پاکستان کی پست معاشی صورتحال آج کل زیر بحث ہے اقتصادی ماہرین کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ طویل عرصے سے جاری غیر مناسب و غیر حقیقی معاشی پالیسیوں کے نفاذ اور حکمت عملیوں نے قومی معیشت کو اس صورتحال کا شکار کر دیا ہے جس کے باعث ناقابل برداشت عالمی قرضوں اور داخلی بد اعتدالیوں نے مکمل تباہی کی گھنٹی بجادی ہے کہ جس سے مکتی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ ادائیگیوں کے بگڑتے ہوئے توازن نے قدر زر پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیا ہے جس کے باعث روپے کی عمومی قوت خرید سکڑ گئی ہے۔ توازن تجارت میں عدم توازن نے ڈالر کی طلب میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے اس طرح روپے کی حیثیت گر گئی ہے عامۃ الناس کی قوت خرید میں بھی گراوٹ آگئی ہے۔ کچھ ہماری داخلی پالیسیوں اور کچھ عالمی صورتحال کے باعث اشیاء خور و نوش کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ کووڈ19 نے عالمی تجارت میں خلل ڈالا تھا ابھی دنیا کو وڈ کی تباہ کاریوں سے سنبھل ہی پائی تھی کہ روس یوکرائن جنگ چھڑ گئی جس نے بہتری کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اس جنگ نے نہ صرف ا جناس کی عالمی تجارت پر منفی اثرات مرتب کئے بلکہ گیس اور توانائی کے شعبے کو بھی متاثر کیا۔ یورپ اس وقت توانائی کے شدید بحران کا شکار نظر آ رہا ہے قیمتیں تین گنا تک بڑھ چکی ہیں۔ اس سارے عمل نے ہمارے معاشی اور اقتصادی معاملات کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے ہمارے ہاں بجلی و گیس کی طلب و رسد میں عدم توازن نے توانائی کے بحران کو جنم دیا۔ ہم نے پن بجلی کی پیداوار بڑھانے اور عوام کو سستی بجلی مہیا کرنے کے بجائے،آسان لیکن مہنگا طریقہ اپنایا۔انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کو بجلی مہیا کرنے کا ذمہ داری سونپ دی گئی۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کرتے وقت کسی قسم کی دور اندیشی کا ثبوت نہیں دیا گیا ان معاہدوں میں ایسی شقیں بھی پائی گئی ہیں جو پاکستانی عوام کے مفادات کے یکسر خلاف ہیں ایسی شرائط بجلی مہیا کرنے والوں کے مفادات کا تحفظ کرتی اور انکے منافع جات کو یقینی بنانے کے لئے معاہدوں میں رکھی گئی ہیں ایسے ہی معاہدوں کے مطابق ادائیگیوں نے نہ صرف بجلی و گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے بلکہ بجلی کے ناقص ترسیلی نظام کے باعث ہونے والے نقصانات نے مل جل کر توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کاحجم تین ہزار ارب روپے تک بڑھا دیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی عالمی مارکیٹ میں عدم استحکام کے باعث پٹرول گیس و ڈیزل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے باعث توانائی کے شعبے کا بحران شدید سے شدید تر ہو چکا ہے۔ بجلی وگیس کی ترسیل میں عدم استحکام اس سے بھی بڑا مسئلہ ہے بڑھی ہوئی قیمتیں اور ترسیلی نظام کے عدم استحکام نے صنعتی پیداوار گھٹا دی ہے۔ بے روزگاری عام ہو چکی ہے فی الوقت مہنگائی کی 45 صد شرح کے ساتھ ساتھ 2 کروڑ سے زائد افراد بے روزگاری کا شکار ہیں۔
معاشی نمو کی شرح تاریخ کی پست ترین سطح تک پہنچی ہوئی ہے۔ ہم نے اپنے معاشی مسائل کے لئے آئی ایم ایف کو معالج کے طور پر چن لیا ہے اس کے نتائج بھی اسی طرح ہولناک نکلے ہیں۔ جیسے توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے آئی پی پیز کے ساتھ معاملات کرنے کے نکلے ہیں۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرنے کے نتیجے میں عوامی معیشت کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے جبکہ کلی معاشیات ہر تین مہینے کے بعد اپنی بقا کے لئے آئی ایم ایف کے قرض کی قسط کی محتاج ہوتی ہے۔ قسط کی وصولی میں ذرا سی دیری، ایسا تاثر پیدا کرتی ہے کہ جیسے ہم ڈیفالٹ ہوا ہی چاہتے ہیں۔ ہماری کلی اور جزوی معاشیات و اقتصادیات شدید کسمپرسی کا شکار ہو چکی ہے ایسے میں پالیسی سازوں کی طرف سے کوئی ایسی حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے جس سے معاشی بحالی کی توقع کی جا سکے۔ نئی مخلوط حکومت شہباز شریف کی قیادت میں عزم صمیم کے ساتھ ملک کو معاشی ابتری سے نکالنے کے لئے میدان عمل میں آ چکی ہے کابینہ میں جغادری قسم کے تجربہ کار سیاست دان بھی شامل ہیں اور نئے چہرے بھی نظر آ رہے ہیں۔ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ پاکستان 230 ملین سے زائد نفوس پر مشتمل 330 ارب ڈالر سے زائد حجم کی معاشی طاقت ہے قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 23 فی صد ہے جبکہ سمال اینڈ میڈیم انٹر پرائیز کا قومی پیداوار میں 40 فی صد حصہ ہے ایس ایم ایز میں 90 فی صد کا تعلق غیر زرعی اور نجی شعبے سے ہے یہ ایک بہت بڑا حصہ ہے جبکہ ایس ایم ایز غیر زرعی مزدوروں کے 80 فی صدر کو روزگار مہیا کرتے ہیں۔ یہ اعداد و شماراس شعبے کی اہمیت وافادیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہماری معیشت زراعت کے شعبے پر قائم ہے ہماری صنعتی پیداوار بھی زرعی شعبے سے منسلک ہے ہماری برآمدات کا 60 فیصد سے زائد زرعی پیداوار پر مشتمل ہے ہماری افرادی قوت کا بہت بڑا حصہ زرعی شعبے سے منسلک ہے ہم اس شعبے کو بار آور نہیں بنا سکے ہیں۔ قومی معیشت کی بڑھوتی کے لئے ایسی ایم ایز کلیدی اہمیت کی حامل ہیں۔ قومی آمدنی میں بڑھوتی ہو یا معاشی نمو میں اضافہ یہ شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے روزگار کی فراہمی کے اعتبار سے بھی یہ شعبہ مثبت کردار ادا کر سکتا ہے اس سیکٹر میں ٹیکسٹائل لیدر، سرامک، گلاس، پاٹری، کھیلوں کا سامان، کٹلری وغیرہم کے ساتھ ساتھ خدمات کے شعبے بشمول تعلیم، پرچون اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں پوری دنیا اس وقت کارآمد و ہنرمند افراد کی شدید طلب پائی جاتی ہے۔ ٹیکنالوجیز کی حیرت انگیز اختراعات نے ایس ایم ایز سیکٹر کی اہمیت کو دو چند کر دیا ہے۔
اس شعبے کے مسائل بہت پیچیدہ نہیں ہیں مربوط منصوبہ بندی اور تھوڑے سے سرمائے کے ذریعے اس شعبے کو قومی معیشت میں مثبت کردار ادا کرنے کے لئے تیار کیا جا سکتا ہے نوجوان نسل کو ملازمت کے بجائے کاروبار اختیار کرنے، دور جدید کے ہنر سیکھنے اور کاروبار کرنے کے لئے مناسب سرمایا کی فراہمی کے ذریعے معاشی تعمیروترقی کے لئے تیار جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں فنی تعلیم اور ووکیشنل تربیت کے سیکڑوں اداروں کو تربیتی مراکز میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ایس ایم ایز سیکٹر کو دور جدید کے تقاضوں سے ہمکنار کرنے کے لئے قانون سازی کی جانی ضروری ہے تاکہ نہ صرف لوکل مارکیٹ میں گروتھ ہو سکے بلکہ تربیت یافتہ ایس ایم ایز عالمی مارکیٹ سے بھی ہم آہنگ ہو جائیں۔ عالمی ادارے اس حوالے سے پاکستان معیشت کی بہتری کی پیش گوئیاں کر چکے ہیں۔ بلوم برگ ہویا ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی حالیہ رپورٹیں، پاکستان کے خوشگوار اور پھلتے پھولتے معاشی مستقبل کی نویدیں سنا رہے ہیں، ماہرین کے مطابق پاکستان کی جس معیشت کا اوسط حجم 330 ارب ڈالر کے قریب ہے اسے آئندہ دس سال میں 1000 ارب ڈالر تک پہنچایاجا سکتا ہے۔ ہماری معیشت میں ایسے تمام بنیادی لوازمات پائے جاتے ہیں جو اسے ایک ٹر یلین ڈالر تک لے جا سکتے ہیں، آزمائش شرط ہے۔
تبصرے بند ہیں.