ایرانی صدر کا دورہ اور امریکہ و بھارت کی گھبراہٹ

91

ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان سے ایک جانب امریکہ تلملا رہا ہے تو دوسری جانب ہمارے ازلی دشمن بھارت کے بھی اوسان خطا ہو چکے ہیں۔ حالانکہ امریکی و بھارتی گٹھ جوڑ نے دونوں اسلامی ملکوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کی کافی کوششیں کیں لیکن عالمی سامراج کی گھنائونی سازش ناکام ہو گئیں۔ ایرانی صدر کا دورہ پاکستان اور حکومت پاکستان کی جانب سے ان کے فقید المثال استقبال نے دشمنوں خاص طور پر واشنگٹن کو کھلا پیغام دیدیا کہ تم جتنی چاہے پابندیاں لگا لو پاک ایران دوستی و اسلامی بھائی چارے کے رشتے کو مزید مستحکم ہونے سے نہیں روک سکتے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان 900 کلومیٹر سے زیادہ کی سرحدیں مشترک ہیں اور یہ جغرافیائی، ثقافتی اور مذہبی رشتے میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ افغانستان کی صورتحال، مواصلاتی راہداری، اسلحے، انسانوں اور منشیات کی سمگلنگ، پناہ گزینوں کا مسئلہ، دہشت گردی کے خلاف جنگ دونوں ملکوں کو مشترکہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ رواں برس کے آغاز میں پاکستان اور ایران کے درمیان جو کشیدگی دیکھنے کو ملی اس حوالے سے کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا تھا، بہرحال ایرانی قیادت کی جانب سے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے، باہمی اعتماد اور تعاون کی بنیاد پر تمام مسائل پر کام کرنے کے لیے جس آمادگی کا اظہار کیا گیا، اس نے تمام غلط فہمیاں دور کر دیں اور دشمن دونوں برادر اسلامی ملکوں کے مضبوط رشتے میں رخنہ ڈالنے کے مذموم عزائم میں ناکام ہو گیا۔ تاہم ایران سے تعلقات کے خراب کرنے میں بھارت کے کردار کو صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ جب پاکستان نے اپنی گوادر بندرگاہ کو ترقی دینا چاہا تو بھارت پر یہ گراں گزرا کہ پاکستان کی کوئی بندرگاہ عالمی توجہ کا مرکز بنے۔ چنانچہ گوادر بندرگاہ کو ناکام بنانے کے لیے اور اپنی تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے کیلئے بھارت کی ایران کی چاہ بہار بندرگاہ تک رسائی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان قریبی تجارتی تعلقات ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان موجودہ دو طرفہ تجارت تقریباً 2 بلین ڈالر سالانہ ہے۔ ایرانی صدر کے تین روزہ تاریخی دورے کے دوران سکیورٹی، تجارت، سائنس و ٹیکنالوجی، ویٹرنری ہیلتھ، ثقافت اور عدالتی امور سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے 8 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے مگر سب سے اہم مفاہمت دونوں ملکوں کے مابین 10 ارب ڈالر کے دو طرفہ تجارتی معاہدے جس سے خاص طور پر پاکستان کی معاشی مشکلات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں جانب ترقی و خوشحالی کے ایک نئے باب کا اضافہ ہو گا۔ ایرانی صدر کا دورہ کئی حوالوں سے ایک اہم پیش رفت ہے، دورے کی سب سے بڑی پیش رفت پاکستان کا ایران پاکستان گیس پائپ لائن کو بحال کرنے کا اٹل فیصلہ ہے چاہے اس کے لیے امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے۔ پاکستان گیس پائپ لائن، جسے پاکستان نے بالآخر 80 کلومیٹر کے اپنے حصے کی تعمیر کی اجازت دے دی ہے، توقع ہے کہ اس سے توانائی کی ضروریات کا 35 فیصد پوری ہونگیں۔ اس سے توانائی کے بحران کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور اربوں روپے تیل کے درآمدی بلوں کی بچت ہو گی بلکہ ایل این جی کے مقابلے میں ایران سے 750ملین کیوبک فٹ انتہائی سستی گیس ملے گی۔ ایرانی صدر نے پاکستانی قیادت سے ملاقات کے علاوہ عظیم پاکستانی رہنماؤں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کراچی میں بانی پاکستان محمد علی جناح اور لاہور میں علامہ محمد اقبال کے مزار پر حاضری بھی دی۔ جو سرکاری رابطوں سے ہٹ کر پاکستان سے محبت کا اعلیٰ ثبوت ہے۔ ان دو شہروں میں بھی صدر رئیسی کا پُرتپاک خیر مقدم ہوا۔ صدر رئیسی پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے سربراہ مملکت بھی ہیں۔ یہ دورہ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درران ہے اور اس وجہ سے غیر ملکی مبصرین اس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ایران کے صدر کے دورے پر سیخ پا امریکہ کا ردعمل بھی سامنے آ گیا اور ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر پابندیوں کی دھمکیاں دیدی ہیں۔ اس سے پہلے پائپ لائن گیس معاہدہ امریکی سازشوں کا شکار رہا اور اس معاہدے کو ثبوتاژ کرنے کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہے۔ کشمیر اور فلسطین پر بھی دونوں کا یکساں موقف ہے۔ غزہ مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، اس پر ایران نے اپنا بھرپور اور ٹھوس موقف اختیار کیا اور باقاعدہ حملہ کر کے اسرائیل کی جارحیت کا جواب بھی دیا تو اسرائیل کیخلاف فضائی حملے کے بعد جب دوسرے ملک تہران کے ساتھ تعلقات رکھنے پر حیل وحجت سے کام لے رہے ہیں، پاکستان ایران کے موقف کی تائید کرتے ہوئے اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان ایران کے مابین گہرے دوستانہ سفارتی، تجارتی روابط کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تو 1979ء میں اسلامی انقلاب کو پاکستان نے سب سے پہلے تسلیم کیا۔ یہ تاریخی اقدام مضبوط، پائیدار، اٹوٹ رشتے کی بنیاد بنا۔ ایرانی صدر کا دورہ اس پختہ عزم کا اظہار ہے کہ تعلقات کی خرابی کے لیے ثالثی فریقوں کے دباؤ اور کوششوں کے باوجود دونوں ملک ایک دوسرے کے حامی ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی مضبوطی ابدی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی پابندیوں کے باوجود پاکستان نے بلا جھجک ایرانی اسلامی حکومت سے ہمیشہ دوستانہ ہی نہیں برادرانہ تعلقات قائم رکھے بلکہ تجارت بھی تسلسل سے جاری ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکی صدر فلسطین میں اسرائیلی جبر و تسلط سے صرفِ نظر ہی نہیں کر رہے بلکہ ان ظالمانہ اقدامات پر اسرائیل اور بھارت کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان بھی کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے ظالمانہ برتاؤ سے متعلق اقوام متحدہ کی سستی و کاہلی اور مغرب کی ہمہ گیر حمایت نے بھی علاقے میں خاص طورپر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کو اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کے سلسلے میں مزید گستاخ بنایا ہوا ہے جو اس وقت بھی ایٹمی ٹیکنالوجی اور ہر قسم کے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں سب سے آگے ہے اور یہ مسلم دنیا کو اپنے دفاع اور توانائی کے حصول کے پُرامن مقاصد کے تحت بھی ایٹمی ٹیکنالوجی میں آگے نکلتا برداشت نہیں کر سکتا۔ دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں درحقیقت ایک سابق امریکی صدر نے ہی مسلم امہ کیخلاف کروسیڈ کا آغاز کیا تھا اور اب جوبائیڈن اسی کی قیادت کر رہے ہیں۔ عراق اور افغانستان میں نیٹو افواج کے ہاتھوں مسلمانوں بشمول خواتین اور بچوں کے قتل عام کی داستانیں ہولوکاسٹ کی یاد تازہ کر دیتی ہیں۔ شام ایران اور دیگر اسلامی ممالک کیخلاف بھی اس کے جارحانہ عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.