ایک زرداری،سب پر بھاری

64

آصف علی زرداری کوبھاری اکثریت سے ملک کا صدر منتخب کرلیاگیاہے۔آصف علی زرداری کون ہیں؟ آصف علی زرداری دوسری مرتبہ صدر منتخب ہو گئے ہیں۔گزشتہ دنوں صدر کا انتخاب ہوا جس میں حکمران اتحادکے نامزد امیدوار آصف علی زرداری نے 411 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جب کہ ان کے مد مقابل سنی اتحاد کونسل کے امیدوار محمود خان اچکزئی نے 181 ووٹ لیے۔اس سے قبل زدارری سن 2008 سے 2013 تک صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔ آصف علی زرداری کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حاکم علی زرداری سندھ میں بسنے والے بلوچ قبیلے کے سربراہ تھے۔انہوں نے کراچی ہی میں سینٹ پیٹرک سکول سے تعلیم حاصل کی اور بعد میں کیڈٹ کالج پٹارو سے بھی فارغ التحصیل ہوئے۔ شادی سے قبل ہی آصف زرداری نے عملی سیاست میں قدم رکھا دیا تھا۔ انہوں نے 1985 میں غیرجماعتی انتخاب میں حصہ لیا مگر ناکام رہے۔ آصف زرداری کا نام پہلی بار اس وقت خبروں کی زینت بنا جب خبر آئی کہ بینظیر بھٹو جلد ہی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجائیں گی۔ 18 دسمبر 1987 میں آصف علی زرداری کی بینظیر بھٹو سے شادی ہوئی جس کے بعد آصف زرداری کو سیاسی طور پربھی بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔نوے کی دہائی میں آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات تواتر سے لگتے رہے جب کہ انہوں نے مجموعی طور پر چودہ برس جیل میں گزارے۔ پیپلز پارٹی کرپشن کے ان الزامات کو ملک کے طاقت ور خفیہ اداروں کی جانب سے زرداری کو بدنام کر کے پیپلز پارٹی کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش قرار دیتی رہی ہے۔ آصف زرداری نے کم وبیش 14 سال جیلوں میں گزارے ہیں، 1993 میں آصف علی زرداری کی جیل سے رہائی کے کچھ عرصہ بعد محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔ 4 نومبر 1996 کوآصف علی زرداری کو پھر گرفتار کیا گیا۔ان کی آخری قید کی سزا 2004 تک تقریبا آٹھ سال تک جاری رہی۔ زرداری کے مطابق اس دوران انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ اس قیدکا اختتام اس وقت ہوا جب اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف ملک میں سیاسی مفاہمت کے لیے قومی مفاہمی آرڈیننس؟ این آر او؟ کی منظوری دی۔ 1993میں جب اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا تو آصف زرداری کو جیل سے سیدھا ایوان صدر لے جایا گیا جہاں انہوں نے عبوری حکومت میں وزیرکی حیثیت سے حلف اٹھایا۔بعد ازاں جب 1993 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی تو آصف علی زرداری اپنی اہلیہ کے ہمراہ اسلام آباد میں وزیراعظم ہاؤس چلے گئے جہاں وہ اگلے تین سال رہے۔ 1996 میں جب ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا گیا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا\سن دو ہزار سات میں پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو راولپنڈی میں ایک دہشت گردانہ حملے میں شہید ہو گئیں اور اس کے بعد ہونے والے عالم انتخابات میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آ گئی۔ ایسے میں سن دو ہزار آٹھ میں آصف علی زرداری ملکی صدر کے عہدے پر براجمان ہو گئے۔ صدر زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت پاکستانی تاریخ کی وہ پہلی حکومت تھی جس نے پانچ سال کی آئینی مدت مکمل کی۔ اس دوران ملک میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے تمام انتظامی اختیارات صدر کے عہدے سے وزیراعظم کے عہدے میں منتقل کیے گئے جب کہ ملکی پارلیمان کو دستوری طور پر مضبوط بنایا گیا۔ صدارت کے دوران آصف زرداری کے سامنے کمزور مینڈیٹ، عسکریت پسندی کے خطرات، امریکہ سے کشیدہ تعلقات، فوج کیساتھ تناؤ، وکلا تحریک اور سیلاب کی تباہ کاریوں جیسے بڑے چیلنجز کھڑے رہے۔ مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لا دن کو امریکی اسپیشل فورسز نے ایک آپریشن کرکے ہلاک کر دیا۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پیپلزپارٹی اورملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشیدگی واضح طور پر دیکھی گئی۔ نومبر 2011 میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے استعفے سے انہیں ایک اور دھچکا لگا۔ حقانی اور صدر زرداری دونوں پر ایک متنازعہ میمو کا مسودہ تیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس میں پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کی صورت میں امریکی مدد طلب کی گئی تھی۔ تاہم حسین حقانی اور آصف زرداری اس الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔ اب دوسری مدت کے لیے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد آصف زرداری کا سب سے بڑا چیلنج ملک میں سیاسی پولرائزیشن کا خاتمہ اور سول اور ملٹری ریلشن شپ کو بہتر بنانا ہو گا۔ مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت کے ساتھ ایوان صدر کے تعلقات خوشگوار ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے تاہم سیاست میں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے، مسلم لیگ ن کے لیے اپنے سب سے بڑے اور پرانے سیاسی حریف کو ووٹ دے کر ایوان صدر میں لانا ایک بڑی سیاسی پیش رفت قراردی جا رہی ہے۔

 

تبصرے بند ہیں.