جمہوریت زوال پذیر، معیشت ڈانواں ڈول، سیاستدان دعووں کے بھنور میں الجھے، حالات میں گھرے، بھنور سے کیسے نکلیں صلاحیت نہیں یا مواقع فراہم نہیں کیے جا رہے۔ رکاوٹیں کون ڈال رہا ہے؟ بندوبستی نظام کے تحت 5 سالہ اقتدار کی امیدیں لیکن ڈھائی سال کے فارمولے کی بازگشت، محرومی کا انجانا خوف، ابھی تھپکی پھر دھکے ”وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے“ خان کی چوتھی کال بھی ناکام۔ شور ختم غوغا رہ گیا۔ ان تلوں میں تیل نہیں صرف تل رہ گئے۔ خیبر پختونخوا کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ، صوبہ ایک ہزار ارب کا مقروض، وزیر اعلیٰ نے آتے ہی دکان کھول لی۔ مبینہ طور پر 20 کروڑ کی ایک وزارت، بولی لگاؤ، تیمور جھگڑا نے مزید جھگڑے سے بچنے کے لیے صلح کر لی کہ کوئی جھگڑا نہیں وزارتوں کا سودا گندہ ہے پر دھندہ ہے۔ ”روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر“ صوبہ کیسے چلے گا؟ منتخب وزیر اعظم نے آتے ہی مفاہمت کی پیشکش کی۔ علی امین گنڈا پور نے انہیں وزیر اعظم ماننے سے انکار کر دیا۔ تقریب حلف برداری سے بھی غیر حاضر، لانگ مارچ کی دھمکیاں، خود ہی سارے دروازے بند کر لیے۔ راستے مسدود پائے تو خان سے مشاورت کرنے اڈیالہ جیل پہنچے ملاقات کی اجازت نہ ملی، گنڈا پوری مایوسی میں واپس پلٹے راستے میں ڈنڈا پوری مل گئے جن کے سمجھانے بجھانے پر سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو گیا۔ وزیر اعظم ہاؤس جا پہنچے، اسی میں عافیت تھی وزیر اعظم نے حسب عادت استقبال کیا کر کے لمبے ہاتھ، بازوؤں میں سمیٹ لیا جو وفاق کی پناہ میں آیا وہ محفوظ مذاکرات ہوئے 1500 ارب بھی مل جائیں گے صوبہ اور وفاق میں ورکنگ ریلیشن شپ قائم باہر نکل کر احسن اقبال نے کہا ”سیاست اپنی اپنی ریاست سانجھی“ واپسی پر کور کمیٹی اجلاس میں گرما گرمی دینگا مشتی، وکیل اور سیاستدان سنی اتحاد کونسل میں شمولیت پر آمنے سامنے، بندگی میں بھلا نہ ہو سکا تھا پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے مخصوص نشستوں کی درخواستیں مسترد کر دیں، برے دن ہیں یہاں سے بھی ٹھنڈی ہَوا کے جھونکوں کے بجائے لو کے تھپیڑے لگے اجلاس میں بحث چلی کس نے سنی اتحاد کونسل سے الحاق کرنے کو کہا تھا جس نے کہا تھا وہ پشیمان الحاق کرنے والے پریشان اب کچھ نہیں ہو سکتا، چڑیاں کھیت چگ گئیں ڈھانپنے والے تقریریں کرتے رہے۔ ’محرومیوں کا دور ہے اور ہم ہیں دوستو‘ ہر سٹوری کے پیچھے ایک کہانی مکروہ چہرے بے نقاب ”جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ، ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ“ جو کل تک اپنے تھے اپنے نہ رہے حکومت گرانے اور لندن سے آنے والے کیمیا گر کو سیاست کے ایرینا سے باہر رکھنے کے مفروضے گھڑنے لگے۔ ”اک ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے“ چیئرمین بننے کی خواہش پوری نہیں ہوئی اس پر ٹی وی چینل کا محاذ سنبھال لیا اور گولے برسانے لگے۔ چڑی بازوں کبوتر بازوں کا ہدف وفاقی کابینہ، شہباز حکومت اور نواز شریف ”پنڈ بسا نہیں لٹیرے تیار“ وفاقی کابینہ کو حلف اٹھائے جمعہ جمعہ آٹھ دن، سوال اٹھ گئے حکومت کب جائے گی؟ زرداری بمقابلہ شہباز اور نواز شریف ایک گھنٹے کے پروگرام میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کہ نواز شریف این اے 130 سے دوبارہ گنتی میں ہار گئے تو ان کی سیاست کا چیپٹر کلوز، کیوں ہاریں گے؟ جتنے حلقے کھولے جا رہے ہیں سب میں ن لیگ کے امیدوار کامیاب کیا نواز شریف ہارنے کے لیے لندن سے یہاں آئے تھے؟ الیکشن سے پہلے کے حالات بتا رہے تھے کہ ن لیگ واضح اکثریت یا دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اسی لیے میاں نواز شریف نے واضح کر دیا تھا کہ واضح اکثریت ملی تو وزیر اعظم بنوں گا، نہیں ملی نہیں بنے لیکن ایرینا میں موجود پنجاب میں پارٹی کی مقبولیت کے لیے بیٹی کی رہنمائی کریں گے، سیاستدان چوہتر پچھتر کے ہو جائیں تو یہی کچھ کرتے ہیں، دو اینکر پرسنز نے دیکھنے والی آنکھوں اور سننے والے کانوں میں زہر گھول دیا، چرب زبانی سے باور کرانے کی کوشش کی کہ نواز شریف سیاست سے ہی دستبردار ہو گئے۔ شرلی چھوڑی کہ زرداری اور شہباز شریف میں 3 مسائل پر جھگڑا ہو گا نیب کے خاتمے اور بلدیاتی حکومتوں کا مسئلہ طے پا جائے گا این ایف سی ایوارڈ پر سودے بازی ہو گی اور زرداری اپنے بیٹے بلاول کو وزیر اعظم بنوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ درست ہے کہ پیپلز پارٹی نے اقتدار کے بہتے گندے نالے میں صرف پاؤں بھگوئے ہیں تاہم وزارتوں میں شامل ہوئے بغیر سب آئینی عہدے حاصل کر لیے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں پنجاب سے آؤٹ ہو گئی۔ اس بار بھی دس نشستیں ملیں لیکن ایک زرداری سب پہ بھاری ”زبانوں سے نکل کر محاورہ بن گیا، آصف زرداری دوسری بار بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہو گئے پنجاب کی گورنری، سینیٹ کی چیئرمینی، بلوچستان کی حکومت اور بے شمار انعامات ان کی جھولی میں ڈال دیئے گئے ایک چڑی باز سیانے نے کہا کہ زرداری شہباز شریف کی نسبت اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ قریب ہیں یوتھیا برگیڈ کے علاوہ ٹی وی چینلوں پر آگ کے شعلے بھڑکانے والے فائر پاور برگیڈ پروپیگنڈے میں مصروف کہ حکومت نہیں چلے گی۔ سات آرڈی ننسوں میں توسیع کی منظوری پر اختلافات دیکھنے میں آئے ارسا چیئرمین کی تقرری کی بھی پی پی کی طرف سے مخالفت کی گئی، لب لباب یا خلاصہ یہ کہ دو ڈھائی سال تک سخت فیصلوں کے باعث شہباز شریف کی جھولی بدنامی اور گالیوں سے بھر چکی ہو گی جس کے بعد بلاول وزیر اعظم بن جائیں گے۔ ان شرلیوں کا اثر یہ ہوا کہ ایک جذباتی نوجوان نے کہا کہ سورج مغرب سے نکل سکتا ہے حکومت پانچ سال پورے نہیں کر سکتی۔ جذباتی نوجوان بھول گئے کہ بندوبستی نظام لانے والے پانچ سال تک اس کی نگرانی بھی کریں گے ایک سے زائد بار مکمل تعاون اور حمایت کا اعلان کر چکے ہیں مہنگائی میں کمی، اصلاحات، قرضے، سرمایہ کاری، نجکاری، آئی ایم ایف سے مذاکرات اور سب سے بڑا مسئلہ امن و امان، بڑے مسائل درپیش ہیں حکومت مضبوط ہو گی یا کمزور ابھی سے کیوں طبع آزمائی، قافیہ ردیف جوڑے جا رہے ہیں ادھر بانی پی ٹی آئی حال مقیم اڈیالہ جیل روزانہ نئے شگوفے چھوڑتے ہیں کچھ دن پہلے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کر دیا دو دن بعد حلقے 8 ہو گئے گزشتہ ہفتے حلقوں کی تعداد 30 ہو گئی۔ دو چار ہی کھلے تھے کہ پی ٹی آئی والوں کی آنکھیں کھل گئیں دوبارہ گنتی میں ن لیگی کامیاب ہونے لگے۔ بیرسٹر گوہر علی خان نے شور مچا دیا روکو روکو، دوبارہ گنتی نہیں ہو سکتی، کیا کریں 180 سیٹیں دلانے کے لیے کیا سارے ڈبے سڑکوں پر ڈھیر کر دیے جائیں، خیبر پختونخوا میں 30 حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات شروع ہو گئی ہے۔ کب تک خیر منائیں گے؟ خان صاحب ہار ماننے والے نہیں ہیں۔ ایک ہی رٹ اقتدار دے دو گلے سے لگا لو کاندھے پر بٹھا لو، نیا دعویٰ سامنے آ گیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے مجھ سے رابطہ کر کے تین سال تک خاموش رہنے اور اس کے بدلے مراعات دینے کی پیشکش کی ہے۔ ”دل کا بہلاوہ“ کوئی آیا نہ گیا۔ انہوں نے اب تک ملک کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اور آئی ایم ایف کو قرضے دینے سے روکنے، یورپی یونین کو پاکستان کا جی ایس پی سٹیٹس ختم کرنے اور امریکی فارن افیئرز کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان امریکا تعلقات زیر بحث لانے کے جو اقدامات کر رہے ہیں اس کے بعد انہیں کسی قسم کی سہولت ملتی بظاہر نظر نہیں آتی، سانحہ 9 مئی کے ملزموں کے بارے میں خان کے حالیہ بیان پر برف پگھلنے کا تاثر دینے والوں کو اس وقت مایوسی ہوئی جب دو دن بعد ہی خان نے تصادم کی پالیسی جاری رکھنے کی ہدایت کی وکلا ہدایت سن کر باہر نکلے تو خاصے پریشان تھے ”جو تیری جیل سے نکلا سو پریشان نکلا“ طے پا گیا کہ سانحہ 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ سمیت ملزموں کو سخت سزائیں دی جائیں گی ایک ذمہ دار افسر نے سانحہ پر دو لفظوں سے پالیسی واضح کر دی۔ ”ناقابل فراموش“ ناقابل معافی جیل کے دروازے فی الحال کھلتے نظر نہیں آتے، دروازے کیا کھلیں گے ملاقاتوں پر بھی دو ہفتوں کے لیے پابندی لگا دی گئی ہے۔ آنے جانے والوں نے جیل کو جی ٹی روڈ بنا لیا تھا دہشتگردوں نے حملوں کا منصوبہ بنا لیا۔ ملاقاتوں پر پابندی میں توسیع کا امکان ہے، با خبر ذرائع بتاتے ہیں کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد خان صاحب کو اڈیالہ جیل سے لاہور اور لاہور سے ساہیوال جیل منتقل کر دیا جائے گا۔ یہاں سکیورٹی کے انتظامات انتہائی سخت ہیں، مرغیاں کڑک ہیں انڈے نہیں دیتیں، مرغے دستیاب نہیں، بانی پی ٹی آئی یعنی خان صاحب ان دنوں بالکل ہی فارغ ہیں جیل سے باہر کی فضا بدلی ہوئی ہے۔ ان کا پورا شہر بھنبھور لوٹ لیا گیا 180 سیٹیں آثار قدیمہ میں دفن ہو گئیں، مخصوص نشستیں حماقتوں کی نذر، علی امین گنڈا پور نے معاہدہ اسلام آباد پر سر جھکا دیا خان صاحب اقتدار کے کھنڈرات پر بیٹھے کسی نئے شہر کی تلاش میں مگن ہیں اور ”ہم نہ باز آئیں گے تصادم سے“ کا مصرع الاپتے رہتے ہیں۔ اسد قیصر نے یہی مصرع دہرانا شروع کر دیا کہ ہم ایوانوں اور سڑکوں پر مقابلہ کریں گے کچھ نہیں ہو گا کچھ نہیں ہوا۔ لڑائی جاری ہے لڑائی جاری رہے گی ملک دشمن سرگرمیاں ان شاء اللہ ناکام ہوں گی پاکستان یار لوگ اماں جان کے جہیز میں لے کر نہیں آئے تھے یہ لاکھوں شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں کا ثمر ہے ان شاء اللہ قائم دائم رہے گا۔
تبصرے بند ہیں.