ہم اور ہمارا مال قابل اعتبار

109

غزہ پر اسرائیلی یلغار، آرٹلری کی توپوں کی گولہ باری، ہوائی جہازوں سے بمباری، ہسپتالوں پناہ گاہوں اور سکولوں میں گھس کر عورتوں اور بچوں کے بہیمانہ قتل و اغوا کی کارروائیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ گذشتہ چھ ماہ سے جاری ہے۔ جنگ بندی کے ڈرامے کئی مرتبہ شروع کیے گئے لیکن اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرانے کے بعد ظلم و ستم کا سلسلہ پہلے سے زیادہ شدت سے شروع ہو گیا۔ اقوام متحدہ جیسا ادارہ نیم خوابیدگی کے عالم میں لا تعلق پڑا رہا پھر جب اسے متعدد بار جھنجھوڑا گیا تو بے دلی سے آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور نیم دلی سے نہایت سست رفتاری سے کام کا آغاز اسی طرح کیا جس طرح وہ ماضی میں مسلمانوں پر جارحیت کرنے والوں کے خلاف بوسنیا میں اور دنیا کے دیگر ملکوں میں کرتا نظر آیا۔ اسکی طرف سے اس جارحیت کو روکنے کیلے بلائے جانے والے اجلاس میں تاخیری حربے نظر آئے۔ در حقیقت وہ اسرائیلی فوجوں کو وقت مہیا کر رہا تھا کہ وہ اپنی پوزیشن مستحکم کر لیں اور فلسطینیوں کو غزہ سے باہر نکالنے کا کام مکمل کر لیں جو تا ایں دم نہ ہو سکا۔ فلسطینی نوجوان، بزرگ، عورتیں، بچے اس یلغار کے سامنے ڈٹ گئے انہوں نے چھ ماہ میں وسائل موجود نہ ہونے کے باوجود جس طرح اسلحہ سے لیس فوج کا مقابلہ کیا ہے وہ مکاروں کے ہاتھوں لکھی گئی تاریخ میں تو شاید جگہ نہ پا سکے لیکن وقت کے ماتھے پر انکی قربانیوں اور جد و جہد کی تاریخ کو کوئی نہ مٹا سکے گا۔

نام نہاد اسلامی امہ جس کا وجود اب صرف کاغذوں اور فائلوں تک ہے دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف کسی بھی ہونے والی جارحیت کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ ستم بالائے ستم وہ بھوکے اور پیاسے مجاہدین کی مدد کیا کرتے وہ انہیں انسانی ہمدردی اور بین الاقوامی قوانین کے ہوتے ہوئے خوراک، پانی اور ادویات بھی نہ پہنچا سکے۔ انکی بیان بازیاں جارحیت کا شکار افراد کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کرتی رہیں انکی نسبت بعض غیر مسلم ممالک کی حکومتوں اور انکے شہریوں نے مثالی کردار ادا کیا وہ ٹی وی سکرینوں پر مسلم کش سرگرمیاں دیکھ کر گھروں میں بیٹھ کر کف افسوس ملنے کے بجائے سڑکوں سے پر نکلے، ان میں ہر عمر کے مرد و زن، بچے اور بزرگ شامل تھے جنہوں نے امریکہ اسرائیل اور اسکے حواریوں کا مکروہ چہرہ دنیا کو دکھایا مختلف ممالک کی پارلیمنٹ میں شدید پابندیوں کے باوجود مسئلہ فلسطین پر بات کی گئی، اسرائیل کی پُر زور مذمت کی گئی اور اسرائیل کی امداد رکوانے کیلئے ہر طرح کی کوششیں کی گئیں۔ وہ ملک اور انکے حکمران جو درحقیقت ظالم کا ہاتھ روک سکتے تھے وہ اپنے جُبے اور ٹوپے سنبھالتے رہے۔ وہ اسرائیلی فوجوں کا محاصرہ ختم کرا کے امدادی سامان ان مظلوموں تک پہنچا سکے نہ انکی فوجی یا اخلاقی امداد ہی کھل کر، کر سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رمضان کا مقدس آن پہنچا صحن حرم تو نمازیوں سے بھر گیا طواف کعبہ بھی زور و شور سے جاری ہے لیکن فلسطین کسی کو یاد نہیں نہ ہی اسکی حالت زار پر کسی کا دل بھر آیا۔ سب آج بھی پردہ غیب سے ابابیلوں کی آمد کے منتظر ہیں، وہ یہ بھولے ہوئے ہیں ابابیلیں اس وقت آئی تھیں جب مقابلے پر ہاتھی اُمڈے چلے آ رہے تھے آج کے مشینی دور میں ٹینک ہیں، توپیں ہیں، جہاز ہیں، مشین گن ہیں، بندوقیں ہیں اور یہ سب کچھ تمام مسلمانوں کے اسلحہ زخیروں میں موجود ہے اسے شاید وہیں پڑے پڑے زنگ لگ جائے گا اسکے استعمال پر کسی کا دھیان نہیں حالانکہ اسلحہ کے یہ انبار خریدے ہی اس لیے گئے تھے کہ بوقت ضرورت اپنی حفاظت کیلئے استعمال کیے جائیں۔ یہاں یہ سوچ کار فرما ہے کہ اسرائیل کو غزہ دے دیا جائے تو پھر وہ مسلمانوں کا دوست بن جائیگا اور دنیا میں امن ہو جائیگا یہ مسلمان ممالک کی خام خیالی ہے اس محاذ کے بعد ایک اور محاذ کھلے گا پھر اس کے بعد ایک اور، یوں یکے بعد دیگرے مسلمانوں کی نسل ختم کرنے کا ایک امریکی و اسرائیلی منصوبہ ہے جس کے ادراک کی ضرورت ہے۔ انکا اہم ہدف مکہ اور مدینہ ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس اسلامی وحدت کے نشان کو فتح کیے بغیر انکا مشن مکمل نہیں ہو سکتا اسی منصوبے پر بھارت میں کام شروع ہو چکا ہے۔ کشمیر کی حیثیت بدلنے کے موقع پر ہماری بے حسی اور بزدلی نے بھارت کو شہہ دی ہے اب مسلمانوں کے خاتمے کے منصوبے کا اعلان کر کے مودی نیا الیکشن جیتے گا۔ اس کے بعد بھارت کی دہشت گرد تنظیمیں اس منصوبے پر کھل کر عمل کریں گی۔ دوسری طرف امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو سپورٹ کرنے کیلئے بھارتی لابی نے دن رات ایک کر دی ہے وہ سمجھتے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمان دشمن پالیسیاں اور بھارت کی مسلم کش دشمنی دونوں ملکوں میں قدر مشترک ہے اسکا امریکہ کو کوئی فائدہ ہو نہ ہو بھارت خطے میں اسکا بڑا فائدہ اٹھائے گا۔ بھارت کے اندر اور بھارت کے باہر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے گا۔ پاکستان کے اندر بھارت سے تعلقات بڑھانے، تجارت شروع کرنے، ثقافتی وفود کے تبادلے کرنے اور بھارت جا کر کرکٹ کھیلنے جیسے معاملات پر کام شروع ہو چکا ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں کچھاؤ اس وقت آیا جب اس نے کشمیر میں ایک غیر قانونی کارروائی کرتے ہوئے اسکی حیثیت بدل دی۔ ہمارے حکمران اس وقت غصے کے عالم میں یہ کہتے پائے گے ”تو کیا اب میں بھارت پر حملہ کر دوں“۔ یہ وہ وزیر اعظم پاکستان تھے جو مسلم امہ کا عالمی لیڈر بننے کے دعویدار تھے، انہوں نے ماحولیات کے حوالے سے یو این کے ایک اجلاس میں مسلمانوں کے حقوق کی بات کی جو بے وقت کی راگنی تھی۔ اس بات کا اثر اس اجلاس میں ہوتا جب مسلمانوں پر دنیا بھر میں دہشت گردی اور بالخصوص فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے وہ شعلہ بیانی کا مظاہرہ کرتے۔ وہ اپنے زمانہ اقتدار میں اہل پاکستان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے تسبیح کے دانے تو گھماتے رہے لیکن فلسطین کے مسلمانوں کیلئے انہوں نے اپنے دورہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک لفظ تک نہ کہا مگر اس کے باوجود انہوں نے از خود اختیارات کے تحت اعلان کیا کہ وہ ایک اور ورلڈ کپ جیت کر آئے ہیں۔ ان کے اس اعلان کے بعد بھارت نے کشمیر پر اپنا قبضہ مکمل کر لیا۔ پاکستان ایک مرتبہ پھر بھارت کی طرف بحالی تعلقات کیلئے لپکنے پر تیار بیٹھا ہے لیکن بھارت نے واضح لفظوں میں اعلان کر دیا ہے کہ اب آئندہ کسی بھی مرحلے پر کسی بھی ایجنڈے میں کشمیر پر بات نہیں ہو گی۔ گویا بھارت نے اس حوالے سے مذاکرات کا باب بند کر دیا ہے پھر ہم کس منہ سے بھارت کے تلوے چاٹنے کی تیاریوں میں لگے ہیں۔ بھارت سے تجارت ہماری معیشت کو تباہ و برباد کر دے گی، چند کاروباری گھرانوں کی دولت میں اضافہ ضرور ہو گا۔ ہم بناتے کیا ہیں اور کس قیمت پر فروخت کرتے ہیں جو بھارت ہم سے خریدے گا، وہ دنیا کی ہر چیز ہم سے بہتر اور سستی بنا رہا ہے وہ ہمارا مہنگا مال کیوں خریدے گا۔ پھر دنیا میں سستا ترین مال تو چین بیچ رہا ہے جو پائیدار بھی ہے۔ ہم تو بات پائیدار کرتے ہیں نہ ایسا مال تیار کرتے ہیں، دنیا میں ہمارا اعتبار ختم ہوئے عرصہ ہوا۔

تبصرے بند ہیں.