پاکستان کی عدالتوں میں معزز جج صاحبان اور فاضل وکلا کا لباس دیدہ زیب ہونے کے ساتھ ساتھ باوقار بھی ہے اور پُر رعب بھی، مگر عدالتی اہلکار جو پکار لگاتے ہیں یا دیگر خدمات پر مامور ہوتے ہیں ان کے سروں پر پگڑی ہماری روایات کے منافی ہے۔ کوٹ اور ٹائی والے صاحبان کے حکم پر کورنش بجا لانے والے اگر دستار پہنتے ہیں تو پھر ہم علامتی طور پر سہی، انگریزوں کی غلامی سے رتی برابر بھی نکل نہیں سکے۔
درجہ چہارم کے ملازمین کے سروں پر جناح کیپ اور شیروانی جبکہ بیسویں گریڈ کے افسر کی سرکاری ٹائی ہماری برائے نام نیم آزادانہ پالیسی پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔ کسی صاحب دستار کو جب خدمت پر مامور دیکھتے ہیں تو یہ شعر ضرور یاد آتا ہے۔
دستار کے ہر پیچ کی تحقیق ہے لازم
ہر صاحب دستار معزز نہیں ہوتا
ہماری روایات میں دستار، پگڑی اور عمامہ ہمیشہ عزت و احترام کی علامت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے مگر یہ کیا منافقانہ روش ہے کہ شادی ہالز اور پانچ ستارہ ہوٹلوں کے دروازوں پر مامور ”چھوٹے“ بڑی بڑی دستاروں کے ساتھ سلامی لیتے نظر آتے ہیں۔ ہمیشہ سے جنگ کے آداب میں شامل تھا کہ دستار کے ہوتے ہوئے سر نہیں کاٹے جاتے تھے اور دستار ہمیشہ ان سروں پر سجائی جاتی جن کا کردار اس قابل ہوتا۔ تبھی تو ایسے اشعار تخلیق ہوتے۔
اے مرے یار ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں
میرا سر بھی تو پڑا ہے میری دستار کے ساتھ
قبیلے، خاندان یا ریاست کی دستار جس سر پر رکھ دی جاتی وہ صاحب دستار اس کی لاج نبھاتے نبھاتے جان سے تو چلے جاتے مگر دستار کو بلند رکھتے۔ مگر پھر ہماری عزت بھری روایات کو کچلنے والے فرنگیوں نے نہ صرف ہمیں اپنا غلام بنایا بلکہ ہماری روایات کو بھی حقارت تک لے گئے۔ انگریزوں نے عہدے دے کر ہم اور ہمارے ملبوسات کو گھٹیا بنانے کے لیے ہمارے ہی سرداروں کو استعمال کیا۔
سر سے دستار گری ہاتھ سے ہتھیار گرے
مصلحت اوڑھ کے جب قوم کے سردار گرے
حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ریستورانوں کے ویٹرز نے سفید شرٹ کے ساتھ سیاہ ٹائی اور کالا پینٹ کوٹ بھی پہن رکھا ہوتا ہے۔ ابدالی روڈ ملتان کے ایک ہوٹل سٹاف کی یونیفارم تبدیل کرانے میں سابق صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے جہاں مائی لارڈ اور صاحب کے لفظ ”جرم“ قرار دے دئیے ہیں وہاں انہیں یہ بھی چاہیے کہ جناح کیپ اور پگڑی کے وقار کو بچاتے ہوئے عدالتی اہلکاروں کی یونیفارم سے انہیں منہا کیا جائے۔ انگریزوں نے تو دستار سے انتقام لینا تھا اس لیے اس معزز پہناوے کی تضحیک کی مگر ہم ابھی تک اس علامتی غلامی کو بھانپ نہیں سکے۔
ایک وقت تھا جب مونچھیں مرد کی دہشت کی علامت تھیں پھر وہی مونچھیں بازار حسن کے دلالوں نے اپنے چہرے پر سجا کر انہیں بدنام کر دیا۔ برقعہ اسلام میں عورت کی شان اور بھرم تھا مگر دھندہ کرنے والیوں نے اسے اپنی شناخت چھپانے کے لیے استعمال کیا اس کی اہمیت کم ہو گئی۔ اسی طرح دستار اور پگڑی کے وقار کو بچانے کے لیے اسے معزز لوگوں تک محدود رکھنا ہو گا۔ اگر پگڑی اور دستار کو اسی طرح کم تر سمجھا جاتا رہا تو دستار بندی، دستار فضیلت اور دستار منزلت جیسی اصطلاحیں دم توڑ جائیں گی۔
تبصرے بند ہیں.