قرآن حکیم کو الحمد سے والناس تک پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جن مسائل کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا اور جن کے بارے میں جگہ جگہ ہماری رہنمائی فرمائی ہے ان میں ایک معاشی مسئلہ بھی ہے۔ قرآن مجید میں غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے، یتیموں اور محتاجوں کی ضروریات کی دیکھ بھال کو بنیادی اور فیصلہ کن نیکی قرار دیا گیا ہے۔ دولت مندوں اور صاحب استطاعت کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ تمہارے مال و دولت میں غریبوں کا ایک واضح حصہ ہے۔
پھر مسلمانوں کو صدقہ و خیرات کی جابجا تلقین کی گئی ہے اور خدا کی راہ یعنی رفاہ عامہ پر خرچ کیے بغیر نیکی کا حصول ناممکن قرار دیا گیا ہے۔ بیسیوں مقامات پر جہاں صلوٰۃ کی تلقین و تاکید ہے اس کے ساتھ ہی فریضہ زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم ہے۔ ان احکامات کی تفہیم کے لیے صحابہ کرام انفاق کے متعلق رسول کریمؐ سے دریافت کرتے تھے کہ مزید کیا اور کتنا خرچ کریں تو اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ”وہ تم سے جوئے اور شراب کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو کہ ان کا گناہ بہت بڑا ہے اور (اس میں شبہ نہیں کہ) لوگوں کے لیے ان میں کچھ فائدے بھی ہیں، لیکن ان کا گناہ ان کے فائدوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اور پوچھتے ہیں کہ (اچھا، یہ تو واضح کیجیے کہ) کیا خرچ کریں؟ کہہ دو کہ وہی جو ضرورت سے زیادہ ہے۔ اللہ ا سی طرح تمہارے لیے اپنی آیتوں کی وضاحت کرتا ہے تا کہ تم دنیا اور آخرت، دونوں کے معاملات میں غور کرتے رہو“۔ (البقرہ 2۔ آیت نمبر 219، ترجمہ جاوید احمد غامدی۔ البیان، جلد اول صفحات 230۔ 232)۔
غامدی صاحب اس سوال کی شرح میں فرماتے ہیں کہ انسان کی اپنی حال اور مستقبل کی ذاتی اور کاروباری ضرورتوں کے علاوہ جو کچھ موجود ہے وہ معاشرے کا حق ہے اور اللہ کی راہ میں انفاق کے تمام مطالبات اسی سے متعلق ہیں۔ دین و شریعت کی رو سے انفاق کی جو ذمہ داری ایک مسلمان پر عائد ہوتی ہے، یہ اس کی آخری حد ہے۔ اس سے آگے کوئی مطالبہ اللہ تعالیٰ اس سے نہیں کیا۔ (البیان، جلد اول، صفحات 231 ۔ 232)۔ سورہ البقرہ 2:215 میں بھی فرمایا گیا ہے ”وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ اچھا پھر کیا خرچ کریں؟ کہہ دو کہ جتنا مال بھی خرچ کرو گے، وہ تمہارے والدین، اعزہ و اقربا اور (تمہارے ہی معاشرے کے) یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، (اس لیے جتنی ہمت ہے خرچ کرو) اور (مطمئن رہو کہ) جو نیکی بھی تم کرو گے، وہ ہرگز ضائع نہ ہو گی، اس لیے کہ اللہ اس سے پوری طرح واقف ہے۔“ (ترجمہ جاوید احمد غامدی۔ البیان، جلد اول صفحات 227۔ 228)
آیت 219 کے لفظ ”قل العفو“ کی مفسرین نے اپنے اپنے نکتہ نظر سے تشریح فرمائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تو خمر اور میسرہ سے روکا گیا ہے۔ خمر (شراب) عقل و ہوش کا سلب ہونا ہے اور میسرہ (جوا) اس ہوس زر کا نتیجہ ہے جس میں انسان بغیر محنت و مشقت کے دوسروں کی دولت ہتھیا لے۔ پھر ضرورت سے زائد کو راہ خدا میں خرچ کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ قرآن کریم ہی کا معجزہ ہے کہ وہ انسان میں نفسیاتی طور پر ایسی جرأت و ہمت اور ایثار پیدا فرماتا ہے کہ وہ محنت سے حاصل کیے ہوئے حلال و طیب رزق کو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے بعد زائد کو اللہ کی رضا کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کر دیتا ہے۔ جس سے ایک فلاحی معاشرہ وجود پاتا ہے۔
اصل میں عفو کے معنی عربی میں فاضل اور زیادہ کے ہیں اس لیے اپنی ذاتی ضروریات سے جو زیادہ ہو اور ضروریات سے مراد بھی ایسی ضروریات ہیں جو عیاشی اور نمائشی نہ ہوں، اسے خرچ کیا جا سکتا ہے۔ یعنی جو ضرورت اور کفایت سے بڑھ کر ہو، وہ تمام کا تمام راہ خدا میں خرچ ہونا چاہیے مگر جتنا آسان ہو۔ یعنی اس قدر بھی نہ خرچ کرے کہ خود پریشان یا کا شکار ہو اور نہ کسی کی حق تلفی ہو۔ آیت کے حکم کو جہاد، اعلائے کلمۃ اللہ اور تحفظ دفاع ملت کے حوالے سے بھی بعض مفسرین نے بیان کیا ہے۔ یعنی اگر کسی قوم اور ملک پر ایسی ناگہانی صورت آن پڑی ہے تو اپنی ناگزیر ضروریات سے جو فاضل بچ جائے وہ سب ایسی صورت میں قربان کر دینا چاہیے۔
مفسرین کی تشریح ہی ہمیں بتاتی ہے کہ اس آیت کی رو سے صحابہ کرام زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد بھی ناداروں، مساکین اور محروم لوگوں کی امداد فرض سمجھتے تھے کہ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ زائد پر قابض کا حق ملکیت رہتا ہی نہیں ہے۔ زرکشی اسلام کا مقصد اساسی ہے وہ زر اندوزی کو گناہ بلکہ گناہ کا سبب ہے اسلام نے دولت کے ارتکاز کو کم کر کے ان تمام ذرائع کا سدباب کیا ہے جو قتل و غارت اور فتنہ و فساد کا بنیادی سبب ہیں۔ زائد مال کا انفاق فی سبیل اللہ مستقل قانون کی حیثیت رکھتا ہے یہ اسی طرح فرض ہے جس طرح زکوٰۃ۔ بلکہ قانونی عمل درآمد کی نوعیت کے لحاظ سے زکوٰۃ سے بھی زیادہ شدید ہے۔
آج معیشت ہی انسانی زندگی کی اولین ترجیح ہے۔ معیشت جو ہماری زندگیوں کا ایک فقط ایک جز ہے۔ عصر حاضر میں ہمارے لیے ایک نصب العین کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھی زوالامت، فکری جمود و فکری مغالطوں، معاشرہ کی تربیت اور ایک عظیم قوم کی تشکیل کے بجائے اپنے منشورات میں معاشی نظام ہی کی بنیاد پر خود کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ پاکستان ایسے طبقاتی معاشرے میں جہاں معاشی تفاوت اپنی بدترین شکل میں موجود ہے وہاں معیشت ہی کے تفاوت اور معاشی مفادات کے حوالے سے پاکستان میں موجود بنیادی طبقات مزید طبقات میں تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
ایک زمانے میں معاشرہ اپر کلاس، مڈل کلاس اور لوئر کلاس میں تقسیم تھا۔ لیکن آج مڈل کلاس، اپر مڈل کلاس، مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس میں تقسیم ہے۔ لوئر کلاس بھی اپر لوئر کلاس، مڈل لوئر کلاس اور لوئر کلاس میں تقسیم ہو چکی ہے۔ دوسری جانب اشرافیہ کے مفادات میں بھی تقسیم اور ٹکراؤ پیدا ہوا ہے۔ یہ طبقہ بھی جاگیر دار، وڈیرے، صنعت کار، تاجر اور کارپوریٹ طبقات میں تقسیم ہوا۔ 70 کی دہائی میں پاکستان کی سیاست دائیں بازو اور بائیں بازو میں تقسیم تھی۔ لیکن آج پاکستان کی سیاست جاگیردار، صنعت کار اور کارپوریٹ میں تقسیم ہے اور مڈل کلاس اور لوئر کلاس اپنی تمام شکلوں میں اشرافیہ کی مفاداتی جنگ کا ایندھن بن رہی ہیں۔ مذہبی جماعتیں اس تمام منظر میں اپنے اپنے مفادات کے مطابق صنعت کار اور کارپوریٹ طبقات کی حمایت کر رہی ہیں۔
پاکستان کی سیاست آج جس نہج پر ہے اس میں خارجی، جغرافیائی اور داخلی حالات کے حقیقی ادراک، عوامی مسائل کے حل، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ایک قوم کی تشکیل کے عمل کے سوا ہر چیز موجود ہے۔ خدا کرے کہ جن مذکورہ مسائل سے ارباب اختیار نے چشم پوشی کی ہوئی ہے ان پر توجہ دی جائے کہ آنے والی نصف صدی تک ہم بھی ہجوم سے قوم بننے کا سفر طے کر سکیں۔
جو حرف ”قل العفو“ میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
تبصرے بند ہیں.