بالی ووڈ کے سپر سٹار ول سمتھ نے غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ دوسال سے وہ ایک مشکل دور سے گزر رہے تھے، اس صورت حال نے انھیں اپنے باطن کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا تو انھوں قرآن حکیم سمیت متعدد مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا، وہ اپنے دل کو وسعت دینا چاہتے تھے، قرآن مجید میں حضرت موسی علیہ السلام کے واقعات نے بہت متاثر کیا، ان کا ماننا ہے کہ قرآن بہت سادہ ہے اس میں ساری چیزیں شیشہ کی طرح صاف ہیں، اس کے مطالعہ کے بعد کوئی غلط فہمی نہیں رہتی، ایک امریکی پروڈیوسر لل جون کے اسلام قبول کرنے کی خبر بھی زیر گردش ہے، دعویٰ ہے کہ سانحہ نائین الیون جو امت پر بھاری رہا اس کے بعد مغرب سے بہت سے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، اس سے یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے شعوری طور مطالعہ قرآن کے بعد بگوشہ اسلام میں قدم رکھنے کا بہت احسن فیصلہ کیا ہے ممکن ہے کہ بحیثیت مسلم اس میں ہمارا کوئی کردار نہ ہو۔
ہمارے ہاں علماء کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو قرآن کو ترجمہ سے بغیر استاد کے پڑھنا درست نہیں سمجھتا بلکہ معاذ اللہ گمراہی کا سبب قرار دیتا ہے بہت سی قرآنی تفاسیر کی موجودگی کے باوجود سید مودودی نے عام اور سہل انداز میں شہرہ آفاق تفہیم القرآن لکھی جو پڑھے لکھے طبقہ میں بہت جلدمقبول ہوئی، کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے بعد ازاں، قرآن فہمی کی تحریک بپا کرنے میں ا نکے شاگرد ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے رضا کارانہ طور پر کلیدی کردار اد کیا ہے،تاحال دنیا بھر سے لوگ اس سے مستفید ہورہے ہیں۔ خوش آئند کہ قرآن فہمی اب تعلیمی نصاب کا حصہ بن گئی ہے، تاہم بنیادی اراکین کے حوالہ سے وہ آگاہی ہمارے مدارس اور مساجد میں میسر نہیں جس کے مثبت اثرات سماج پر مرتب ہو سکیں۔
سوال یہ ہے کہ نسل نو مساجد کا رخ کیوں نہیں کرتی، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ جیسی عبادات کے فلسفہ اور اسکی سپرٹ کے حوالہ سے راہنمائی کا خاصا فقدان دکھائی دیتا ہے، نسل نو نمازوں کی رکعتوں، ہاتھ باندھنے کی پوزیشن، رفع الیدین کرنے یا نہ کرنے میں الجھی رہتی ہے، آئمہ کرام کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نماز کے طبعی فوائد بھی ہیں، یہ محض ورزش ہے یا کردار سازی کا ذریعہ بھی ہے۔
طبی ماہرین کا خیال ہے کہ نماز کے شروع میں ہاتھ کانوں تک اٹھانے سے بازو، گردن، شانوں کی ورزش ہوتی ہے،قیام سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے سجدے میں آنکھیں یکسو ہوتی ہیں، خون کی روانی آسان ہوتی ہے،رکوع کا بڑا فائدہ حرام مغز کی کارکردگی میں اضافہ ہے، روایت کہ کینیڈا ائر پورٹ پر کچھ لوگ نماز ادا کر رہے تھے غیر مسلم سینئر ڈاکٹر حاضر ہوئے کہنے لگے طویل ریسرچ کے بعد میں نے اس ورزش کو گردوں کے علاج کے لئے لازم قرار دیا ہے، آپ کے علم میں کیسے آیا، نمازی گویا ہوئے کہ ہم مسلم ہیں اوریہ نماز ہماری عبادت ہے۔ غرض نماز میں سر کے بال سے لے کر پاؤں کے ناخن تک ہر اعضاء متحرک ہوتا ہے۔
دوسری بڑی جسمانی عبادت روزہ ہے جس کے طبی فوائد سے بہت کم آگاہ ہیں، قومی ادارہ صحت کے ماہرین کے مطابق روزہ رکھنے کے بے شمار فائدے ہیں جن میں قابل ذکر شوگر، بلڈ پریشر،وزن کنٹرول کرنے میں معاون ہے نیز دماغی افعال کو بہتر طریقہ سے سر انجام دینے کے لئے اہمیت کا حامل ہے، روزہ بہت سی امراض سے محفوظ رکھتا بلکہ عمر میں اضافے کا موجب بنتا ہے۔ امرا ض قلب کے ماہرین کہتے ہیں روزہ نہ صرف خون میں موجود کیسٹرول کی مقدار کو معتدل رکھتا ہے بلکہ خون کی شریانوں کو اپنا کام بآحسن طریقہ سے انجام دینے میں مدد دیتا ہے، جس کے نتیجہ میں دل کے مختلف امراض مثلاً دل کا دورہ، سٹروک، فالج کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ غذائی ماہرین کا خیال ہے کہ کھجور توانائی، طاقت فراہم کرنے کے ساتھ کیمیائی مرکبات پوٹاشیم، میگنیشیم اور وٹامن فراہم کرتی ہے جو فائبر کی شکل میں نظام انہضام بہتر کرتا ہے، کھجور سے روزہ کھولنا سنت نبویؐ ہے، اسکے طبی فوائد سے لوگوں کو آگاہی کم ہی دی جاتی ہے۔
مالی عبادات اپنے اندر اعلیٰ درجہ کا معاشی نظام رکھتی ہیں،مگر اس کے باجود لوگوں کی بڑی تعداد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے آئمہ کرام اسکی فیوض برکات بتاتے ہیں خود اس کے فیض سے محروم ہیں، عشر، زکوۃ، فدیہ، فطرانہ، جزیہ اور دیگر مدات کی بابت اگر سائنسی بنیادوں پر اعدادو شمار جمع کئے جائیں تو بہت سا سرمایہ میسر آسکتا ہے،راقم جس دیہات کا باسی ہے وہ 25 مربعہ جات پر مشتمل ہے،جس کے ایکٹر 625 بنتے ہیں، اس سے اوسط 40 من فی ایکٹر گندم اگرپیدا ہو اور اوسط 3000 روپے فی من سے فروخت ہو تو مالیت 75 کروڑ بنتی ہے اس میں سے 10فیصد عشر کی قیمت نکالیں ساڑھے سات کروڑ ہوگی، وہ دیہہ جس میں کچھ غریب گھرانے ہوں کیا یہ رقم مستحقین کے لئے کافی نہ ہوگی، یہ صرف ایک فصل کا حساب ہے۔ کیا علماء کرام کا کام صرف زکوٰۃ، عشر کی شرح کٹوتی بتانا ہے؟ علماء کرام کا ایک گروہ میدان میں اترے باضابطہ مذکورہ مدات کا حساب کتاب کا تخمینہ لگا نے کے لئے کسی تحصیل،ضلع، یونین کونسل کو رول ماڈل بنائے،تاکہ سرکار اور عوام اس نظام کی عملی شکل سے آگاہ ہوں۔
عرب نیشنل ازم کے سیاسی نظریہ نے عثمانی اور مغربی نو آبادیاتی حکمرانی رد عمل کے نتیجہ میں 20ویں صدی میں اس سر زمین پر جنم لیا جس پر نبی مہربانؐ نے کھڑے ہوکر کہا تھا، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، احرام پہن کر ایک ہی صف میں کھڑے ہونے والے محمود ایاز سماجی طور پر اتنے منقسم ہیں کہ قوم پرستی کے چلن نے اسرائیل کے سامنے ہاتھ جوڑنے پر آمادہ کیا ہے۔نبی مہربانؐ کے پاؤں مبارک تلے دبے جہالت کے بتوں کو ہم نے آہستہ آہستہ نکال لیا ہے۔
ہماری عبادات کے اثرات کسی اعتبار سے ہماری سماجی،اخلاقی زندگی پر عیاں نہیں ہیں، مذہبی طبقہ اصل روح کے مطابق اسکی ترویج میں ناکام رہا ہے، ڈاکٹر ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ عیسائی میڈیا کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ انکی پروڈکٹ صفر مگر مارکیٹنگ سو فیصد ہماری پروڈکٹ سو فیصد مگر مارکیٹنگ صفر ہے، ہمیں شکریہ ان نو مسلم کا ادا کرنا ہے جو شعوری طور پر دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں جس میں ہمارا کوئی کردار نہیں۔عبادات اور سماجی رویوں کے اعتبار سے مسلم معاشرے ایک پیج پر نہیں ہیں۔
تبصرے بند ہیں.