مسلم عالمگیر تنظیمیں اور مٹھی بھر یہود!

34

عالم اسلام کے خلاف سیکڑوں سال سے جاری یہود و ہنود کی شر انگیزیوں نے نہ صرف مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا بلکہ پوری دنیا کے امن و سلامتی کو بھی تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ یہودیوں کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویوں اور مسلم کش پالیسیوں نے عالم اسلام کو جڑوں تک ہلا دیا چنانچہ عالم اسلام کو متحد کرنے اور مسلم دشمن پالیسیوں کے سد باب کے لیے 28 مارچ 1945ء کو ”قاہرہ“ مصر میں عرب لیگ کی بنیاد رکھی گئی جس کا مقصد عربوں کا باہمی اتحاد اور اسرائیل کے مبینہ حملوں کی روک تھام کے علاوہ ایسی تمام کارروائیوں کے آگے بند باندھنا تھا جو عالم اسلام کو شدید تر نقصان پہنچانے کا موجب بن رہی تھیں۔ ابتدا میں سعودی عرب، مصر، شام، اردن، یمن اور لبنان نے اس میں شمولیت اختیار کی مگر بعد میں لیبیا، کویت، الجزائر، سوڈان، تیونس، مراکش، بحرین، عمان، جمہوریہ یمن، صومالیہ، فلسطین، قطر، جبوتی، ماریطانیہ اور متحدہ عرب امارات بھی اس میں شامل ہو گئے۔ اس بڑے اتحاد کے باوجود اسرائیلی جارحیت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی تو عربوں نے اس سے ایک قدم اور آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں مسلم امہ کا ایک بین الاقوامی ادارہ ”مسلم ورلڈ لیگ“ مئی 1962میں قائم ہوا۔ یہ ادارہ، مکہ مکرمہ میں وجود میں آیا، خالصتاً ایک غیر سیاسی، غیر جانبدار اور غیر فرقہ وارانہ تنظیم کا حامل قرار پایا۔ اس ادارے کے اغراض و مقاصد میں شامل ہے کہ 1۔ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو ساری دنیا میں پہنچانا۔ 2۔ دشمنان اسلام کے جھوٹے پراپیگنڈوں کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو غلط تاثر قائم ہوئے ہیں، انہیں دور کرنا۔ 3۔ مسلمانوں اور خاص طور پر مظلوم اور اقلیتی مسلمانوں کو اپنے مذہبی، تنظیمی و ثقافتی حقوق اور سرگرمیوں کا تحفظ و انہیں ترقی دینے میں مدد دینا۔ 4۔ اسلامی دعوت کو فروغ دینے اور اتحاد و سالمیت کے حصول میں مسلمانوں کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ۔۔۔! مسلمانوں کے ان اقدامات نے یہود و نصاریٰ کو مزید سیخ پا کر دیا اور وہ ایک نئے انتقامی جذبہ کو لے کر مسلمانوں کے خلاف میدان عمل میں اتر پڑے اور پھر جب بالخصوص ان یہودیوں کی شر انگیریاں و شر افشانیاں حد سے تجاوز کر گئیں تو 21ء اگست 1969ء کو مسجد اقصیٰ میں آتش زنی کا واقعہ
پیش آیا جس نے پورے عالم اسلام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کے واقعہ نے مسلمانوں کو ایک بڑے اتحاد کی طرف سوچنے پر مجبور کر دیا چنانچہ اسی سال 25 اگست کو قاہرہ میں عرب لیگ کے چودہ رکنی ممالک کے وزراء خارجہ کا اجلاس طلب کر لیا گیا جس میں متفقہ طور پر سعودی عرب کے شاہ فیصل اور مراکش کے شاہ حسن دوئم کو اختیار دیا گیا کہ وہ دنیا کے اسلامی ممالک کے سربراہان کی کانفرنس بلانے کا اہتمام کریں لہٰذا کانفرنس کے اس باضابطہ اجلاس سے قبل سات اسلامی ممالک پر مشتمل وزرائے خارجہ کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جسے ”تیاری کمیٹی“ کا نام دیا گیا۔ اس تیاری کمیٹی کا باقاعدہ اجلاس 29 اگست 1969 کو مراکش کے شہر رباط میں منعقد ہوا جس میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس اجلاس میں 35 اسلامی ممالک کے سربراہوں کو شرکت کی دعوت دی جن میں سے 25 ممالک نے اس اجلاس میں شرکت کی دعوت کو قبول کر لیا اس طرح 22 ستمبر 1969 کو رباط کے ہلٹن ہوٹل میں اسلامی سربراہوں کی پہلی کانفرنس کا انعقاد ہوا جو تین روز تک جاری رہا۔ یہ اسلامی سربراہی کانفرنس جسے ”او آئی سی“ کہا جاتا ہے۔ کیا آج تک اپنے ان مقاصد میں کامیاب ہو پائی جن مقاصد کے حصول کے تحت اس کا وجود عمل میں لایا گیا؟ جیسا کہ اس سے قبل کہا جا چکا ہے کہ او آئی سی کے قیام اور اس مسلم اتحاد نے یہودیوں کو نہ صرف سیخ پا کر دیا بلکہ انہوں نے اپنی ان کارروائیوں اور جارحیت میں بھی مزید اضافہ کر دیا لہٰذا اپنی اس روش اور مسلم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے اکتوبر 1973 میں عرب کے ساتھ باقاعدہ جنگ چھیڑ دی جس کے نتیجے میں اسلامی سربراہوں کا اجلاس بلانا ناگزیر ہو گیا اور یہ اجلاس جو مصر میں ہونا طے پایا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی خصوصی درخواست پر پاکستان منتقل کر دیا گیا جس میں بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا بھی ایک ایجنڈا تھا جو پاکستان کی مرضی و منشا کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا چنانچہ 22 فروری 1974 کو دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی جو تین روز تک جاری رہی حسب سابق قراردادیں پیش اور منظور ہوئیں اور اجلاس بھی حسب روایت اختتام پذیر ہوا۔ تب سے لیکر اب تک ان مسلم عالمگیر تنظیموں کے سیکڑوں نہیں تو درجنوں اجلاس منعقد ہو چکے اور درجنوں قراردادیں پیش و منظور بھی ہوئیں لیکن ان اجلاسوں اور منظور کردہ قرار دادوں کے کوئی مثبت نتائج جنہیں ہم کہہ سکیں کہ ان کے باعث مسلم امہ متحد ہوئی، مضبوط ہوئی، یکجا ہوئی یا میدان عمل میں اتری؟ فی الوقت تو کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا البتہ اس کے برعکس مسلم امہ آپس میں دست و گریبان ضرور ہوئی۔ مشرق وسطیٰ کے چار بڑے اور طاقتور ممالک مصر، شام، ایران اور عراق خانہ جنگی کی لپیٹ یا آپس کی جنگوں میں الجھ کر تباہ ضرور ہوئے اردن، یمن، سوڈان کی عسکری، سیاسی و معاشی قوت کو بکھیر کر رکھ دیا گیا۔ یہود و نصاریٰ کی زنجیروں میں جکڑے یہ اسلامی ممالک اور ڈیڑھ ارب سے زائد سے مسلمان، کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں؟ ان تمام تر حالات و واقعات کے ذمہ دار آخر ہے کون؟ شائد اس کا جواب کسی کے پاس نہیں اور اگر ہے تو وہ اس کا جواب دینے کا اہل نہیں غالباً اس لیے کہ یہ بھی ایک بین الاقوامی حمام ہے۔ ماضی کی طرح اسرائیل نے ایک بار پھر فلسطینی عوام پر قیامت ڈھا دی۔ تاریخ کی بدترین بمباری نے غزوہ کو جو صرف 22، 23 لاکھ آبادی کا شہر ہے، کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہزاروں بے گناہ و معصوم شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا جن میں معصوم و ننھے بچے بھی شامل ہیں دیکھا جائے تو شہری آبادیوں جن میں سکول، کالج، ہسپتال شامل ہیں، کو نشانہ بنانا اور انہیں ملیا میٹ کر دینا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت ایک گھناؤنا جرم ہے جس کی تحت اسرائیل باقاعدہ ایک جنگی مجرم ہے لیکن امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے دورہ تل ابیب پر یہ کہا تھا ”مجھے اسرائیل آنے پر فخر ہے، ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، اسرائیل دنیا میں یہودیوں کے لیے محفوظ ریاست کے طور پر قائم ہوا، میں کانگریس سے اسرائیل کے لیے دفاعی پیکیج کو منظور کراؤں گا، اسرائیلی لوگوں کی جرأت، عزم اور حوصلے کو سراہتا ہوں، دنیا دیکھ رہی ہے کہ کہ ہم کیا کریں گے، 7 اکتوبر اسرائیل کے لیے 9/11 ہے۔۔۔!“ دوسری طرف او آئی سی کا ہنگامی اجلاس، سربراہی نہیں بلکہ بین الوزارتی جس میں چند اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ نے شرکت کی۔ اجلاس میں ماضی کی طرح قرار دادیں پیش اور منظور کی گئیں۔ مٹھی بھر یہودیوں نے غزہ سمیت عالم اسلام کو تباہ کر دیا اور عالمگیر مسلم تنظیمیں فقط قراردادیں پاس کرتی رہ گئیں۔ جب تک حرم کی پاسبانی کے لیے مسلم ایک نہیں ہوں گے یہ مٹھی بھر یہود عربوں و اربوں مسلمانوں پر اسی طرح حاوی و بھاری رہیں گے۔

تبصرے بند ہیں.