمے کو بند کر کے روپیہ بچایا جائے اور تعلیم و ہنر کی ترویج پر لگایا جائے۔ ہم مین پاور پہلے بھی ایکسپورٹ کر رہے ہیں، بہتر مین پاور اب دنیا کی ضرورت ہے، امریکہ اور یورپ کے بسنے والے اپنے آج میں زندہ ہیں، انکی ترقی میں ایشیائی باشندوں کا ہاتھ ہے اس طرف چین نے سب سے زیادہ توجہ دی ہے ہم غیر ملکی انوسٹمنٹ آتی دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے جب مل جائے تو چین کی بانسری بجانے لگتے ہیں۔ غیر ملکی انوسٹمنٹ سنہری جال ہے اس سے نکلنے کی سعی عظیم قومی خدمت ہو گی۔ یہی پاکستان پر احسان ہو گا، اسی سے پاکستان کی تقدیر بدلے گی صرف باتوں اور تقریروں سے نہیں۔

تبصرے بند ہیں.