’’قبر کیوں غائب ہے؟!‘‘

21

’’قبر تو غائب ہے‘‘؟!

یہ میرے What’s app پر منیجر کا پیغام تھا۔ ’’قبر غائب ہے‘‘…؟! میں حیرت زدہ سوچنے لگا۔ میں جلدی میں تھا اس لیے میں نے ’’پیغام‘‘ کا جواب نہیں دیا اور بات چیت ختم ہو گئی۔

اپنے دفتر پہنچ کر میں نے بھائی سے بات کی؟!

’’طلحہ… فادر کی قبر غائب ہے…؟! ’’قبر غائب ہے…؟!‘‘

ہاں ہاں……… برادر مجھے بھی اقبال کا پیغام آیا تھا۔

ہم دفتری کاموں میں مصروف ہو گئے…… مصروفیت میں یاد ہی نہیں رہا کہ یہ سوال زیادہ اہم ہے… قبر والا… ہمارے ہاں قبر پکی نہیں کرائی جاتی البتہ اس کے سرہانے بڑا سا کتبہ نصب کر دیا جاتا ہے… جس میں قبر میں دفن ہستی کا جامع قسم کا تعارف ہوتا ہے… دو تین رنگوں میں دور سے صاف نظر آنے والا… ’’فوٹو‘‘…؟! آپ نے اچھا اشارہ دیا ہے کہ اگر قبر میں دفن ہستی کا جامع تعارف تو آپ نے لگا دیا اس بڑے سے کتبے پر جو سنگ مر مر سے نہایت مہارت سے تیار کروایا گیا چالیس پچاس ہزار روپے خرچ کر کے… اگر ساتھ میں تصویر بھی ہو تو کیا کہنے…؟! کیا کہنے… بات بڑھ جائے گی… بس کر… میں نے خود کلامی کی…

جو مجھے لگا خود کلامی تھی حالانکہ میں جذبات میں تھا اس لیے بڑ بڑایا تھا…؟! ذرا اونچی… جذباتی انداز میں… آئن… کیا بول رہے ہو……… مجھے کچھ کہا؟!

طلحہ نے کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے بے دہانی میں پوچھا؟! پھر سے بولے… "I was seriously busy”

میری سائنسی حرکتوں سے گھر والوں نے میرا ’’نک نیم‘‘ آئن سٹائن رکھ چھوڑا ہے… مگر طلحہ پیار سے مجھے ’’آئن‘‘ کہتا ہے… آپ کا دھیان سیاست کی طرف چلا گیا ہو گا اور آپ نے ’’آئین‘‘ کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا ہوگا… آج کل ہم لوگ سیاست سے اپنے فیملی معاملات سے زیادہ دلچسپی رکھتے یہیں؟ وہ ’’آئین‘‘ جس کی دھجیاں اڑادی گئی ہیں مختلف اداروں کے ہاتھوں ، مختلف ہستیوں کے دباؤ پر …… اگر آئین کوئی موم یا لوہے کا بنا ہوا ہوتا تو مت پوچھیں اب تک وہ کیا سے کیا ہو چکا ہوتا اس کا قد کاٹھ بھی پانچ فٹ دس انچ ہوتا اور وہ ایک آنکھ سے کانا ہوتا بتیس کی جگہ صرف پندرہ دانت اور بالوں کے غائب ہو جانے سے فل گنجا بھی… وغیرہ وغیرہ… اور وغیرہ …؟!

باقی اس بے چارے کے ساتھ کیا کیا کچھ ہو چکا ہوتا آپ خود آنکھیں بند کر کے غور کریں، خوب سوچیں اور انجوائے کرتے چلے جائیں۔

’’طلحہ… میں سوچ رہا تھا کہ اگر قبروں پر لگے کتبے مزید خوبصورت بنوائے جاتے اور اُن پر جامع تعارف کے ساتھ ساتھ مرحوم ہستی کی خوبصورت تصویر بھی…‘‘! پیاری پیاری سی کمپیوٹر سے فوٹو شاپ سے محنت سے تیار؟! ’’ہاہاہاہا… اوھو… ہاہاہاہاہاں‘‘… بے اختیار طلحہ کے منہ سے نکل پڑا کمپیوٹر پرے کر دیا… ’’یار آئن آہستہ بات کرو تم نے تو اک نیا آئیڈیا دے ڈالا ہے… آئن سٹائن موجود تھا تم… سوچت ہو……؟!

یہ تم نے نئی بکواس کیا کر ڈالی…… پہلے ہی مجھے شرمندگی ہوتی ہے جب تم مجھے پیار سے یاد … نہ جانے کیوں ’’آئن سٹائن‘‘ کہتے ہو… خاص طور پر عوام کے سامنے… اب یہ سوچت کیا ہو گیا…

’’آئن شرمندہ یا پریشان ہونا چھوڑ دو… ایجاد کرنے والے کو موجد کہا جاتا ہے تو انوکھی… بے ہودہ (سوری …سوری… ویری … سوری)) سوچیں عوام میں پھیلانے والے کو ’’سوچت‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے…آج سے ’’سوچت‘‘ خان…

تمہارے دوست کا نام صنوبر خان ہو سکتا ہے تو تم سوچت خان کیوں نہیں کہلا سکتے؟! صنوبر خان… سوچت خان؟!

میں نے تین چار پنسلیں اٹھا اٹھا کر دے ماریں… مگر طلحہ قہقہے لگاتا چلا گیا اور سوچنے پر میری بھی ہنسی نکل گئی…! کافی بحث مباحثہ کے بعد یہ طے پایا کہ… سوچت جیسا بے ہودہ ’’نک نیم‘‘ بہت برا لگے گا…آئن سٹائن ہی ٹھیک ہے…

ہاں تو میں کہہ رہا تھا آئن ڈیئر یہ جدید دور کا نہایت پسندیدہ اور جدید آئیڈیا ہے جو اگر دنیا کے دسویں مالدار شخص مکیش امبانی یا اس کے بیٹے اننت خوبانی تک جا پہنچا تو وہ نیا کاروبار نہایت کامیابی سے چلا لیں گے؟!

طلحہ… یہ اننت خوبانی؟ کیا ہے

یار تھوڑا درست کر لو… میری مراد مکیش امبانی کے بیٹے سے ہے جس کی حال ہی میں اربوں روپے خرچ کر کے شادی کی گئی…… تم اننت خوبانی کہہ کر انجوائے کرو……… ویسے وہ اننت امبانی ہے…

وہی جس کی شادی میں نہایت بے ہودہ انداز میں بڑے بڑے امیر ترین بظاہر Reasonable نظر آنے والے لوگوں نے باپ بیٹے کی خوب خوش آمد کی اور بے چارے مکیش کو خوش آمد کر کر کے خوب شرمندہ کیا۔

تین نامور ترین اداکاروں نے تو نہایت گمراہ کن ڈانس کر کے… خوش آمد کی آخری حدوں کو چھو ڈالا… اس نے بھی خوب مال لٹایا… دل کھول کے بھارت میں دولت کی بے حرمت ہم نے اس شادی میں دیکھی… سنا ہے کئی کروڑ دے کر اک پرانی گلو کارہ ’’ریحانہ‘‘ کو بھی بلوایا گیا۔

مثبت پہلو یہ ہے کہ پورے شہر کے غریب لوگوں کو بھی خوشی میں شامل کیا گیا اور اننت کے بارے بتایا گیا کہ وہ جانوروں سے محبت کرتا ہے اور ان کی افزائش کے لیے اس نے بہت بڑے بڑے سفاری پارک بھی بنا رکھے ہیں…… کہ وہ جانور من مرضی کریں اور آزادانہ زندگی گزار دیں…

ہاں تو… آئن میں کہہ رہا تھا کہ یہ جدید ترین دور کا جدید ترین اور دل خوش کر دینے والا قابل عمل آئیڈیا ہے لہٰذا یہ چوری نہیںہونا چاہیے بلکہ اس پر سائنس کی مدد سے جدید انداز میں سوچا اور اسے قابل عمل بنایا جائے…

…ہانپتا کانپتا… ملازم اندر آیا…

سر… سر جی وہ اقبال منیجر کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے…؟!

’’ہائیں‘‘ پولیس… اور وہ بھی ہمارے اقبال کو لے گئی… کہاں لے گئی ؟ کیوں لے گئی… اقبال کی فائل نکالو…… ؟! طلحہ نے ہانپتے ہوئے کلرک سے کہا… اس کا ماضی کا ریکارڈ دکھاؤ؟!!

طلحہ…… تم دولت کمانے کے چکر میں اس قدر الجھ گئے ہو کہ تمہیں بہت کچھ بھول جاتا ہے… نہ تم ڈپٹی کمشنر ہو اب…… نہ ہی اقبال تمہارے ماتحت سپرنٹنڈنٹ …… تم سرکاری ملازمت چھوڑ کر اک پرائیویٹ ادارہ بنا چکے ہو…… اور اقبال فیملی کا ہمارے ساتھ محبت کا رشتہ کئی سال سے ہے۔

ہاں …ہاں… طلحہ نے کچھ سوچتے ہوئے… جلدی میں اٹھتے ہوئے کہا … چلو چلو…… چلیں چلیں…… دیکھیں دیکھیں اقبال کو پولیس کہاں لے گئی… کیوں لے گئی…… ضمانت کرائیں؟ اس کی…؟ ہائے بے چارہ اقبال…… اور اس نے مجھے بازو سے پکڑا ہم باہر آ گئے؟!

تبصرے بند ہیں.